پولیو کی موجودگی یا خاتمہ، مستقبل کیا ہوگا؟

روبینہ کہاں غائب ہو؟ لگتا ہے شادی کے بعد ہمیں بھول گئی ہو، تین سال سے زیادہ گزر گئے فون تک کرنا گوارا نہیں کیا، خود رابطہ نہیں کرنا ہوتا نہ کرو دوسروں کی کال تو ریسیو کر لیا کرو، اب ایسی بھی کیا مصروفیت جو انسان کو زندگی بھر ساتھ رہنے والے دوستوں ہی کو بھولنے پر مجبور کر دے، مجھے پتہ ہے کہ تم شادی کے بعد پاکستان میں نہیں رہی لیکن آج کی دنیا میں دبئی کون سا دور تھا جہاں سے کال بھی نہ کی جا سکتی ہو۔۔۔؟سحر شدت جذبات میں رکے بغیر بولے ہی چلے جا رہی تھی، جب کہ اس کے قریب موجود روبینہ اس انتظار میں تھی کہ اس کی عزیز ترین دوست اپنے دل کی بھڑاس نکال کر خاموش ہو تو وہ اپنی بات کرسکے۔ وہ جانتی تھی کہ سحر کا غصہ جائز ہے، شادی کے بعد گزشتہ تین برسوں میں ایک بار بھی تو اس نے پلٹ کر دفتر اور یونیورسٹی کی دوستوں سے رابطہ کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ ابھی مزید سوچتی لیکن سحر کی خاموشی نے اسے بولنے کا موقع دے ہی دیا،،قبل اس کے ہمیشہ کی باتونی سحر دوبارہ بولتی روبینہ نے موقع کو غنیمت جانا اور لگی صفائی پیش کرنے۔”سحر تم صحیح کہہ رہی ہو، غلطی میری ہی تھی جو تم سے رابطہ نہیں کر سکی لیکن شادی کے بعد ابتدائی دو برس پتہ ہی نہیں چلا کیسے گزر گئے، اس کے بعد ننھے ابراہیم نے رہی سہی فرصت بھی ختم کر دی، دن بھر اسی کے ساتھ گزر جاتا ہے غنیمت ہے کہ رات کو سونے کا وقت مل جاتا تھا مگر اب وہ بھی نہیں مل پاتا جب سے ابراہیم پولیو کا شکار ہوا ہے اسے ہر وقت مکمل توجہ چاہئے ہوتی ہے“۔ روبینہ کے جملے کا آخری حصہ سن کر سحر لرز کر رہ گئی لیکن اگلے جملے نے اسے مزید چونکا دیا جب روبینہ نے یہ بتایا کہ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ پولیو ایک لاعلاج مرض ہے۔

انسان کا بیمار ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں، یہ ہر فرد کی زندگی کا ویسا ہی حصہ ہے، جیسا سونا جاگنا اور کھانا پینا، یہ الگ بات ہے کہ کوئی اپنی زندگی میں کم بیمار ہوتا ہے اور کوئی زیادہ، وجوہات اور اسباب سے قطع نظر یہ حقیقت ہے کہ بیماری اپنا وجود رکھتی اور اسے منواتی ہے۔ لیکن ہمارے اردگرد جسمانی تندرستی اور بھرپور توانائیوں کے ساتھ زندگی گزارنے والا کوئی فرد جنس اور عمر کی تخصیص کے بغیر اچانک کسی ایسے مرض کا شکار ہو جائے جو لاعلاج ہو تو اس کی بے بسی اور متعلقین کے چہروں پر دکھ کا احساس کرنے کے لئے زیادہ حساس دل کی موجودگی ضروری نہیں ہوتی۔ ہر لمحہ موت کے قدموں کی چاپ اس حقیقت کو کتنا سنگین بنا دیتی ہے، اس کا صحیح اندازہ وہی کر سکتے ہیں جو ایسی صورتحال کا شکار ہوئے ہوں۔

