ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

گزشتہ چند دن سے یمن کی صورتحال زبان زدعام ہے ۔ نجی محافل میں گرما گرم تبصرے ہو رہے ہیں ۔ الیکٹرانک میڈیا کو تو ایک موضوع بحث مل گیاجس پہ ہر نجی ٹی وی گرما گرم مباحثے کروا رہے ہیں ۔ اس موقع پرسیاسی جماعتوں نے اپنے مؤقف کا بھرپور اظہار کیا ۔ حکومت وقت نے اس ناز ک صورتحال سے نمٹنے کے لیے مجلس شوریٰ کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس طلب کیا ۔اجلاس میں معزز ممبران نے کھل کر اپنا نقطہ ٔ نظر بیان کیا۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے ہر رکن ِ مقننہ کو جوش ِخطابت دکھانے کا بھرپور موقع ملاجس کا انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایااور ایک دوسرے پہ لفظی تیر اندازی کی ۔ ما سوائے محدودِ چند سیاست دانوں کے کسی کی طرف سے بھی سنجیدگی کا مظاہرہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ حکومتی وزراء نے اس موقع کو پی ٹی آئی پہ پھبتیاں کسنے کے لیے غنیمت جانا جبکہ حزب اختلاف نے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ میاں برادران سعودیہ کے شاہی خاندان سے اپنی ذاتی دوستی نبہا رہے ہیں اور اس سلسلے میں وہ سعودی خاندان سے کوئی خفیہ معاہدہ بھی کر چکے ہیں ۔ بہر حال اس سارے منظرنامے میں پاکستان کی مقننہ نے مشترکہ قرارداد بھی پاس کی جس کی رو سے تمام سیاسی جماعتوں نے پاکستان کو غیر جانب دار ثالث کا کردار ادا کرنے اور خطرے کی صورت میں سعودی عرب کی فوجی امداد کرنے پہ اتفاق کیا گیا ہے ۔ہمارا میڈیا حسب سابق سنسنی پھیلانے کی کوششس کر رہا ہے ۔حقائق کو پس پشت ڈال کر محض سستی شہرت کے حصول کے لیے اس کو مختلف رنگ دے کر عوام میں شکوک و شبہات پھیلائے جارہے ہیں ۔ انہی شکوک و شبہات کی وجہ سے قوم شدید مخمصے کا شکار ہے ۔

ایک رائے یہ پھیلائی جا رہی ہے کہ یمن میں جاری خانہ جنگی شیعہ سنی جنگ ہے لہذا پاکستان کو اس میں نہیں کودنا چاہیے ورنہ پاکستان میں بھی یہی جنگ اپنے عروج تک پہنچ جائے گی۔اس رائے کی وجہ وہ یہ قرار دے رہے ہیں کہ حوثی چونکہ شیعہ زیدیہ سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے یہ شیعہ سنی جنگ ہے ۔ حالانکہ حقیقت اس سے مختلف ہے ۔ باغیوں میں شیعہ اور سنی دونوں شامل ہیں ۔باغیوں کا تعلق القاعدہ اور داعش جیسی تنطیموں سے ہے ۔ یمن میں اس سے قبل مذہبی رواداری کاعالم تھا ۔ شیعہ اور سنی ایک ہی مسجد میں اکٹھے نماز ادا کیا کرتے تھے ۔ یمن کے شیعہ زیدیہ ہیں جو اہل سنت والجماعت سے انتہائی قریب ہیں ۔ البتہ حوثی باغیوں کے پر تشدد اقدامات نے فضا ء کومخدوش کر دیا ہے ۔ اگر اس جنگ کو روکا نہ گیا تو بعد ازان یہ شیعہ سنی نزاع کا باعث بھی بن سکتی ہے ۔ پاکستان میں موجود شیعہ اور سنی تنظیموں نے علیحدہ علیحدہ طور پہ اپنے اپنے حلیفوں کے حق میں مظاہرے کیے ہیں ۔ سنی مسلک کی بنیاد پہ قائم جماعتوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سعودیہ کے ساتھ بھرپور فوجی تعاون کریں ۔جبکہ دوسری جانب شیعہ مکتبہ فکر کی جماعتوں نے حکومت پر اس جنگ سے باہر رہنے کیلئے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ بات تو طے ہے کہ یمن میں شیعہ سنی کی لڑائی نہیں ہے اور نہ ہی اسے ایسا رنگ دینا چاہیے ۔ میڈیا کو مسلکی بنیاد پہ عوامی جذبات کو مشتعل کرنے سے باز رہنا چاہیے ۔

