انسان اور گدھا

بچپن میں ایک پاکستانی فلم ــ’’انسان اور گدھا‘‘ دیکھی تھی تو وہ مزاح سے بھرپور لگی تھی جس میں اداکارمحمد سعیدخان المعروف رنگیلا مرحوم نے گدھے کا کردار خودادا کیا یہ فلم 1973میں بنائی گئی تھی اس فلم کا ایوارڈ بھی اداکار رنگیلا کو ملا تھااورسنا ہے کہ اس وقت کے حکمرانوں کو یہ فلم ناگوار گزری تھی اس فلم پر پابندی لگادی گئی تھی لیکن اداکار رنگیلا کی اداکاری متاثر کن تھی اور فلم بینوں نے اسے وی سی آر ،ٹی وی کے ذریعے فلم کو دیکھا ۔اس فلم کو بچپن میں دیکھا یہ فلم ہمیں صرف مزاحیہ لگی لیکن درحقیقت اس فلم میں ایک پیغام دیا گیا تھا۔اب اس وقت بھی ہمارے کچھ سیاستدان اور دانشور بھی اداکار رنگیلا کی نقل اتارتے نظر ٓاتے ہیں یا اداکار رنگیلا ان کی نقل کررہے تھے۔

۔پچھلے دنوں ایک نجی نیوز چینل پر پاکستان میں گدھوں کو ذبح کرنے کے حوالے سے ایک پروگرام دیکھا جس میں انسان کو گدھوں سے بھی بدتر دکھایا گیا ہے کہ یہ ظالم انسان کتنا شیطان بن چکا ہے اور جس گدھے سے روزگار چلاتا رہے ہے اب انہی گدھوں کو ذبح کررہا ہے اور اس کا گوشت ایک اسلامی ملک میں مسلمانوں کو کھلایا جارہا ہے۔ٹی وی اینکر نے جب رنگے ہاتھوں اس گدھا خور کو گدھا ذبح کرتے پکڑ لیا اس بے غیرت ڈھیٹ شخص نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ گدھا حرام نہیں ہے کیونکہ اس کی روزی کمائی جاسکتی ہے چاہے وہ کسی صورت میں بھی ہو چاہے اس لادنے سے کمائی جائے یا اس کو ذبح کرکے گوشت بیچنے سے کمائی جائے باقائدہ اس شخص نے یہاں تک چیلنج کردیا کہ اس کو قرآن و حدیث سے حرام ثابت کیا جائے۔افسوس ہوا کہ ایک گدھا جو انسانی ابتداٗ سے انسان کا ساتھ دے رہا ہے آج وہ جانور اس طرح انسانی وحشت کا چکار ہوچکا ہے۔گدھے کے گوشت کا مکروہ دھندہ اس وقت ملک میں عروج پر ہے اور روزانہ اس طرح کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں لیکن حکومتی کانوں پر جوں تک کھجلی نہیں کرتی۔ محترم ظفر اقبال نگینہ صاحب جو کالمسٹ ہیں انہوں نے اس شیطانی فعل پر ایک فیچر لکھا جو روزنامہ جنگ کے اتوار میگزین میں شائع ہوا جس میں انہوں نے شائع ہونے والی تمام خبروں کا نچوڑ نکالا اور ان علاقوں کی نشاندہی کی جہاں یہ مکروہ دھندا عروج پر ہے اس میں زیادہ تر کراچی شہر کا حوالہ دیا گیا ہے اور اس کے بعد لاہور اور پنجاب کے دوسرے چھوٹے بڑے شہروں میں یہ غلاظت انسانون کو کھلائی جارہی ہے۔ان گدھا خورون کی نشاندہی کافی عرصے سے اخبارات میں ہورہی ہے لیکن ارباب اختیا ر ان گدھوں کی لذت کی وجہ سے مردہ ضمیر ہوچکے ہیں کہیں کوئی کاروائی نہیں ہورہی اور اگر کہیں پولیس ایسے مجرموں کو پکر بھی لیتی ہے تو جب صحافی برادری پیچھے ہٹتی ہے تو ئی جرائمی پیسون کے عوض آزاد ہوجاتے ہیں حتیٰ کہ ایک خبر پڑھنے کو ملی جس میں گرفتار ہونے والے ایک گدھا فروش نے یہ بتایا کہ ایک پولیس آفیسر کو بھی اس نے رشوت کے عوض گدھے کے گوشت سے تواضع کی اور پیسے دیے۔اس جرم میں اب تک جتنی خبریں پڑھنے کو ملی ہیں اس میں زیادہ تر نشئی طبقہ ہے جو اپنا نشہ پورا کرنے کے لئے یہ جرم سرانجام دیتا ہے دوسرا کرسچن طبقہ بھی ملوث ہے جو اپنی کالونیوں میں گدھوں کو ذبح کر کے شہر کے مختلف ہوٹلوں اور میٹ ہاوٗسز پر گوشت سپلائی کرتے ہیں۔یہ بڑے ہوٹلوں پر ضرور پکایا جاتا ہے جہاں پر انتظامیہ کی آشیر باد ہوتی ہے اور جہاں شراب و کباب اور فائیو سٹارز سہولیات میسر کی جاتی ہیں انتظامیہ بھی اپنا حصہ ضرور لیتی ہوگی۔میرے خیال میں یہ گوشت بڑے بڑے شادی حال،ایونٹ سنٹرز میں بھی پکایا جاتا ہوگا اور اس ملک کا ایلیٹ طبقہ بھی اس گوشت کا ٹیسٹ کرچکا ہوگاجس کا اندازہ ان کے کرداروں سے لگایا جاسکتا ہے۔