ہنستی مسکراتی، پھول سی معصوم زندگی کو چند لمحوں میں معذوری کی خوفناک حقیقت کا شکار کرنے اور موت کے سفر پر روانہ کرنے والا ایسا ہی ایک مرض پولیو بھی ہے جو معصوم اور پھول جیسے بچوں کو صحت سے معذوری یا موت کی جانب یوں روانہ کرتا ہے کہ والدین اور دیگر عزیز رشتہ دار چاہنے کے باوجود بھی افسوس کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ دنیا بھر کی دولت بھی اس لاعلاج بیماری کا شکار مریض کو دوباہ معمول کی زندگی نہیں لوٹا سکتی۔ کچھ ایساہی معاملہ 18ماہ کے معصوم نصیب اللہ کے ساتھ بھی ہوا، جو وطن عزیز میں رواں برس پولیو کا چوتھا شکار ثابت ہوا، گلشن اقبال ٹاﺅن کی یونین کونسل 12 کے علاقے سکندر کالونی میں18ماہ کے نصیب اللہ ولد نعیم جان میں پولیو ٹائپ تھری وائرس کی موجودگی کی تصدیق کی جا چکی ہے۔ نصیب اللہ کو اب تک ویکسین کی چھ خوراکیں دی گئی تھیں جب کہ پیدائش کے بعد بھی اسے اینٹی پولیو ویکسین کا کورس مکمل کروایا گیا تھا۔ ویکسین کی فراہمی کے باوجود مرض کا حملہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دی جانے والی ویکسین اپنی افادیت کھو چکی تھی یا وہ موجودہ آب و ہوا اور غذائی معمول میں صحیح طرح سے اثر نہیں دکھا سکی، وجہ جو بھی ہو اس قابل ہے کہ خامی کا بروقت جائزہ لے کر ان کا تدارک کیا جائے۔

اس سے قبل سامنے آنے والے پولیو کیسز میں سے دو باجوڑ ایجنسی اور ایک بلوچستان میں سامنے آیا تھا۔ جب کہ گزشتہ برس ملک بھر میں پولیو کے کل 89کیسز سامنے آئے تھے جن کی اکثریت قبائلی علاقوں سے متعلق تھی تاہم یہ تمام ہی صوبوں سے رپورٹ ہوئے تھے۔ پولیو کا شکار نئے کیسز کے سامنے آنے کے بعد15 فروری سے شروع ہونے والی ملکی سطح کی پولیو مہم مزید اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جسے پولیو وائرس کی منتقلی کے حوالے سے آف سیزن قرار دیا جاتا ہے اگر ہر گھر تک پہنچنے کو یقینی بنا لیا جائے اور اعلان کردہ ہدف حاصل ہو سکے تو یہ بڑی کامیابی ہوگی۔

پولیو ایک ایسا وائرس ہے جو انسانی جسمانی میں اپنی فعالیت کے بعد محض چند گھنٹوں میں کسی بھی صحیح سلامت فرد کو عمر بھر کی معذوری یا ابتدائی طور پر معذوری کے بعد صحیح دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے موت کا شکار کر سکتا ہے۔ منہ اور انسانی فضلے کے اخراج کے راستے سے جسم میں داخل ہونے والا یہ وائرس ابتدائی علامات کے طور پر مریض کو بخار، تھکاوٹ، سر درد، قے، گردن میں اکڑاﺅ اور ریڑھ کی ہڈی میں درد کا تحفہ دیتا ہے۔ بات صحیح ہے کہ اس سے زیادہ سنگین اور قابل توجہ امراض موجود ہیں لیکن محض اس جواز کی بناء پر ایک ایسے مرض کو پھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی جو ملکی سطح پر معاشی دباﺅ اور انسانی وسائل کو متاثر کرنے کا سبب بن رہا ہو۔ پولیو مائیلائٹس کا اصل نام رکھنے والا یہ مرض پانچ برس سے کم عمر کے بچوں کو سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے۔ مرض سے متاثر ہونے والے کا نظام تنفس اگر بیماری کے حملے کے بعد اپنا کام کرنا چھوڑ دے یا سانس لینے کے عمل میں کمی واقعہ ہو تو یہ موت کا سبب بنتا ہے۔ لیکن دوسری صورت میں یہ ناقابل علاج معذوری کا ذریعہ بنتا ہے۔

