لاؤنج

 بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم

یہ بات تو ٹھیک ہے کہ لاؤنج انگریزی زبا ن کا لفظ ہے مگر اردو جس خطے کی زبان ہے اس کی باشندوں کی مہمان نوازی جہاں افراد کوخوش آ مدیدکہتی ہے وہیں در آ نے والے الفاظ کو بھی نہیں لوٹاتی تو بس بہت سارے ساتھیوں کے ساتھ یہ لفظ بھی زبان زد عام ہو گیا ہے ۔اس کے مترادف الفاظ میں بیٹھک، بر آ مدہ ، گول کمرہ، اور بہت سے․․․․․․․․․․( آ پ خالی جگہ پر کر سکتے ہیں اگر آپ مزید الفاظ سے واقف ہیں کیونکہ مجھے تو مضمون آ گے بڑ ھا نا ہے )

یوں تو لاؤنج ہر عمارت میں ہوتا ہے لیکن اگر گھر کے اندروالے لاؤنج کی بات ہوتو اس کے ساتھ ٹی وی ضرورلگا ہوتا ہے بلکہ در حقیقت یہ دونوں ساتھ ساتھ ہی ہماری زبان اور تہذیب میں داخل ہوئے۔یادش بخیر گھروں میں اس طرح کی ایک جگہ نانی ، دادی یا بزرگ قسم کی خواتین کے لیے مختص ہوا کرتی تھی جہاں ان کا تخت براجمان ہو تا تھا۔ یہ تخت گویاان کی سلطنت ہوتی تھی! جھالر لگی چادر کے نیچے آدھی دنیا آبا د ہوتی تھی۔ ہر چیز ہاتھوں کی دسترس میں !پاندان میں وراثت کی مکمل داستان چھپی ہوتی۔پورا خاندانی شجرہ نوک زبان پر ہوتا تھا۔وہیں کہیں زیورات کی پوٹلی بھی دھری ہوتی تھی۔ نہ گارڈ کی ضرورت نہ لاکرز کا استعمال! چور ڈاکو کی کیا مجال کہ ہاتھ ڈال سکے ! وہیں ان کا ڈنڈا جو موجودہوتا تھا! جوتوں اور چپل کی جوڑی بھی کسی اسلحہ سے کم نہ تھی۔ باقی چیزوں کو چھوڑیں زبان کی للکار بھی بڑوں بڑوں کا پتہ پانی کر دیتی تھی۔ ان بزرگوں میں کچھ جلالی ، کچھ زیادہ جلالی ، کچھ معصوم اور کچھ ستم رسیدہ بھی ہوتی تھیں مگر خاندان پر رعب سب کابر ا بر درجے کا ہی ہوتا تھا۔اس جگہ اور یہاں قیام پذیر ہستی کو پورے خاندان میں مرکزی حیثیت حاصل ہوتی تھی۔ ملاقاتی کسی کا بھی ہو ان کے کسٹم سے گزرے بغیر داخل نہیں ہو سکتا تھا! اور داخلے کی شرائط بھی بعض گھروں میں خا صی کڑی ہوا کرتی تھیں ۔سنا ہے کہ انگریز اور یورپی ملاقاتیوں کو بھی ساتر لباس میں ان سے ملوایا جاتا تھا۔( ظاہر ہے یہ بات پچھلی صدی کی ہے)

مزاجاًبھی ان خواتین کی کئی اقسام ہوتی تھیں مثلا مذہبی، نیم مذہبی، روایتی، شوقین وغیرہ وغیرہ ۔ ان کی نوعیت کے لحا ظ سے سر گر میاں بھی ہوتی تھیں ․․․․․․․وہیں کہیں اخبار رسائل کی جگہ ہوتی تھی ۔ قرآن اور مذہبی کتب بھی خاص اہتمام سے رکھی جاتی تھیں ۔ بہشتی زیور نامی کتاب ضرور ہوتی تھی ، جس سے پڑھ کر یا سن کر وہ علاج سے لے کر احتیاط ، ٹوٹکوں سے لے کر تر کیبات ( چٹنی بنانے سے لے کر صلٰوۃ التسبیح پڑھنے تک کی)اور دعاؤں سے لے کر احادیث تک ( یہ ان کے ذوق پر منحصر تھا) بتاتی رہتی تھیں ۔یہیں کپڑوں کی کٹائی سے لے کر کڑھائی،بنائی کے نمونوں تک کی بریفنگ ہوتی تھی۔ ظاہر ہے سلائی مشین بھی اس کا لازمی جزو تھی۔ یہیں رشتے ناطے سر انجام پاتے، برات کی تعدا د اور ان کی تواضع کی منصوبہ بندی ہوتی ․․․․یہیں جھگڑے چکائے جاتے بلکہ خاندانوں کی کئی عظیم الشان جنگیں یہیں بپاہو تیں !
خاندانی سیاست کے اسرار و رموز سکھائے جاتے۔