پاکستان گدھوں کی تعداد کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا بڑاملک ہے لیکن اب یہ رینکنگ کچھ دن تک گر جائے گی بلکہ گدھے نایاب ہی ہوجائیں گے اور ان کی جگہ کوئی انسان ہی سنبھال لیں گے۔کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ کچھ سالوں تک وائلڈ لائف والے گدھوں کو ڈھونڈتے پھریں اور گدھا صرف چریا گھر میں ہی نظر آئے ایسا ہی کچھ نطر آرہا ہے کیونکہ گدھا ریڑھے اب ختم ہونے کو ہیں اان کی جگہ موٹرسائیکل ریڑھوں نے لے لی ہے ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ریڑھوں پر چائنا کے موٹر سائیکل لگادیے گئے ہیں جس کی وجہ سے گدھا بیچاروں نے سکھ کا سانس لیا مگر ان کو کیا معلوم تھا کہ یہان انسانی روپ میں بھیڑیے اور درندے بھی رہتے ہیں جو انہیں چبا کر کھا جائیں گے۔

ہمارا ایک اسلامی ملک ہے اور یہاں بسنے والے لوگ مسلمان ہیں ۔اسلام نے جانوروں پر کسی قسم کا ظلم کرنے سے بھی منع فرمایا ہے ۔اسلام میں حلال اور صحت مند گوشت کو کھانے کی اجازت دی ہے لہذاٰ ہم ارباب اختیار سے گزارش کرتے ہیں کہ اس مکروہ دھندے کو ختم کرانے کے لئے اپنی قوت کواستعمال کیا جائے۔خصوصأ وزیراعظم پاکستان،وزرائے اعلیٰ اور وزیر صحت سے یہ گذارش ہے کہ وہ ملک عزیز میں بسنے والے لوگوں کے حکمران ہیں اور یہ ایک گھناوٗنا جرم ہورہا ہے اور ان جرائم پیشہ افراد کی نشاندہی بھی ہوچکی ہے ابھی صرف اس پر فوری کاروائی کی ضرورت ہے۔سب سے پہلے اس ملک کو ہمہ قسم نشے سے پاک کیا جائے جس پر کافی سختی کی ضرورت ہے یہ طبقہ ہمارے ملک میں روز بروز بڑھ رہا ہے ،ٹارگٹ کلنگ سے لے کر مختلف جرائم میں اسی طبقے کو ملوث پایا گیا ہے، نشہ کرنے کے اسباب و وجوہات کا سب سے پہلے تدارک لازمی ہے اس کے لئے ملک میں تعلیم کو عام کیا جائے غریب اور امیر کی تعلیم میں جو فرق ہے اے ختم کیا جائے۔روزگار کے نئے دروازے کھولے جائیں،ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ میں گداگر اور نشے میں ملوث لوگوں کو تعلیم و ہنر دیا جائے تب جا کر کچھ بہتری کی گنجائش ہے۔اے ارباب اختیاراگر یہ کاروائی نہ کی گئی اور ان مجرموں کو اس طرح آزاد رکھا گیا تو یقینا آپ بھی اس حرام سے نہیں بچیں گے۔ شہریوں کی صحت ہی ملک کی ترقی کی ضامن ہے۔
Muhammad Shahid Yousuf Khan
About the Author: Muhammad Shahid Yousuf Khan Read More Articles by Muhammad Shahid Yousuf Khan: 49 Articles with 40707 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.