بلدیات

پچھلے سال حکومت بلوچستان نے بلدیات کا انعقاد کروا کے پورے ملک پر اخلاقی و سیاسی برتری حاصل کر لی تھی جبکہ دیگر صوبے اور کنٹونمنٹ ادارے بلدیات سے آئے روز بلدیات سے فرار کے نت نئے راستے اختیار کر رہے تھے۔ بھلا ہو اعلی عدلیہ کہ انہوں نے سختی سے حکم دیا کہ کینٹ علاقہ جات میں 25اپریل کو بلدیات کی پولنگ کروائی جائے اور ساتھ ہی ایک درخواست گزار کی استدعا پر ان بلدیات کو جماعتی بنیادوں پر کروانے کا حکم صادر کر دیا جس پر سیاسی کارکنان میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی اور ساتھ ہی دیگر تین صوبو ں کی عوام پر امید ہو گئے کہ اب وہاں بھی بلدیات کا انعقاد ددیوانے کا خواب نہیں رہے گا۔کینٹ ایریاز میں عدالتی حکم کے بعد اب کاغذات جمع کروانے ،پڑتال اور واپسی وغیرہ کے مراحل بخوبی مکمل ہو چکے ہیں اور انشاء اﷲ 25اپریل کو پولنگ بھی ہو گی۔ترقی یافتہ اوجمہوری ممالک میں علاقائی ترقی اور مقامی سطح پر نظم و نسق کیلئے بلدیات کو انتہائی زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔بلدیات میں چھوٹے چھوٹے انتخابی حلقہ جات اور مقامی قیادت کی وجہ سے ترقیاتی کام اور انتظامی امور بہترین انداز میں ہوتے ہیں۔کیونکہ مقامی لوگ مقامی مسائل سے بہتر اور باخوبی آگاہ ہوتے ہیں اور مقامی قیادت کی وہاں سے مہاجرت بھی محال ہوتی ہے اس لیئے مقامی مسائل کو وہ با احسن حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور اس امر کو با احسن کرنے کے لئے وہ مجبور بھی ہوتے ہیں ۔کینٹ ایریاز کے بعد اب سندھ اور خیبر پختونخواہ کی حکومتوں نے بھی بلدیات کے لئے تاریخیں دے دی ہیں جس کی وجہ سے پنجاب حکومت کے لئے اب بلدیات سے فرار ممکن نہیں رہا ہے۔

راقم کا خیال ہے کہ جہاں مقامی لوگ اپنے علاقائی مسائل کو بہتر طریقے سے حل کرنے میں ثابت ہوں گے وہاں ان انتخابات سے قومی سیاست پر مثبت اور بہتر اور دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔یہ جملہ تو ہر خاص و عام کی زبان پر ہوتا ہے کہ بلدیات قومی سیاست کیلئے سیاستدانوں کی نرسریوں کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
ہم اپنے گردونواح پر نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ جن سیاستدانوں کی اپنے علاقے کے بلدیات پر کنٹرول ہے یا جن کی بنیاد بلدیات ہیں وہ قومی سیاست میں بھی ایک جان دار حیثیت و کردار کے حامل ہیں ۔مثال کے طور پر مشرف کے بلدیاتی نظام سے قبل اٹک کے میجر طاہر صادق سے کون واقف تھا لیکن آج بلدیات کی وجہ سے ضلع اٹک میں ’’میجر گروپ‘‘سیاست میں ایک اہم اور بااثر نام ہے۔اسی بلدیاتی مضبوطی کیوجہ سے ’’میجر گروپ‘‘ نے 2013کے قومی انتخابات میں ایک قومی اسمبلی کی نشست حاصل کی۔اسی طرح اگر چکوال پرکو دیکھا جائے تو وہاں پر ’’سردار گروپ‘‘ کا طوطی بولتا ہے ۔2013کے عام انتخابات میں چکوال سے مسلم لیگ ق کے چوہدری پرویز الہی بھی ’’ سردار گروپ ‘‘ کی وجہ قومی اسمبلی تک پہنچ سکے ہیں۔آج بھی بلدیات میں سردار گروپ چکوال کی سیاست میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے اورسردار گروپ کی طاقت و حیثیت مسلمہ ہے۔ راقم کے خیال میں اس حیثیت و طاقت سے انکاری ہونیوالوں کے دماغی عدم توازن کا شک کیا جا سکتا ہے۔راولپنڈی میں ’’دھمیال ہاؤس‘‘ جوکہ عام انتخابات میں بمشکل ایک صوبائی اسمبلی نکالتا رہا ہے(2008 اور2013میں اس سے بھی محروم رہا ہے)صرف اور صرف بلدیات میں مضبوط حیثیت کی وجہ سے قابل احترام اور صاحب اقتدار رہا ہے۔