ہر عمر کے بچوں کی دلچسپی اس جگہ پر ہوتی۔ ان کی تعلیم و تر بیت میں والدین سے زیادہ اس تخت نشین ہستی کا ہوتاتھا۔ ادب آداب سے لے کر رشتہ داریوں اور تاریخ سے دابستگی ،قصے کہانیوں کے ذریعے ذہنی نشوو نما! وہیں موجود کسی ٹرنک پر چڑھ کر بچے دنیا جہاں کا کھیل کھیلتے تھے۔ تقریری مقابلے سے لے کر ٹیبلو تک، نظموں اور ترانے سے لے کر رول پلے ( بادشاہ ہو یا کوئی ہیرو ․․․․!) تک سب یہیں ہوتا۔ اسی میں کبھی ٹرنک سے گر نے پڑنے کے واقعات بھی رونما ہوتے ۔ ( عمران خان اور طاہر القادری کے دھر نوں میں کنٹینر پر چڑھ کر محفل کو گرمانے کا فن شاید اسی دور کی یادگار ہے جس کی پریکٹس جملہ حضرات بچپن میں شاید کر چکے ہوں گے یا پھر بچپن میں نہ کر سکے ہوں تو اب حسرت پوری کر رہے ہیں !)

تخت ایسی جگہ پر ہوتاجہاں سے وہ بزرگ ہر معاملے پر نظر رکھ سکتی تھیں ۔ کس کے اوقات میں تبدیلی آ رہی ہے؟کس کا حلیہ معیار سے گر رہا ہے ؟ کون ہنڈیا غلط چلا رہا ہے؟ظاہر ہے ان کے ملا قاتیوں میں خاندان کے ہر عمر کے مردبھی ہوتے تھے۔ان کی تو خاص اسکینننگ ہوتی تھی کون کس کوگھور نے کی جسارت کر رہا ہے؟ کون کس سے بے تکلف ہونے کی کوشش کررہا ہے؟دوسری طرف گھروں میں موجود افراد خواہ وہ سگے ہوں یا سوتیلے، رشتہ دار ہوں یا خادم ! ہر دم نگاہوں کی ریڈار میں رہتے تھے۔دن میں کم از کم پانچ دفعہ نمازکی ادائیگی کا نعرہ لگتاتھا۔جس بچے( یابچوں کے والدین میں سے بھی)نہ پڑھتا نظر آ ئے اس کی پر سش!نہ صرف پر سش بلکہ اگر طبیعت خرابی کاشک بھی گزرے تو فورا ٹوٹکے آزمانا شروع! بچوں اور نوجوانوں پر خصوصی نظر کرم ہوتا تھا۔ ان کی زبان و بیان پر بھی خصوصی توجہ رہتی تھی ․․․․․․․․․․․․․