جہا ں کچھ لوگ اسے مسلکی جنگ قرار دے رہے ہیں وہیں میڈیا میں اسے سعودی عرب اور یمن کے مابین جنگ قرار دیا جا رہا ہے اور ہمارے سیکولر طبقات حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ دوسرے ممالک کے درمیان جاری جنگ کا خود کو حصہ نہ بنایا جائے ۔ اسی طرح بعض حلقوں نے اسے سعودیہ اور ایران کے مابین سرد جنگ بھی قرار دیا ہے ۔ حالانکہ ایران نے اس جنگ میں اپنا کردار ادا کرنے کی پیشکش بھی کر دی ہے ۔ ان لوگو ں کا ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ یہ محض پاکستانی اور سعودی حکمرانوں کے درمیان معاہدے ہیں اور ان کا خمیازہ پاکستان کی عوام کو بھگتنا پڑے گا۔ حالانکہ جب معاملہ دو ممالک کے درمیان آجائے تو وہ ذاتی نہیں رہتا بلکہ بین الاقوامی ہو جاتا ہے ۔ یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ جنگ نہ تو یمن اور سعودی عرب کی ہے اور نہ ہی اسکا تعلق عرب ایران سرد جنگ سے ہے بلکہ یہ جنگ ان عناصر کے خلاف ہے جو ایک قومی حکومت کے خلاف صف آرا ہیں ۔ حیرت تو اس بات پہ ہے کہ پاکستان کی حکومت کے خلاف برسر پیکار طالبان کے خلاف تو یہ لوگ مذاکرات کو حرام اور شجرممنوعہ سمجھتے ہیں اور یمن میں اسی طرح کے باغیوں کے ساتھ بات چیت کو ہی مسئلے کا حل تصور کیا گیا ہے ۔ آخر یہ دو رنگی کیوں ؟
یمن کا مسئلہ قدیم ہے اور ایک تاریخی اہمیت رکھتا ہے ۔ یہ محض چند سال یا ماہ کا مسئلہ نہیں ہے ۔ لہذا اس کہ سمجھنے کے لیے تاریخ سے رہنمائی لینا ہو گی ۔یمن جزیرہ نما عرب کے جنوب میں ایک پٹی کی صورت میں پھیلا ہوا ملک ہے جو ایک قدیم تاریخ رکھتا ہے ۔اہل عرب کے لیے یہ ایک تجارتی مرکز تھا ۔ قریش شام اور یمن کی طرف تجارتی قافلے بھیجا کرتے تھے ۔ یہی ملکہ سبا کا مسکن تھا جو حضرت سلیمان ؑ کی دعوت پہ ایمان لائی ۔ ملکہ سبا کیپیش روؤں نے یمن کو خوب ترقی دی۔ معرب ڈیم کی تعمیر سے یمن کی زراعت نے عروج حاصل کیا اور معرب ڈیم کی تباہی تک یہ خطہ ترقی کرتا رہا۔ یہاں کے باسیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کی دعوت کو حق جان کر قبول کیالیکن یہیں پہ اصحاب الاخدود کا واقعہ پیش آیا اور بڑی تعداد میں اہل ایمان کو انگاروں سے بھری خندقوں کی نذر کر دیا گیا ۔ باقی ماندہ کو بزور قوت کفر میں مبتلا کیا گیا ۔ بعد میں ابرہہ نے اس علاقے پہ قبضہ کیا ۔ اس نے خانہ کعبہ پہ حملہ بھی کیا جو ابابیلوں کے غنڈ نے ناکام بنا دیا۔ نبی ﷺ کے عہد میں حضرت ابوذر غفاری ؓ نے ایمان قبول کیا اور ان کی بدولت اسلام کی کرنیں یمن تک پہنچیں۔ نبی ﷺ نے اہل یمن کی تعلیم کے لیے حضرت معاذؓ بن جبل کو بطور امیریمن بھیجا۔ یمن میں اسلام عہد نبوت ﷺ سے ہی جڑیں پکڑ گیا تھا ۔ خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد یمن دو علیحدہ مملکتوں یعنی شمالی یمن اور جنوبی یمن میں منقسم رہا۔ دونوں ریاستوں کے مابین جنگیں ہوتی رہیں ۔ بالآخرگزشتہ صدی کے اواخر میں عرب ممالک کی کوششوں سے دونوں یمن ایک ہو گئے ۔ یمن کے مطلق العنان حکمران علی عبداﷲ صالح نے تقریباًتیس برس حکومت کی ۔عرب بہار میں جہاں دیگر اسلامی ممالک میں سیاسی تبدیلیاں وقوع پزیر ہوئیں وہیں 2012 ؁ء میں یمن میں بھی علی عبداﷲ صالح کی حکومت کو زوال آیا۔ یمن میں تمام جماعتوں کی باہمی مشاورت سے قومی حکومت تشکیل دی گئی اور متفقہ طور پہ منصورہادی کو صدر بنایا گیا۔ابھی اس حکومت کو کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ حوثی باغیوں نے سابق صدر کی حمایت سے حکومت پہ حملہ کر دیا اور دارلحکومت پہ قبضہ کر لیا۔ یمن کے متفقہ صدر عدن میں پناہ لینے پہ مجبور ہوئے ۔ یمن کی قومی حکومت نے امداد کے لیے سعودی عرب سے درخواست کی ۔ سعودی عرب نے یمنی حکومت کی تائید کی تو باغی حوثیوں نے سعودی عرب اور حرمین الشریفین پہ حملے کی دھمکی دے دی ۔ اس دھمکی کو سعودی عرب نے اپنی سلامتی کے لیے خطرہ جانتے ہوئے پاکستان سے فوجی تعاون کی اپیل کی ہے ۔یہ ہے اصل صورتحال جس پہ بحث چل رہی ہے ۔