آج کے دور میں اگرچہ پولیو 80ء کی دہائی جیسی شدت تو نہیں رکھتا جب اس سے 125ممالک کے ساڑھے تین لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے اور یومیہ بنیادوں پر یہ ایک ہزار بچوں کو اپنے بے رحم شکنجے کا شکار کیا کرتا تھا۔ تاہم نائجیریا، افغانستان، انڈیا اور پاکستان آج بھی اس کے متاثرہ ممالک میں شامل ہیں جہاں 2009ء کے ایک سال میں 1595پولیو کیسز سامنے آئے تھے۔ عالمی ادارہ صحت اور مذکورہ چاروں ممالک کے محکمہ ہائے صحت کی جانب سے بھارت اور نائجیریا کے شمالی علاقوں اور پاکستان و افغانستان کے سرحدی علاقے کو پولیو سے متاثرہ قرار دیا جاتا ہے۔ پولیو کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک دنیا میں ایک بچہ بھی اس وائرس سے متاثر ہے یہ ان ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے جہاں مرض ختم ہو چکا ہے۔ خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب کوئی بھی انسان وسائل کی موجودگی کی شرط کے ساتھ دن بھر میں آدھی سے زیادہ دنیا گھوم سکتا ہے، ان حالات میں سفر کی سرعت اور ٹیکنالوجی کی ترقی پولیو وائرس کی منتقلی میں بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس دعوے کی تصدیق 2003ء سے2005ء کے دوران اس وقت ہوئی جب 25 ایسے ممالک دوبارہ پولیو کا شکار ہوئے جہاں ایک بار مرض کے خاتمے کا اعلان کیا جا چکا تھا۔

کراچی اور خاص طور پر پاکستان میں پولیو کی موجودگی کا بڑا سبب ہمارے ہاں آلودہ پانی کا استعمال، بچوں کو دی جانے والی غذاﺅں میں درکار نمکیات اور وٹامنز کی عدم موجودگی کے سبب قوت مدافعت کی کمی وغیرہ شامل ہیں۔ مرض کے پھیلاﺅ کے دیگر اسباب میں لعابی جھلی کے ذریعے وائرس کی منتقلی اور ہاضمہ کی بڑی آنت کا متاثر ہونا، جب کہ محض دو فیصد کیسوں میں یہ نظام ہضم کے ذریعے تنفس پر حملہ کرتا اور بیماری کا سبب بنتا ہے۔

پولیو کے مرض کی پیشگی علامات اس کے فالجی اور غیر فالجی ہونے کی بنیاد پر مختلف ہوتی ہیں۔ اگر مریض کو ایسے پولیو کا خدشہ ہو جو اپنے ساتھ فالج کا بھی سبب بنے تو اسے ابتدائی طور پر اعصابی نظام اور حرام مغز کی سوزش یا انفیکشن کے ساتھ ساتھ سانس لینے میں مشکل، حسیت بڑھ جانے، پیشاب کے مسائل، قبض، سر درد، اعصابی درد وغیرہ کی شکایت پائی جاتی ہے۔ فالجی پولیو کا شکار ہونے والے مریضوں کی پانچ فیصد سے زائد اکثریت نظام تنفس کی خرابی کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتی ہے۔ جب کہ غیر فالجی پولیو کے حملے کی صورت میں بخار،سر درد، گلے کی خراش، قے اور دباﺅ ابتدائی علامات ہیں جو 48 تا 72 گھنٹے رہنے کے بعد ختم ہو جاتی ہیں لیکن ان کی موجودگی دیگر اسباب کے ساتھ مل کر مریض کو پولیو کے خطرے کا شکار ہونے کی نشاندہی کر دیتی ہیں۔

