"میرے قاتل میرے دلدار" سائبر سیکیورٹی کے مجوزہ قانون کے پس منظرمیں ایک بلاگ‎

شاید یہ ڈرامہ کا عنوان تھا جو کچھ عرصہ قبل ٹی وی پر دیکھا تھا۔ لیکن جب اپنی قوم اور معاشرے کو دیکھتا ہوں تو لگتا ھے ماسوا ئے کچھ گنے چنے لوگوں کے ہم بھی اپنے قاتلوں کو دلدار بنا کرانکے رومانس میں بری طرح مبتلا ہیں۔ جن لوگوں نے بار بار ہمارے اعتماد کا خون کیا،ہمیں اس حال تک پہنچانے کے براہ راست زمہ دار ہیں ہم بخوشی نہ صرف انکی چاکری کرنے کے لیے تیار ہیں بلکہ اپنے ہی جیسے مظلوموں کو بھی انکے شکنجے میں پھنسانے کے لیےہمہ وقت تیار۔

واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ اگست 1973 میں سویڈن کے دارلحکومت سٹاک ہوم کے ایک بنک کے عملے کو کچھ ڈاکووں نے 6 دن کے لیے یرغمال بنا لیا، رہائی کےبعد مشاہدہ ہوا کہ مغوی نہ صرف مجرموں کے ہمدرد بن چکے ہیں بلکہ وہ انکے نقطہ نظرکو اس حد تک درست جاننے اور حق ماننے لگے تھے کہ انہوں نے حکام کی مدد لینے سے بھی انکار کر دیا۔ اس عجیب و غریب حالت کو بعد میں ایک نفسیاتی بیماری سٹاک ہوم سنڈروم کا نام دیا گیا۔ یہ ایک ایسی زہنی حالت ہے جس میں شکار اپنے شکاری کا مخالف نہیں بلکہ دوست و مددگار ہوتا ہے۔ الٹا جو اسے شکار ہونے سے بچانا چاہے وہ اسکا بھی مخالف ہو جاتا ہے۔

کسی کا سنا جائے توکیسا عجیب لگتا ہے مگر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے ہم تو اجتماعی طور پر اس بیماری کا شکار ہیں۔ نفسیاتی بیماریاں صرف افراد ہی نہیں بلکہ قوم اور معاشرے کو بھی لاحق ہو سکتی ہیں۔ ہم تو اپنے استحصال کرنے والوں سے ایسی محبت کرتے ہیں کہ نہ صرف ان کا بت بنا کر پوجا پاٹ کرتے ہیں بلکہ دوسروں سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں۔ ویسے بھی کسی نے کہا تھا کہ کسی کو بےوقوف بنانا آسان ہے مگر کسی کو یہ سمجھانا مشکل کہ اسے بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔

گو کہ ہمارے یہ اقلیتی استحصالی گروہ جو گروہ در گروہ ہمیں لوٹتے ہیں اور ہم اکثریتی طبقہ جو گروہ در گروہ انہیں خود اس کا حوصلہ دیتے ہیں۔ یہ استحصالی جو نہ ہمیں جینے دیتا ہے نہ مرنے۔ مگر آفرین جائیں اس مغوی معاشرے پر جواپنے استحصالی گروہ کی بھیڑیے جیسی درندگی، لومڑی جیسی مکاری اور گدھ جیسی مردارخواری کا علم ہونے کے باوجود بھی راضی بالرضا ہے۔

اپنے آس پاس دیکھ لیں ہم بخوشی کس کس کے ہاتھ مر ریے ہیں اور مسلسل مر ریے ہیں۔

یہ زمیندار یہ جاگیردارکیا ہمارے معاشرے کے سب سے بڑے ناسور نہیں؟

یہ درگاہوں کے گدی نشین،یہ ملا یہ مفتی، کیا ہماری گردنوں پر پاءوں رکھ کر اونچے نہیں کھڑے؟

یہ صنعتکار و زردار کس کے خون پسینے کی کمائی سے تجوریاں بھر کر بیٹھے ہیں؟

یہ سول اور فوجی حکام کس کی خدمت کے نام پر آتے ہیں؟

یہ علم اور دانش کے نام نہاد دانشور اپنا دکھ اور ہمدردی کس کے لیے دکھاتے ہیں اور فائدہ کہاں سے اٹھاتے ہیں؟

اب یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ان کا سرغنہ کون ہے؟ گو کہ یہ سب آپکہ خون چوسنے کے لیے سانجھے ہیں لیکن بادشاہ تو ایک ہی ہوتا ہے، جو بلاشرکت غیرے تاج و تخت پر دعوی رکھتا ہے۔ اگر وہ باشاہ نہ بھی ہو توباشاہ گر ضرور ہوگا اور پھر باشاہ بننے کا متمنی، کی چھٹتی نہیں ظالم منہ کو لگی ہوئی۔۔۔۔اقتدار چیز ہی ایسی ہے۔

