کپتان کی واپسی

 کسی بھی سخت فیصلے کیلئے طویل مشاورت‘اسراررموزسے واقفیت‘دیدہ بینا ‘حوصلہ اورفہم وفراست ایسی ہی ضروری ہے جیسے انسانی جسم کیلئے جان‘تب جا کر انسان یا انسانوں کا کوئی گروہ کوئی مضبوط فیصلہ کرپاتاہے اورپھر اُس پر قائم بھی رہتاہے کیونکہ ایسے فیصلوں کو زمینی حقائق ‘ اس جماعت کے کارکنان کی اکثریت کی حمایت اور رہنماء کے تدبر کی آشیرباد حاصل ہوتی ہے ‘جبکہ دوسری جانب بغیرمشاورت اورجذباتی فیصلے جہاں حقائق سے دورلے جاتے ہیں وہیں بادبان کو طوفان کے رحم وکرم پر چھوڑنے پر مجبوربھی کردیتے ہیں جس کا مطلب شاید مورخ یہی لے گاکہ ملاح نے طوفان کیساتھ مصالحت کرلی۔

کپتان نے الیکشن کے بعد احتجاجی بیانات سے لے کر دھرنے میں بھی جوشرائط رکھیں وہ حقائق وحالات سے واقفیت ہی نہیں رکھتی تھیں۔پھر سانحہ پشاور نے جب قوم کو جھنجوڑا توکپتان کی دانست میں یہ بات آئی کہ اب ملک میں مزاحمت کی سیاست کا وقت نہیں ‘اکثر تجزیہ نگار اس کو بھی کپتان کایوٹرن کہتے ہیں مگر ہم اس فیصلے کو تحسین کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔پھرقومی ایکشن پلان اور فوجی عدالتوں کی قراردادپرتحریک انصاف کی اسمبلی سے غیرحاضری بھی ایک غلطی تھی ‘اگر بل کی مخالف کرنی ہی تھی تو پارلیمان میں جایاجاتا‘حمایت کا اصول بھی پارلیمنان ہی ہے۔دھرنوں کے دوران حکمران جماعت کی حکمت عملی بھی بعض مقامات پر ڈگمگائی ‘اگر آج دھرنوں کے دوران ن لیگ کے ریکارڈ پر طنزوتشنیع کے بیانات نہ ہوتے تو اس کا سرفخرسے اوراونچاہوتا‘عوام کو سیاست میں اخلاقیات کانیاسبق ن لیگ ہی سے ملتایایہ کہہ لیں کہ ملک میں سیاسی اخلاقیات کانفاذ حکمران جماعت کی جانب سے ہی کیاجاتا مگرمجموعی طورپرہم ایسانہیں کہہ سکتے ہاں وزیراعظم صاحب کاریکارڈ مخالف جماعت سے زیادہ شفاف ہے۔

اب کی بار اسمبلیوں میں یمن کے ایشوپر پی ٹی آئی اسمبلیوں میں پہنچی ‘سیاست دان ہمیشہ ایشوز ہی چاہتے ہیں اوران ہی کے لبادوں میں اپنے فیصلے عوام کے سامنے رکھتے ہیں۔کپتان کی اسمبلیوں میں واپسی کے چارنتائج پاکستانی عوام کو ذہن نشین کر لینے چاہیئں۔1۔پاکستان کا بہترین مستقبل پرامن انتقال ِ اقتدارمیں ہے۔2۔مزاحمتی قوت سے ملک میں خون خرابے کی گنجائش نہیں اورنہ ہی اس سے ملک کا مستقبل سنواراجاسکتاہے۔3۔شفاف نظام الیکشن اورالیکشن اصلاحات کسی جماعت کامخصوص ایجنڈا نہیں ‘سب اپنی اپنی سیاست کھیلتے ہیں۔4۔کسی بھی جماعت کے ٹکٹ پر نہیں بلکہ امیدوار کی ذاتی اہلیت پر اسے ووٹ دیں ۔5۔کسی بھی جماعت کے ہیرے اورجواہرات میں لدے خوابوں کااسیربننے سے پہلے بات کو ہررُخ سے پرکھ کردیکھیں ‘تجزیہ نگاروں اورتحریرکے شہنشاہوں کوسنیں اورپڑھیں ضرور لیکن دونوں آنکھیں کھلی رکھتے ہوئے اپنادماغ بھی استعمال کریں۔