ان تکنیکی معلومات کی موجودگی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پولیو کے علاج کے لئے احتیاط اور بروقت ویکسین کا استعمال ہی واحد حل ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں اب تک پولیو کی 100 کے قریب مہمات ہو چکی ہیں، لیکن مرض ہے کہ قابو آنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ موجود نظام میں کہیں کوئی خامی ایسی ہے جو اسے روکنے میں ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ یہ خامیاں انسداد پولیو مہم کی منصوبہ بندی، اس منصوبے پر عملدرآمد اور قبل ازاں اسٹریٹیجک پلاننگ کے عمل میں موجود ہیں جن کی بارہا نشاندہی کے باوجود سیاسی دباﺅ، گروہی اور انفرادی مفادات کی وجہ سے انہیں دور نہیں کیا گیا۔ کراچی کے سابق ای ڈی او ہیلتھ ڈاکٹر اے ڈی سنجنانی نے اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سینی ٹیشن کے نظام میں موجود خرابیوں پر قابو پائے بغیر بیماری کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہے جو پولیو کے ساتھ ڈائریا، کینسر جیسے خوفناک امراض پھیلانے کا سبب ہے۔

ماضی میں قومی اور سب قومی سطح کی کسی بھی مہم کے بعد 85 اور 90 فیصد کی کوریج رپورٹس دئے جانے کے بعد بھی بارہا میڈیا یہ لکھ چکا ہے کہ چند گھر نہیں بڑے بڑے علاقے ویکسین فراہمی سے محروم رکھے جاتے ہیں۔ پولیو مہمات کے دوران ویکسین کی منتقلے کے پروٹوکول پر عملدرآمد نہ ہونا، عام افراد میں موجود طرح طرح کے تصورات کے خاتمے کی سنجیدہ کوششوں کا فقدان، فیلڈ میں جائے بغیر دفتروں میں بیٹھ کر ہی کوریج رپورٹس فارموں کا بھرا جانا، مشکل اور دوردراز علاقوں میں بچوں تک عدم رسائی، قبائلی علاقوں کا کلچر، پڑوسی ممالک سے مسلسل آمدورفت، صحت کے متعلق حقیقی شعور کی عدم موجودگی ایسے عوارض ہیں جو پولیو کے عارضے سے زیادہ سنگین ہو چکے ہیں۔ محکمہ صحت کے علاوہ ملک میں موجود دیگر بڑے اداروں کے ساتھ اشتراک اور تعاون سے آگے بڑھنے کی پالیسی جو گزشتہ برس قومی پولیو سیل کی کوششوں کا حصہ رہی اس گھٹن زدہ حقائق کے ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے جسے مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ملک کو اس بیماری سے پاک کرنے اور آنے والی نسلوں کو صحت مند، بیماریوں سے پاک ماحول کا تحفہ دینے کے لئے اپنا کردار ادا کیا جائے۔ خاص طور پر وہ اضلاع جو اب بھی پولیو کے خطرے کا شکار ہیں انہیں ہدف بنا کر نئے سرے سے کوششیں کی جائیں۔

مذکورہ سطور کی اشاعت تک امید ہے اسلام آباد میں ہونے والی ضلعی پلاننگ ورکشاپ میں کوئی مفید صورت سامنے آ چکی ہو گی۔ جب کہ وزراء کی سطح پر پولیو کے خاتمہ کے لئے قائم کردہ بین الصوبائی رابطہ کمیٹی کا اجلاس بھی کسی بہتر نتیجے پر پہنچنے کا ذریعہ بنے گا۔

بصورت دیگر کئی روبینائیں بچوں کے پولیو کا شکار ہونے کی وجہ سے اپنا آرام اور معمول کی زندگی ترک کرنے پر مجبور ہوں گی اور ان کے ارد گرد موجود سحر جیسی متعدد حساس دل رکھنے والی شخصیات اس صورتحال پر سوائے کڑھنے کے کچھ نہیں کر سکیں گی۔

یونیسیف سمیت پاکستان میں موجود دیگر عالمی اداروں کی موجودگی میں مقامی افرادی وسائل کا بروقت اور درست استعمال ہمیں اس منزل تک پہنچا سکتا ہے، بس شرط صرف اخلاص کی موجودگی میں مؤثر منصوبہ بندی، مسلسل کوشش اور واضح اہداف کے ساتھ شعوری طور پر اس کے خاتمے کی نتیجہ خیز کوشش ہے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Shahid Abbasi
About the Author: Shahid Abbasi Read More Articles by Shahid Abbasi: 31 Articles with 29071 views I am a journalist , working in urdu news paper as a Health, cuurent affair, political and other related isssues' reporter. I have my own blog on wordp.. View More