ہاشم پورہ کے42بے گناہ مسلمانوں کاخون۔۔۔۔۔

ہندوستان کے پہلے وزیر داخلہ سردارپٹیل ہندوستان کی پولیس میں مسلمانوں کا داخلہ بند کرکے مسلمانوں پر پولیس تشدد کی راہ ہموارکرگئے تھے۔پچھلے چھ عشروں میں کم از کم ساٹھ ہزارکے قریب فرقہ وارانہ واقعات ہندوستان جیسے نام نہاد سیکولر ملک میں پیش آچکے ہیں‘مگر پولیس پروانشل آرمڈ کانسٹیبلری (pac)نے جس طرح 22مئی 1987میں میرٹھ کے محلہ ہاشم پورہ کے 42بے گناہ مسلمانوں کا قتل کیا وہ سیکولرہندوستان کے نقشے پر اقلیتوں کے حوالے سے ایک دردناک سوال ہے؟

میرٹھ میں فسادات کے دوران اترپردیش کی پولیس نے رات کے وقت ہاشم پورہ کے پچاس کے قریب مسلمانوں کو ٹرک میں بھیڑبکریوں کی طرح لادا اورپولیس اسٹیشن کے بجائے مراد نگرضلع غازی آباد کی اپرگنگانہرپرلے گئے۔پلاٹون کمانڈرسریندرپال سنگھ اورانیس پتھردل انسان نماباوردی لوگوں نے غیرمذہب ہونے کے جرم میں بیالیس آدم زادوں کو نہرکے کنارے کھڑاکرکے قتل کردیا اورلاشیں نہرمیں بہادیں‘ایسے ظالمان کے ظلم پر ہی کرشن چندرجیسے افسانہ نگارکاقلم انسانیت کے دکھ سے کانپ اُٹھتاتھااوراسی جرم کی پاداش میں اپنوں نے ان کی آخری رسومات میں شرکت سے گریز کیا۔۔اس دوران جب اسلحہ نفرت کی آگ اگل رہاتھا‘ایک پولیس والا بھی زخمی ہوا۔پانچ مسلمان زخمی ہوئے جن میں مضیب الرحمن ‘محمدعثمان‘نعیم عارف اورذولفقارناصرنے بعدازاں 2007میں پروسکیوشن کیس میں گواہی بھی دی۔ملزموں کو کیا معلوم تھاکہ ان کے جرم کے نشانات زندہ انسانوں کی صورت میں باقی رہ جائیں گے ‘اگرانھیں معلوم ہوتاتوان آدم زادوں اورہم وطنوں کو بھی عرب کی سرزمین سے پھوٹنے والی کرنوں سے اپناسینہ منورکرنے کی کڑی سزادیتے ۔

انیس میں سے سولہ مجرموں نے 2001میں سرنڈرکردیاجوبعدازاں ضمانت پررہاہوگئے جبکہ تین ملزم پہلے ہی دوران کیس اپنے خالقِ حقیقی کے پاس جاچکے تھے۔2002میں سپریم کورٹ آف انڈیانے کیس کو غازی آباد سے سیشن کورٹ دہلی کی تیس ہزاری کورٹ میں منتقل کرکے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا حکم دیا۔لیکن اترپردیش کی حکومت سپیشل پبلک پروسیکیوٹرکی تعیناتی میں جان بوجھ کرلیت ولعل سے کام لیا اورایک لمبے عرصے تک تو کیس لگ ہی نہیں سکا۔واقعہ کے بیس سال بعد 24مئی 2007کوجب واقعہ میں بچ جانے والے دومسلمانوں اورمتاثرہ خاندان کے36افرادنے لکھنومیں ڈائریکٹرجنرل آف پولیس کے دفترمیں 615درخواستthe right to information act 2005کے تحت بھری تاکہ کیس کے ملزمان کے متعلق جان سکیں ۔اس کے تحت ستمبرمیں انکوائری ہوئی اوربتایاگیاکہ ہاشم پورہ کے ملزمان اسوقت حاضر سروس ہیں اورسالانہ کانفیڈینشل رپورٹ(acr) میں ان ملزمان کے حوالے سے ہاشم پورہ کے واقعہ کا ذکرہی نہیں ہے۔