اگر اصل صورتحال کو سامنے رکھا جائے تو معاملہ واضح ہو جاتا ہے اور پاکستان کا کردار بھی نکھر کرسامنے آ جاتا ہے ۔اگرسیاسی ، عسکری اور معاشی بنیادوں پہ پاکستان کے سعودی عرب سے تعلقات کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ سعودی عرب نے ہر مشکل میں پاکستان کی غیر مشروط مدد کی ہے خواہ وہ پاک بھارت جنگیں ہوں ، سیلاب ہوں یا زلزلے سعودی عرب نے پاکستان سے دوستی کا حق ادا کیا ہے ۔اسکے علاوہ پاکستان کے لاکھوں افراد سعودیہ اور دیگر عرب ممالک میں مزدوری کرتے ہیں ۔یہ بیرون ملک پاکستانیوں کا تقریبا80% ہے اور اسی تناسب سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے حاصل یہ آمدن قومی خزانے کو مل رہی ہے ۔ اسکے علاوہ قرض اور مالی امداد کی مد میں سعودی عرب پاکستان کی مسلسل امداد کر رہا ہے ۔عسکری، سیاسی اور معاشی اعدادوشمار اور سعودی پاک تعلقات کا تقاضا تو یہ ہے کہ سعودی عرب کی بھرپور فوجی امداد کی جائے لیکن پاکستان کے آئین اور دین اسلامی کی تعلیمات کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایک بڑا کردار پاکستان کا منتظر ہے ۔ اور وہ بڑا کردار یہ ہے کہ جنگ کے شعلوں کو بجھا کر امت مسلمہ کو جانی و مالی نقصان سے بچایا جائے۔اس سلسلے میں پاکستان کو مندرجہ دیل اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

۱۔ پاکستان کو فورا ًاسلامی سربراہی کانفرنس کا اجلاس طلب کرنا چاہیے اور تمام مسلم امہ کو ساتھ لے کر اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔اگر سفارتکاری اور گفت وشنید سے معاملے کا حل ممکن ہو تو پہلی ترجیح میں اس حل کی جانب بڑھنا چاہیے۔ لیکن اگر ایسی صورت نہ بن پائے تو بغاوت اور زیادتی کرنے والے فریق کے خلاف طاقت کا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے ۔پاکستان دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ مل کر ایک امن فوج تشکیل دے جو مسلم ممالک میں امن کے قیام کو یقینی بنانے اور تصفیہ طلب امور کو نمٹانے کے لیے استعمال کی جائے۔ اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی کہ غیرمسلم لشکر یہاں آکر اپنے عزائم پورے کرے ۔

