پاکستان میں حکومت کے بعدسیاست بھی’’ کنٹرولڈ‘‘ ہو گی؟

ماضی میں جب فوج ملک میں مارشل لاء لگاتی تھی تو کہا جاتا تھا کہ فوج نے اپنے ہی ملک کو فتح کر لیا۔حالانکہ وہ حکومت پر قبضہ کرتے تھے اور اس کے بعد اپنی نگرانی میں سیاسی حکومت کا اہتمام کرتے تھے لیکن فوج کو ملک کی سیاست پر کبھی مکمل کنٹرول حاصل نہ ہو سکا۔لیکن دہشت گردی کے خلاف نئی آئینی ترامیم اورقانون سازی کے بعد اب حقیقی معنوں میں حکومت کے بعد سیاست پر بھی غلبہ حاصل کرنے کی کوششیں نظر آتی ہیں اور جاری صورتحال کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ آنے والے وقت میں فوج کو سیاست میں بھی مکمل کنٹرول حاصل ہو جائے گا۔ دینی و مذہبی جماعتیں،ماضی قریب کا متحدہ دفاع پاکستان،ق لیگ،مشرف لیگ،جماعت اسلامی،تحریک انصاف سبھی ’’ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز‘‘ کے مصداق ایک ہی حوالے سے متعارف ہیں۔یوں ہمیں پاکستان میں ایسی کوئی سیاسی جماعت نظر نہیں آتی جو حقیقی سیاسی اصولوں کے مطابق شخصیت پرستی اور مفاداتی سیاست سے بالاتر ہو کر کام کر سکے۔ملٹری ڈیمو کریسی کے خلاف پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کا کمزور محض علامتی وجود ہی قائم ہے، جو ملٹری ڈیمو کریسی کی راہ میں مزاحم ہونے کے لوازمات سے عاری اور محض علامتی طور پر ہی ہے۔اگر مسلم لیگ(ن) کے صدر میاں نواز شریف کی یہ سوچ ہی نہیں بلکہ ’’ اپروچ‘‘ بھی ہوتی تو وہ بالخصوص بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد مسلم لیگ(ن) کو حقیقی طور پر ایک سیاسی جماعت کے طور پر مضبوط بناتے۔ شخصی اور خاندانی سیاست کے ساتھ ملک میں فوجی حاکمیت کے بجائے عوامی حاکمیت کا خواب پورا نہیں کیا جا سکتا۔اسی طرح پیپلز پارٹی بھی خاندانی حاکمیت میں چل رہی ہے۔یوں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ملک میں ملٹری ڈیمو کریسی کے خلاف مزاحم نظر آنے والی سیاسی جماعتیں اپنے حقیقی سیاسی لوازمات سے محروم شخصی اور خاندانی گروپوں کے انداز میں چلائی جا رہی ہیں۔سیاسی جماعتوں میں شخصی اورخاندانی سیاست کے ساتھ اگر کوئی یہ دعوی کرتا ہے یا یہ سمجھتا ہے کہ وہ ملک میں عوامی حاکمیت کا داعی ہے،تو ایسا خود فریبی کے سوا اور کچھ نہ ہو گا۔یوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مفاہمت جمہوریت کے فروغ کے بجائے ایک دوسرے کے خاندانی گروپوں کے مفادات کے بچاؤ میں نظر آ رہی ہے۔ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی اس بات میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی کہ ان سیاسی جماعتوں میں حقیقی سیاسی اصولوں کی ترویج کی جائے۔

کچھ عرصہ قبل ملک میں فوج کی طرف سے ’’ نیو وار ڈاکٹرائن ‘‘ متعارف کرایا گیا تو اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کی تشریح یوں ہو گی جس طرح اب دہشت گردی کو پاکستان کا دشمن نمبر ایک قرار دیتے ہوئے آئینی اورقانون سازی کے اقدامات کرتے ہوئے ملک میں فوج کی بالا دستی کا مستقل نظام قائم کر دیا گیا ہے۔نئے فوجی نظریئے یا ’آرمی ڈاکٹرین‘ میں ملک کی مغربی سرحدوں اور قبائلی علاقوں میں جاری گوریلا کاروائیوں اور بعض تنظیموں کی جانب سے اداروں اور شہریوں پر بم دھماکوں کو ملکی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا۔ ’’ نیو وار ڈاکٹرائن‘‘ کے اعلان کے وقت اس فوجی نظرئیے کی تیاری میں شامل ایک سینئر فوجی افسر نے ’بی بی سی‘ کو بتایا کہ نیم روائیتی جنگ کے نام سے ایک نیا باب شامل کرنے کا مقصد فوج کو اس نئے خطرے سے لڑنے کے لئے تیار کرنا اور اس کے لئے ضروری عوامی اور سیاسی حمایت کا حصول ہے۔تاہم یہ اب واضح ہوا ہے کہ ملک کے اس نئے جنگی نظرئیے کے لئے عوامی اور سیاسی حمایت کس طرح حاصل کی گئی ہے۔