پھر 21مارچ 2015کاوہ منحوس ترین فیصلہ آیاجس میں تیس ہزارکورٹ نے کہا کہ اس نے ثبوتوں کی عدم موجودگی اورملزموں کی پہچان نہ ہونے کی وجہ سے انھیں بری کردیاہے۔اٹھائیس سال کے طویل صبرآزمادورسے گزرنے کے بعد بھی مسلمان ہونے کاجرم اتنابڑاتھاکہ ہاشم پورہ کے بیالیس بے گناہ مسلمان سیکولربھارت میں انصاف حاصل نہ کرسکے۔

واقعہ کے وقت راجیوگاندھی وزیراعظم تھے۔ کانگریس جو مسلمانوں کے حقوق کی ٹھیکیداربنتی ہے اوراترپردیش کی سماج وادی جماعت بھی اسی قسم کاراگ الاپتی ہے ‘یہ سب کہاں گئے انکے دورِ اقتدارمیں مسلمانوں کو انصاف دلانے کی کتنی کوشش کی گئی ؟یہ سب کچھ فیصلہ سے پتہ چلتاہے۔سماج وادی پارٹی کے ملائم سنگھ یادوبھی اپنے عرصۂ اقتدارمیں مسلمانوں کے زخمون پرمرہم نہ رکھ سکے؟سیکولربھارت سے سوال ہے کہ کیا آدم زادوں کو سرزمینِ ہندوستان میں اپنی مرضی کے مذہب اوراپنی پسند ناپسند اختیارکرنے کا کوئی حق نہیں ؟کیا یہی سیکولربھارت ہے جس میں بدنام زمانہ سوامی اگریہ کہے کہ مسجد ایک عمارت ہے اسکی کوئی اہمیت نہیں تو بھارت خاموش ہے؟ سوال ہے کہ اگر بھارت کی تقسیم ایک سیاسی غلطی تھی تو 1949میں اترپردیش کے پہلے وزیراعلی پنت نے ایک ایسی مسجد میں جہاں 1515سے اذان ونمازہورہی تھی رات گئے مورتیاں کیوں رکھوائیں ؟کیاسخت گیر تنظیموں کی موجودگی اورسیاسی پشت پناہی نے بات یہاں تک نہیں پہنچا دی کہ جو چاہے جب چاہے اقلیتوں کو روندتاپھرے اوروہ بھی خصوصا مسلمانوں کو۔آج اٹھائیس برس بعد بھی میرٹھ کے محلہ کے مزدورپیشہ 42بے گناہ مسلمانوں کا خون دہلی کی گلیوں میں انصاف کامتلاشی ہے؟ کیا ایسے حالات میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بھارت پاکستان کا پسندیدہ ملک ہوناچاہیئے ؟کیا یہ حقیقت نہیں کہ دہلی کی تیس ہزاری عدالت میں یہ سب سے پرانا کیس تھا جس کا فیصلہ ہونا باقی تھا؟ آخرمیں ہماری عرض اتنی ہے کہ اگربھارت مسلمانوں کو اپنا محب وطن اورپاکستانیوں کے ساتھ بہترتعلقات چاہتاہے تو ہاشم پورہ سمیت مسلمانوں کے خون میں ہاتھ رنگنے والے عناصر کو لگام دے کر تختہ دارتک پہنچائے ‘تاکہ مسلم ‘عیسائی سمیت تمام اقلیتیں بھارت میں محفوظ ہوسکیں اوربھارت کے ہمسایہ مسلم ممالک اوردنیا میں اسکا اچھاتاثر قائم ہوسکے۔ورنہ ہرکوئی کہتاپھرے گامنہ میں رام رام بغل میں چھری۔۔۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174499 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.