کپتان کی واپسی اوریمن کے ایشوپربلائے گئے اجلاس میں جس طرح کا انداز اختیارکیاگیاوہ مہذب سیاست کے منہ پرطمانچہ ہے‘اجلاس میں اوراجلاس کے بعد بیانات کو دیکھیں تو دونوں طرفین نے عوام کو بتادیاکہ ہم کس قدر پختہ اخلاق رکھتے ہیں۔اجلاس کے بعد مجھے اس ذرائع کی خبر پر یقین ہو گزراجس نے ستائیس مارچ کو کہاتھاکہ فیصلے ہوچکے۔ن لیگ جو تحریک انصاف کواسمبلیوں میں واپس لاکرسیاسی داؤپیچ اوراخلاقی برتری کامعیارقائم کرناچاہ رہی تھی وہ اجلاس کی دھول میں ہی اُڑ گیا۔اگرفیصلے ہوچکے تواجلاس کافائدہ ہی نہیں تھااوراگرفیصلے نہیں ہوئے توپھر اتنے اہم اجلاس میں ایک فضول ایشواورایک سیاسی حماقت پر بحث کرناازخود دانائی سے دورہے۔

ن لیگ پر اس وقت بھاری ذمہ داری عائدہے۔یمن سعودیہ جنگ میں ہماراکرداراہم ہے مگراس کاتعین پارلیمان میں کرناباقی ہے۔وسائل کی جنگ کواستعمارنے فقہی رنگ دینے کی جوکوشش کی ہے ‘ہم اسے مل جل کرمصالحت سے طے کرسکتے ہیں‘اوآئی سی کااجلاس بلانے سمیت متعددایشوز زیربحث لاکرکسی درست سمت جاسکتے ہیں۔ جو ہوچکا ہوچکالہذامٹی پاؤ کی پالیسی کے تحت اب ہمیں اگلالائحہ عمل مرتب کرناہے۔پارلیمنٹ کا ایک سنجیدہ اجلاس بلایاجائے اگرایسے ممبران سب جماعتوں میں نہیں ہیں تو امپورٹ کرلیجئے‘ہرشخص میں اﷲ نے مختلف صلاحتیں رکھ دی ہوتی ہیں مگر یہ اب اس کی مرضی ہے کہ کس صلاحیت کو پالش کرکے اپنے استعمال میں لے آتاہے۔ایم کیوایم اورپی ٹی آئی کے مابین این اے 246پر بھی توتوتکارکے بعدٹھہراؤ آ گیاہے۔اب شاید پھولوں کے ہاراگرپی ٹی آئی پہنتی ہے توپھر الیکشن کے بعد پھولوں کے ہار کوئی اورپہنے گا۔ بہرحال کراچی وپاکستان کو نوگوایریانہیں ہوناچاہیئے ۔تحریک انصاف ہوپی ٹی آئی یابی این پی مینگل سمیت کوئی جماعت کسی کو بھی پورے پاکستان میں کہیں بھی الیکشن لڑنے کی بھرپوراجازت ہونی چاہیئے اورکسی بھی سطح پر ان کی راہ میں روڑے نہیں اٹکانے چاہییں۔

ہاں توبات ہو رہی تھی کپتان کی واپسی کی ۔سواختلافات سہی مگر کپتان کو اب ایک ایک کرکے اپنے تمام فیصلے واپس لیتے ہوئے میڈیا کابائیکاٹ بھی ترک کردیناچاہیئے ۔ ۔اس سب کے ساتھ ساتھ کپتان کو ان اداروں سے بھی معذرت کرنی چاہیئے ‘جن کامورال دھرنوں کے دوران مسخ کیاگیا۔جہاں تک 126دنوں کی تنخواہوں اورالاؤنسز کاتعلق ہے توامیدہے تحریک انصاف ان سے دستبردارہوجائے گی کیونکہ جب اسمبلی میں آپ خود نہیں آئے توپھر آپ ان سہولتوں کامطالبہ کرنے میں بھی حق بجانب نہیں۔اس طرح کپتان پوری طرح گیم میں واپس آکرمزاحمت شروع کرسکتاہے اورایک بھرپوراپوزیشن کاکرداراسے اداکرناہوگا‘جس کانصب العین مخالف برائے مخالف نہیں بلکہ تعمیروترقی ہوناچاہیئے۔وفاق کے اچھے فیصلوں کی حمایت اورغلط اقدامات پر اصلاح کرناہوگی۔اگر یہ سب اقدامات کرلیئے جاتے ہیں تویہ کپتان کابڑاپن ہوگااوراگلے الیکشن میں اسے جیتے جتائے امیدواروں کی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔اﷲ پاکستان کا حامی وناصر ہو۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174504 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.