ہم کیا کھا رہے ہیں

آپ نے بہت سارے مریض دیکھے ہوں گے اور جا بجا کھانے پینے کی دوکانیں بھی دیکھی ہوں گی۔ کوئی اگر آپ سے کہے کہ جناب ان مریضوں اور ان دوکانوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے تو شاید آپ اس پر یقین نہیں کریں گے۔ لیکن یہ بات کافی حد تک صحیح ہے اور اس پر اگر میں یہ کہوں کہ یہ امراض اسلام کے عطا کردہ صفائی کے نظام سے روگردانی کی سزا ہے تو شاید کچھ لوگ مسکرائیں اور میری بات بھی نہ سنیں۔ میں سمجھ سکتا ہوں۔ اسلام کی بات تو کسی بچے کے پیدا ہونے پر یا کسے کے مرنے پر، یا نکاح کے وقت ان چند منٹوں پر ہوتی ہے جب نکاح خواں نکاح پڑھاتا ہے یا چند اور موقعوں پر۔ لیکن حقیقت حقیقت ہوتی ہے۔

اسلامی طریقہ ہے کہ کھانے سے پہلے ہاتھ دھو لئے جائیں اور دھونے کے بعد کسی چیز سے صاف نہ کئے جائیں۔ اس میں بڑی حکمتیں ہیں۔ لیکن ہم نے یہ اصول چھوڑ دیا اور نتیجتہً بہت سے جراثیم کھانے کے ساتھ ہاتھوں کے ذریعے ہمارے اندر چلے جاتے ہیں۔

باہر کے کھانوں میں سب سے زیادہ برگر کی دوکانیں ہیں۔ ان دوکانوں میں شاید کوئی ایسی دوکان بھی ہو جو واقع میں صرف برگر کی دوکان ہو۔ یہ مفت بیماریوں کی دوکانیں ہیں جو برگر کے ساتھ ملتی ہیں۔ ذرا سوچئے کی اگر کوئی برگر والا برگر والی پلیٹ میں مرغی کی بیٹھ(مرغی کا پخانہ) بھی رکھ کر دے تو کیا کوئی کھائے گا۔ نییں نہ ۔ لیکن لوگ کھا ریے ییں۔ برگر میں جو انڈے استعمال کئے جاتے ییں ذرا ان کو دیکھیں ان پر مرغی کی بیٹھ(مرغی کا پخانہ) لگی ہوتی ہے۔ انڈے دھونے کا رواج ہی نہیں ہے نہ برگر کی دوکان پر نہ ہمارے گھروں میں۔ برگر والا توے پر گھی ڈالتا ہے۔ انڈا پکڑتا ہے اس کے ہاتھ ناپاک ہو جاتے ہیں۔ اور پھر انہیں ہاتھوں سے گاہگ کو برگر بنا کر پیش کر دیتا ہے۔ میں نے کافی دوستوں کو بتایا لیکن کسی کو کہیں بھی دھلے ھوئے انڈے نظر نہیں آئے۔ ایک دوست نے تو ایک مفتی صاحب سے رابطہ کرنے کے بعد مجھ سے اتفاق کیا ۔ برگر والے کو اگر ذرا سی اسلامی سوچ ہوتی تو وہ انڈے دھو کر استعمال کر لیتا۔ لیکن افسوس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کباب سموسے بھی بہت کھائے جاتے ہیں۔ کباب سموسے والے عموماً قیمہ دھوتے نہیں ہیں۔ ان کے بقول دھونے سے کباب سموسے کا ذائقہ متاثر ہوتا ہے۔ اکثر ہوٹلوں پر کھانے کے برتن دھونے کا سسٹم کچھ یوں ہوتا ہے کہ دھلنے والے برتن ایک بڑے سے پانی سے بھرے ٹب وغیرہ میں رکھ دیئے جاتے ہیں ۔ پانی دھلنے والے برتنوں کی وجہ سے آلودہ ہو جاتا ہے اور پھر اسی گندے پانی سے برتن نکال کر کپڑے سے صاف کر کے دوبارہ کاہگوں کے سامنے پیش کر دیئے جاتے ہیں۔ اب خود ہی سوچیں کہ ان برتنوں میں کھا کر ہم بیمار نہیں ہوں گے تو اور کیا ہو گا۔

پان بھی بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے۔ اور کچھ یا اکثر لوگ مٹی میں چمڑا رنگنے والا رنگ ملا کر فروخت کرتے ہیں اور پان چھالیا، گٹکا،سونف سپاری، رنگ برنگی میٹھی گولیوں پر کپڑے رنگنے والا رنگ ملا کر فروخت کیا جاتا ہے۔ کیونکہ کھانے کا گلابی رنگ بہت مہنگا ہوتا ہے۔ اب پان کھانے والے کو السر ہو یا کینسر اس پر کیا کہا جا سکتا ہے۔ مجھے میرے ایک دوکان دار دوست نے بتایا کہ مٹھائی والے رسگلوں میں سرف ملاتے ہیں۔ میں نے ایک مٹھائی والے سے تصدیق چاہی تو اس نے بتایا کہ سرف کے بغیر چمک اور صفائی نہیں آتی۔ اور جو مرغیاں اور جانور مر جاتے ہیں ان کو سستے داموں خرید کر انہیں مرے ہوئے جانوروں کا گوشت بیچنا تو کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔

یہ چند مثالیں پیش کی ہیں ورنہ اور بھی بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ عافیت اسی میں نظر آتی ہے کہ بازاری کھانوں سے حتی الامکان بچا جائے اور کھانا گھر سے ہی کھایا جائے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Mohammad Owais Sherazi
About the Author: Mohammad Owais Sherazi Read More Articles by Mohammad Owais Sherazi: 52 Articles with 112732 views My Pain is My Pen and Pen works with the ink of Facts......It's me.... View More