لیکن مسئلہ لوٹنے والوں کا نہیں بلکہ سٹاک ہوم سنڈروم اور نسیان کا شکاراس قوم کا ہے۔ ہم یہ جانتے ہوئے بھی اگلا جھوٹ بول رہا ہے اسکی وکالت اور دفاع کریں گے اور اندھا دھند حمایت کریں گے۔

جن طبقات کا میں نے اوپر حوالہ دیا وہ تو ایک نظام کے تحت ہمیں صدیوں سے ہانک رہے ہیں۔ لیکن ہم تو ان معمولی لوگوں کو بھی سینے سے لگانے پر مصر ہیں جن کا جھوٹ سورج کی طرح صاف سامنے آ چکا ہے۔ کرکٹ کے جوئے میں پکڑے جانے والے کھلاڑی، جعلی ڈگری کے بل بوتے پر ڈاکٹر کہلانے والے نام نہاد سیاستدان اور عالم دین سے مسخرے تک کا سفرکرنے والے کیا ہماری ڈھٹائی سے ہی ہمارے ہیرو نہیں بنے بیٹھے ہیں؟

سوچیں کہیں ایسا تو نہیں، کہ اس بوسیدہ معاشرے، دم توڑتی انسانیت اور بھوک و ننگ میں مبتلا لوگ، انہیں اس حال تک پہنچانے میں کہیں کسی نہ کسی حد تک آپ میں بھی تو زمہ دار نہیں؟

کہیں آپ کی تماش بینی ، یہ خاموشی یا زبانی و عملی حمایت نے، آپکو سٹاک ہوم سنڈروم کا ایسا مریض تو نہیں بنا دیا جو اپنے اصلی دشمن کی پہچان کھو بیٹھا ہے اوراسے شیزوفرینیا کے مریض کی طرح کچھ سچے کچھ جھوٹے، کچھ حقیقی کچھ خود ساختہ دشمن نظر آتے ہیں۔

ہم سب کے اپنے اپنے دشمن ہیں اور جوہمارے اصلی دشمن ہیں، اس دشمنی کے چورن پر انہوں نے ہی ہمیں لگا کر اپنا الو سیدھا کر رکھا ہے ۔ کسی کو یہود و ہنود و نصاری، کسی کو شیعہ،کسی کو سنی اور کسی کو احمدی سے مسئلہ ہے۔ کسی کو ہر معاملے میں انڈیا، اسرائیل، امریکہ اور یورپ کا ہاتھ دکھتا ہے اور اب تو بہت سے لوگ عرب ایران کو ہی ہر بات کے لیے موردالزام ٹھراتے ہیں۔ نہیں لیتے تو ان اغواکاروں کا نام نہیں لیتے جنہوں نے ہمارے معاشرے کو یرغمال بنا کر، دوسروں کے ہاتھ بیچ کر، ہماری انفرادی زندگی اور اجتماعی عزت کی قیمت لگا کر اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگی سنواری۔

مجھے تو محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے یہ ناخدا جو پہلے ہمارے جسم و جان کے مالک تھے وہ اب کہیں ہمارے سوچ اور روح کے ملک بننے تو نہیں چل پڑے؟

اگر آپ مجھے جھٹلانا چاہتے ہیں توخوشی سے جھٹلائیں مگر پہلے ایک لمحہ اپنے اردگرد بسنے والے ان ناخداءوں پر نظر ڈال لیں اور یہ بتا دیں کہ وہ کون ہے جو آپ سے خود پر تنقید کا حق چھیننا چاہتا ہے؟ کس کو آپ کی اٹھتی نظروں میں لکھے سوالوں سے لاجواب ہو کر کبھی کھسیانا اور کبھی جارحانہ جواب دینے پر خود کو مجبور پاتا ہے؟ کون ہے جو قانون کی اوٹ میں چھپ کر اپنی غیر قانونی سرگرمیوں کو چھپانا چاہتا ہے؟

خود سے سوال کریں اور خود ہی کو جواب دیں!!!

ارے حضور یہ کیا آپ تو بغلیں جھانکنے لگے، کیا سمجھ گئے ہیں آپ ،کون ہے ہمارے معاشرے کا مالک ومختار۔۔۔

دیکھیں بغلیں نہ جھانکیں، بلکہ اپنے گریبان میں جھانکیں، جب آپکے ہاتھ آپکی آنے والی نسلوں کو دائمی غلام بنانے والوں کا گریبان پکڑنے کے بجائے ان کے مددگار بن جائیں توکم ازکم تنہائی میں اپنے گریبان میں ضرور جھانک لیا کریں۔
Adeel Zeb Janjua
About the Author: Adeel Zeb JanjuaCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.