گردش زمانہ سے ہر چیز متروک ہوئی تو بر آمدہ․․․․لاؤنج میں تبدیل ہوا اور ٹی وی سے سجا ۔اپنی مذہبیت دکھانے کے لیے کچھ نے قرآن و احادیث بھی وہیں سجا دیں ۔ مذہب کو ذاتی معاملہ سمجھنے والوں نے اس قسم کے لٹریچر کو یا توخواب گاہوں میں یا پھر․․․․! اور ٹرنک کی جگہ اسٹور میں یا ردی کی دکان میں ! تخت کی جگہ اسٹائلش صوفوں اور قالین نے لے لی․․․․․․․ ( یہ تبدیلی اچانک نہیں بلکہ رفتہ رفتہ در آ ئی !)ٹی وی اسٹیشن کے قیام کے بعد ٹی وی ہر گھر کی ضرورت بنا․․․․․․ پردے میں استثناء ملتا گیا․․․․․․․․اور اسّی سے زیادہ چینلز لانچ کیے گئے․․․․․․․ پھر تو ہر چیز نے معنی ہی بدل دیے!اس کے اثرات گھروں میں واضح نظر آنا شروع ہوگئے!خاندان میں رشتوں کی نئی تعریف رائج ہوئی۔ میاں بیوی اور بچے !․․․لہذا گھروں میں موجودبزرگ اندرونی کمروں میں منتقل کیے گئے اوررفتہ رفتہ دور ازکار کر دیے گئے!پہلے ہر ملاقاتی کو بزرگ کلیئرنس دیتے تھے، اب ان کا دیدار کرنے شاذ و نادر ہی کوئی آتا ہے۔ بیٹھنے اور ان کی بات سننے کا تو کسی کے پاس وقت نہیں ․․․․ اب دن رات بز رگوں کی صحت کا بلیٹن نشر ہوتا ہے ۔ ان کے طبّی اخراجات کے باعث گھریلو بجٹ متاثر ہونے کا رونا رویا جاتا ہے۔ان کی خد مت پر مامور فرد یا افراد چڑ چڑ اہٹ کا شکار نظرآ تے ہیں کہ وہ اس وجہ سے معاشرتی سر گرمیوں سے کنارہ کش ہوکر رہ گئے ہیں لہذا ڈیجیٹل تفریحات میں مگن رہنے کا جواز بن جاتا ہے۔ریمورٹ کے لیے جھگڑے ہوتے ہیں ۔ جب کھانا شیئر نہیں ہو سکتا تو تفریح کیوں ! ہر ایک کو اپنی مر ضی کا اسکرین دیکھنا ہے!

ہمارا اصل موضوع تو لاؤنج ہے بزرگ تو بر سبیل تذکرہ اس میں داخل ہوگئے ہیں ․․․اب ان کی غیر موجودگی کے باوجود گھر کی یہ جگہ آباد رہتی ہے کیونکہ ٹی وی بھی تو چوبیس گھنٹے آن رہتا ہے۔ صبح کا آ غاز اگر مارننگ شوز سے ہوتا ہے تو اختتام ٹاک شوز پر بھی نہیں ہوتا کیونکہ جب والدین تھک کر آرام کرتے ہیں تو پھربچے ڈرامہ اور فلمیں دیکھتے ہیں !کارٹون، اشتہارات ، گانے اور نغمے تو ہر وقت ہی چلتے رہتے ہیں اب کون فکر کرے کہ کیا دیکھ رہے ہیں ؟کون کیا دیکھ رہا ہے! کون کیاسکھا رہا ہے ؟ کیوں زبان بگڑ ے یا اخلاق !کون فکر کرے؟․․․․․یہاں سے پھر موضوع بدل رہا ہے لہذا بات کو ختم کرتے ہیں !

بات لفظ اور اس کے بدلتے کردار سے شروع ہوئی تھی ۔لازما اسی پر اختتام بھی ہو نا چا ہیے۔ ۔۔۔۔پہلے آیا کے طور پر کام کر نے والی خواتین کو ماما کے لقب سے پکارا جا تا تھا۔ آج کل کی ماؤں نے بڑے فخر سے یہ ٹائیٹل اپنے لیے پسند کیا ہے! ( ماما کہلوانے والی ماؤں کو اپنا یہ کردار کیسا لگ رہا ہے ؟ ) لفظ پر یاد آ یا !آ ج کل ایک لفظ ماسی بہت عام ہے ۔ خواہ یہ کام کرنے والی تیرہ برس کی لڑکی ہی کیوں نہ ہو! اور یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ گھروں کے بچے یہ تیرہ سالہ ماسیاں ہی پال رہی ہیں !!ہوسکتا ہے آ نے والے سالوں میں یہ لفظ ماں کے متبادل استعمال ہو نے لگے!

عزیز خواتین ! گھگھیا ئیے نہیں تبدیلی کا سفر تو لاؤنج سے شروع ہو ہی چکا ہے!!زبان صرف الفاظ نہیں تہذیب بھی بدل دیتی ہے !
Farhat Tahir
About the Author: Farhat Tahir Read More Articles by Farhat Tahir: 72 Articles with 74876 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.