۲۔سعودی عرب کا تقدس تمام مسلم ممالک کے لیے مسلّم ہے کیونکہ وہاں حجاز مقدس ہے ۔ باغی گروہ کا تعلق انتہاپسند جماعتوں سے ہے اور ماضی میں ان جماعتوں نے جنگ میں کسی اخلاقی اقدار کا پاس نہیں رکھا۔ قتل انسانیت میں انتہائی بیدردی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ ان سے کوئی بعید نہیں کہ وہ حرمین الشریفین کے تقدس کو بھی پامال کریں ۔اس لحاظ سے سعودیہ کا تحفظ کرنا اور ان مقامات کو دہشتگرد عناصر سے محفوظ رکھنا تمام امت کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ سعودی عرب کے تحفظ کا تقاضا یہ ہے کہ وہاں اپنی فوج بھیجی جائے ۔ مسلم ممالک کی مشترکہ فوج کی موجودگی میں باغیوں پہ یہ خوف طاری ہو گا کہ عالم اسلام کا ہر فرد ان سے برسر پیکار ہے اور اس خوف (Detterence)کی وجہ سے وہ سعودیہ پہ حملے سے باز رہیں گے۔

۳۔پاکستان کو چاہیے کہ وہ عالمی ضمیر کو بیدار کرانے میں اپنا کردار ادا کرے ۔ اقوام متحدہ میں اس مسئلے کو لے جائے اور یمن کی قانونی حکومت کا مقدمہ لڑے ۔اسکے علاوہ کامیاب سفارتکاری کے ذریعے دیگر ممالک کو اپنا ہمنوا بنائے ۔

۴۔یہ تنازعہ امت کا واحد تنازعہ نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ بھی کئی معاملات ہیں جہاں پاکستان کا کردار نہایت اہم ہے لیکن وہاں سرد مہری کا مظاہرہ کیا گیا ۔اگر وہاں پاکستان اپنا مثبت کردار ادا کرتا تہ آج پاکستان کی حیثیت ایک مضبوط فیصلہ ساز اور منصف کی ہوتی ۔ مثلاً مصر کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹا گیا اور وہاں فوجی آمریت اقتدار پہ قابض ہوئی ہزاروں افراد کی جان لی گئی ۔اور اب بھی جمہوری قوتوں کو سزائے موت سنائی جا رہی ہے ۔ وہاں عربوں نے مصری آمریت کا ساتھ دیا اور پاکستان بھی خاموش رہا۔ اب یمن کی جمہوریت کیونکر مصر کی جمہوریت سے بہتر ہو گئی ؟اسی طرح بنگلہ دیش میں پاکستان دشمنی کا مظاہرہ ہو رہا ہے اور ۱۹۷۱؁ ء میں پاکستان کی حمایت کرنے والے بنگالیوں کو تختہ ٔ مشق بنا دیا گیا ہے اس پہ چپ سادھ لینے کی وجہ سمجھ سے باہر ہے ۔امت کو مل کر ان مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے اور پاکستان کا کردار اس میں کلیدی ہے ۔

اگر پاکستان کے ارباب اختیار اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں تو دنیا کو خاص کر امت مسلمہ کو جنگ کی تباہکاریوں سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے اور بڑی طاقتوں کو اپنے استعمار کے لیے دوسرے ممالک میں قتل وغارت گری کا کھیل کھیلنے سے روکا جا سکتا ہے ۔اس وقت امت مسلمہ میں یہ شعور عام کرنے کی ضرورت ہے کہ اپنی توانائیاں اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف استعمال کی جائیں نہ کہ آپس میں باہمی جھگڑوں کی نذر کی جائیں ۔ اگر امت مسلمہ مل کر اس مسئلے سے نبرد آزما ہو جائے تو ہم یہ توقع کر سکیں گے کہ مستقبل میں ہم فلسطین ، کشمیر ، افغانستان اور عراق کے مسائل بھی خود ہی حل کر لیں گے ۔ دوسروں پہ انحصار کرنے کے بجائے اپنے قدموں پہ کھڑے ہونے کی کوشش کی جائے تو کامیابی ہمارا مقدر ہو گی ۔ اگر پاکستان کی حکومت نے وقت کی نزاکت کو بھانپ کر صحیح سمت میں قدم اٹھائے تو مسلم دنیا کو منڈلاتی جنگ کے منحوس سائے سے بچایا جاسکتا ہے اوراس کاوش کی بدولت تاریخ ہمیں امن کے پیامبر کی حیثیت سے یاد رکھے گی۔
 
Raja Muhammad Attique Afsar
About the Author: Raja Muhammad Attique Afsar Read More Articles by Raja Muhammad Attique Afsar: 84 Articles with 91189 views Working as Assistant Controller of Examinations at Qurtuba University of Science & IT Peshawar.. View More