اگر قومی سیاست پر اثرات کے حوالے سے با ت کی جائے تو بلدیات اور بالخصوص ’’ جماعتی بنیادوں‘‘ پر بلدیات پا رٹیوں کو مضبوط کریں گے اور یہ مضبوط متحرک بلدیاتی کارکنان کی مرہون منت ہو گی جس سے شخصیات کمزور ہوں گئیں ۔جب ایک پارٹی کو یہ ادراک ہو گا کہ وہ کارکنان کیوجہ سے مضبوط ہے تو اس میں کارکنا ن کی عزت بڑھے گی اور ان کے مسائل کم ہوں گے۔امید کی جاتی ہے کہ بلدیاتی انتخابات اور پھر ان کے تسلسل کیوجہ سے جماعتیں اس امر پر مجبور ہو جائیں گئیں کہ تمام ترقیاتی امور بلدیات کے حوالے کر دیئے جائیں کیونکہ بلدیاتی نمائندگان کبھی بھی چکی میں پسنا پسند نہیں کریں گے کہ پہلے اپنے لئے ووٹ مانگیں پھر عام انتخابات میں اپنی پارٹی کے نامزدگان کے لئے دن رات ایک کریں اور جب وہ پارٹی نامزدگا ن ممبران قومی و صوبائی اسمبلی ہو جائیں تو پھر یہ بیچارے بلدیاتی نمائند گان ان ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کی منت زاری کریں کہ وہ ان کے علاقہ کے بنیادی مسائل حل کریں۔لہذا انشا ء اﷲ بتدریج قومی و صوبائی اراکین کے ترقیاتی فنڈز والی حیثیت ختم ہو جائے گی اور ان کا وہی کام ہو گا جو ترقی یافتہ جمہوریتوں میں ممبران قانون ساز ادارہ ہوتے ہیں۔اس سے قابل انتخاب اور مالی ذرائع کی حیثیت ثانوی ہوجائے گی۔انشاء اﷲ

اب ذرا نظر ڈالتے ہیں کینٹ ایریاز پنڈی اور واہ کے بلدیات کی سرگرمیوں پر۔مسلم لیگ ن نے پنڈی اور واہ کی تمام وارڈز میں امیدواران فائنل کردیے ہیں البتہ کئی ایک وارڈز میں یہ نامزدگیاں ابھی تک متنازعہ ہیں اور اختلافات ہنوز باقی ہیں جس کی وجہ سے کئی ایک ٹکٹ نہ ملنے والے ن لیگی کارکنان آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں ۔پیپلز پارٹی کی پنجا ب میں پتلی حالت کے باوجود پنڈی کینٹ کی تمام وارڈ ز میں نمائندگی موجود ہے البتہ قابل ذکر کے اعتبار سے شفیق جدون اور ضلعی سیکرٹری اطلاعات محمد شاہد ہی ہیں کہ جن کی جیت کی توقع رکھی جا سکتی ہے جبکہ واہ کینٹ میں پیپلز پارٹی کی نمائندگی شاید تین وارڈز تک محدود ہے اور وہاں بھی غیر معروف لوگوں کو ٹکٹ جاری کئے گئے ہیں۔یاد رہے کہ بلدیات میں ادھر ادھر ہونے والے کارکنا ن کی قومی انتخابات میں اپنی پارٹی میں واپسی ایک مشکل عمل ہوتا ہے اور پیپلز پارٹی کو اس حوالے سے کام کرنا ہوگا۔پاکستان تحریک انصاف پنڈی کینٹ کے علاقے میں ’’کلین سویپ‘‘ کی دعویدار ہے جہاں پر ٹکٹ کی تقسیم پر پارٹی میں اختلافات ہنوز باقی ہیں وہیں پر تحریک انصاف کی سابق ٹکٹ ہولڈر برائے قومی اسمبلی جو کہ اب تحریک انصاف کو خیرآباد کہہ چکی ہیں ان کا ’’نیشل فرنٹ گروپ‘‘ بھی پاکستان تحریک انصاف کے لئے مسائل کھڑے کریگا کیونکہ حنا منظور کے مطابق ان کے گروپ کے افراد پنڈی کینٹ کی تمام وارڈز سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔تحریک انصاف میں اختلافات واہ کینٹ میں بھی شدید ہیں جہاں پر مقامی ایم پی اے ذاتی پسند باپسند ٹکٹ جاری کر چکے ہیں جس کی وجہ سے کئی وارڈز میں تحریک انصاف کے بانی کارکنا ن بھی احتجاجا بطور آزاد امیدوار بلدیات میں حصہ لے رہے ہیں۔بالخصوص واہ کی آٹھ نمبر وارڈ میں جہاں سے مقامی ایم پی اے کے برادر خورد حصہ لے رہے ہیں وہاں پر کارکنا ن میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں اور ایک کارکن بطور آزاد امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔وارڈ نمبر نو میں بھی تحریک انصاف کارکنان دو حصوں میں تقسیم ہو چکے ہیں جبکہ دیگر وارڈز میں بھی آزاد امیدوار موجود ہیں۔واہ کینٹ میں مقامی ایم پی اے کی ذاتی پسند ناپسند اور اپنے چھوٹے بھائی کو ٹکٹ ایسے کام ہیں جو کارکنان کو یہ کہنے پر مجبور کررہے ہیں کہ واہ میں پارٹی کے مفاد کو مدنظر نہیں رکھا جارہا بلکہ خاندانی چوہدراہٹ کو مستحکم کیا جا رہا ہے۔البتہ واہ اور پنڈی کینٹ میں جماعت اسلامی کی نامزدگیوں پر کارکنان میں کوئی اختلاف نہیں پا یا جاتا۔یاد رہے کہ بلدیات میں تقسیم یا عدم دلچسپی تمام پارٹیوں کی قو می سیاست پر دیر پا اور منفی اثرات ڈالے گی۔
Raja Ghulam Qanbar
About the Author: Raja Ghulam Qanbar Read More Articles by Raja Ghulam Qanbar: 23 Articles with 16980 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.