ملک کی سیاسی انحطاط پذیری میں ملک کی باگ دوڑ ملک کے مضبوط اور طاقتور اداروں کے ہاتھ میں ہے اوراس اختیار کو آئینی و قانونی شکل تو دے دی گئی ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہی ہے کہ ملک کے اس انداز حاکمیت میں جو پالیسیاں ماضی میں بنائی گئیں،ان کے اثرات و نتائج ملک کے لئے نقصاندہ ہی نہیں بلکہ تباہ کن ثابت ہوئے۔یہ فوج کی ہی حکمت عملی تھی جس میں پاکستان کی Strategic depth افغانستان بلکہ وسط ایشیاء تک وسیع ہونے کی نوید سنائی جاتی تھی۔ہمیں دفاع کی جغرافیائی گہرائی حاصل کیا ہونی تھی جن قوتوں پہ ناز تھا وہی درد سر ہی نہیں بلکہ ’’درد دل ودرد جگر‘‘ بھی ثابت ہو رہے ہیں۔اسی طرح 1990ء میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت سے آزادی کی عوامی مسلح جدوجہد تقریباً ایک عشرہ تک پوری قوت سے جاری رہی لیکن پھر اس عشرے اور بیسویں صدی کے اختتام کے ساتھ ساتھ پاکستان کی یہ حکمت عملی کھل کر سامنے آ گئی کہ کشمیر میں جاری عوامی مسلح جدوجہدکی منصوبہ بندی و حکمت عملی یہ رہی کہ کشمیر میں بھارت کو لہو لہان کیا جائے،آخر بھارت روس کی طرح ٹوٹ جائے گا۔نوے کی دہائی میں ہی یہ واضح ہو گیا تھا اور میں نے اپنی تحریروں میں بھی یہ بیان کیا تھا کہ اگر پاکستان نے کشمیر کا محاذ چھوڑ دیا تو پھر جنگ پاکستان کے ہر دروازے پہ دستک دے گی۔ دونوں پالیسیوں کے کیا نتائج درپیش ہیں،اس بارے میں صورتحال واضح ہے۔ بھارت کو اپنا دشمن قرار دیتے ہوئے کیا حکمت عملی اپنائی گئی کہ بھارت دشمنی کی تان یہاں ٹوٹی کہ بھارت سے جنگ کے تمام ممکنہ اسباب ختم کر دیئے جائیں(لیکن پانی کا مسئلہ جنگ کے امکان کے طور پر پھر بھی باقی ہے)۔یوں بھارت کو دشمن قرار دینے کی پالیسی و حکمت عملی کے نتائج پاکستانی عوام نے یہ دیکھے کہ بھارت سے جنگ کے تمام اسباب اور ممکنات ختم کر دینے پر توجہ مرکوز ہوئی۔یوں بھارت کو دشمن سمجھنے کی سوچ تو درست تھی لیکن اس بارے میں تیار کی گئی پالیسیاں اور حکمت عملی ناقص ثابت ہوئیں۔ملک کے اعلیٰ ترین مقاصد کیا ہیں اور ان کے حصول کے لئے کیا حکمت عملی اپنائی جائے،؟سول حکومت سے ہونے والے فیصلے ہی دیرپا اور موثر ثابت ہو سکتے ہیں۔فوج وہی کامیاب و کامران رہتی ہے جس کے محافظ حکومت اور عوام ہوں،اگر فوج خود ڈرائیونگ سیٹ پہ آ جائے تو وہ براہ راست نشانے پہ آ جاتی ہے۔ دوسری طرف عوام کو نہ اچھا سرکاری نظم و نسق میسر ہے نہ انصاف،ملک کو طبقاتی طور پر یوں تقسیم کر دیا گیا ہے کہ بااختیار،طاقتور طبقات تو معاشی طور پر تباہ حال اس ملک میں بھی یورپی باشندوں سے اچھا سماجی ماحول اور طبی و تعلیمی سہولیات، اچھا معیار زندگی انجوائے کر رہے ہیں اور دوسری طرف شہریوں کو نا انصافی اور دھونس پر مبنی بدترین ماحول میں معاشی دباؤ میں کچلا جا رہا ہے۔67سال کی مشق یہ ثابت کرتی ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں نے اپنے عوام کے لئے ایک سطح مقرر کر رکھی ہے کہ جس سے عوام کو نیچے نہیں گرنے دینا لیکن ہمارے ملک میں عوام کے لئے ایک ایسا کمتر معیار زندگی مخصوص رکھا گیا ہے کہ جہاں سے عوام کو اوپر نہیں آنے دینا۔ملک میں جاری اس چلن سے دہشت گردی کے خلاف جنگ تو جیت ہی جائیں گے لیکن پاکستان کی سلامتی اور بقاء کی جنگ جیتنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 614416 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More