آثار صحابہ اور غیر مقلدین

از قلم :مفتی شبیر احمد حنفی حفظہ اللہ
استاذ:تخصص فی التحقیق والدعوۃ
اس تحقیقی مضمون میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے وہ صحیح و ثابت آثار پیشِ خدمت ہیں جن کی آل حدیث (غیرمقلدین)مخالفت کرتے ہیں۔
1:فقہ کی عظمت:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: سردار بننے سے پہلے فقہ حاصل کرو۔
)(صحیح البخاری: ج 1ص17 باب الاغتباط فی العلم و الحکمۃ)(
ایک مرتبہ فرمایا: ”جو فقہ (کا علم) حاصل کرنا چاہے تو وہ حضرت معاذ بن جبل کی طرف رجوع کرے۔ “
)(مصنف ابن ابی شیبۃ: ج17 ص484باب ما قالوا فیمن يبدا بہ فی الاعطیۃ، اسنادہ صحیح)(
جبکہ غیر مقلدین نے فقہ سے حد درجہ بغض و عناد کا ثبوت دیتے ہوئے لکھا:”فقہ حدیث کا پھل نہیں بلکہ بے غیرتی، بے حیائی اور بے دینی جیسے پھلوں کا جوس ہے۔“
))تفہیم سنت از محمد اکرم نسیم ججہ : ص461((
2:تقلید شخصی:
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے میراث کا کوئی مسئلہ پوچھا گیا……… تو انہوں نے فرمایا: ”جب تک تم میں یہ متبحر عالم (حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) موجود ہیں مجھ سے مسائل نہ پوچھا کرو۔“
)(صحیح البخاری: ج2ص997 باب میراث ابنۃ ابن مع ابنتہ)(
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ لوگوں کو تقلید شخصی پر آمادہ کرتے تھے۔ جبکہ غیر مقلدین کے ہاں تقلید شخصی ”سراسر حرام اور ناجائز“ہے۔ [معاذ اللہ]
((سیاحۃ الجنان از عبد القادر غیر مقلد: ص5 وغیرہ))
3: نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا:
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”نماز میں سنت یہ ہے کہ اپنے (دائیں)ہاتھ کو (بائیں) ہاتھ پر ناف کے نیچے باندھا جائے ۔“
((الاحادیث المختارہ للمقدسی ج2 ص387 رقم الحدیث 771 اسنادہ حسن))
فائدہ : اور احناف کا بھی اسی سنت پر عمل ہے۔
اس سنت کا مذاق اڑاتے ہوئے غیر مقلد نے لکھا:” حنفیوں کی نماز نہیں ہوتی کیونکہ یہ آلہ تناسل پر ہاتھ باندھتے ہیں۔“)(قول حق ، محمد حنیف غیر مقلد: ص 21)(
سنت عمل پر ایسا تبصرہ ۔معاذ اللہ ۔یقیناً غیر مقلدین ہی کا کام ہے۔
4:ترک قرأۃ خلف الامام:
حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم امام کے پیچھے قرأت کرنے سے روکتے تھے۔
)(مصنف عبدالرزاق ج2ص91،90رقم2813باب القراءۃ خلف الامام، وھذا مرسل صحیح)(
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:” جس نے امام کے پیچھے قرأت کی تو اس نے خلاف فطرت کام کیا۔“
)(مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص412رقم6باب من کرہ القرأۃ خلف الامام و اسنادہ صحیح))
جبکہ غیر مقلدین کے ہاں امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا فرض ہے، اگر کسی نے نہ پڑھی تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے۔
((خیر الکلام از حافظ محمد گوندلوی: ص33، مجموعہ مقالات پر سلفی تحقیقی جائزہ از رئیس ندوی غیر مقلد ص ((388
5:ترک رفع یدین:
حضرت ابوبکر اور حضرت عمررضی اللہ عنہما پوری نماز میں صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرتے تھے ۔
)(کتاب المعجم،امام اسماعیلی؛ ج2ص692 اسنادہ حسن)(
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ جب نمازشروع کرتے تو رفع یدین کرتے،پھر پوری نما زمیں رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
)(مسند زید بن علی ص100 اسنادہ صحیح)(
اس کے برخلاف غیر مقلدین کا موقف یہ ہے:
” بوقت رکوع رفیع الیدین والا فرض بھی انجام نہ دینے کے سبب……… نماز باطل وکالعدم ہوتی ہے۔“ [معاذ اللہ]
))مجموعہ مقالات پر سلفی تحقیقی جائزہ از رئیس ندوی غیر مقلد ص246 ((
6:نماز میں آہستہ آمین کہنا:
صحابی رسول حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما”آمین “ بلند آواز سے نہیں کہتے تھے۔
) (سنن الطحاوی ج2 ص150 باب قرأۃ بسم اللہ فی الصلاۃ واسنادہ حسن) (
حضرت ا بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی”آمین“ بلند آواز سے نہیں کہتے تھے۔
)(المعجم الکبیر ج4ص567،566رقم9201 اسنادہ حسن)(
جبکہ غیر مقلدین کے نزدیک” آمین“ بلند آواز سے کہنا ضروری ہے۔
((رسول اکرم کا صحیح طریقہ نماز از رئیس ندوی غیر مقلد: ص281، صلاۃ المصطفی از محمد علی جانبازص169))
7: رکعات ِتراویح:
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے حکم دیا کہ میں رمضان شریف کی رات میں نماز (تراویح) پڑھاؤں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ لوگ دن کوروزہ رکھتے ہیں اور(رات) قرأت اچھی طرح نہیں کرسکتے۔ توقرآن مجید کی رات کو تلاوت کرے تو اچھاہے۔حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’اے امیر المومنین !یہ تلاوت کا طریقہ پہلے نہیں تھا ۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ میں جانتا ہوں لیکن یہ طریقہ تلاوت اچھا ہے ‘‘تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بیس رکعات نماز (تروایح) پڑھائی ۔
)(مسند أحمد بن منيع بحوالہ اتحاف الخیرۃ المہرۃ للبوصيري ج2 ص424 اسنادہ صحیح)(
اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی 20 رکعات ثابت ہیں ۔
)(السنن الكبرى للبیھقی ج2ص496، اسنادہ صحیح علی شرط البخاری و مسلم)(
اور حضرت علی رضی اللہ عنہما سے بھی بیس رکعت ثابت ہیں۔
)(السنن الکبری للبیھقی ج2ص496 اسنادہ حسن)(
لیکن غیر مقلدین کے ہاں بیس رکعت تراویح”بدعت“ ہیں۔ ایک غیر مقلد ابو الاقبال سلفی نے حضرت عمر ، حضرت عثمان، حضرت علی رضی اللہ عنہم سے ثابت اس مبارک فعل کے خلاف دل کا غبار یوں نکالا کہ ”بیس رکعت تراویح بدعت ہے“ کا عنوان دیتے ہوئے لکھا:
”بیس رکعت تراویح پڑھنا سنتِ رسول نہیں بلکہ بدعت ہے“ [معاذ اللہ]
((۔۔۔دین اسلام سے اختلاف: ص69))
قارئین کرام! غور فرمائیں کہ اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بدعات پر عامل تھے -معاذ اللہ- (جیسا کہ غیر مقلدین کا موقف واضح ہو رہا ہے) تو بتایا جائے کہ سنت پر عامل اور کون ہو گا؟!!
8: جمعہ کی اذان ثانی:
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں جمعہ کی دوسری اذان دینے کا حکم فرمایا تھا، جو مقام زوراء پر دی جاتی تھی۔
(صحیح البخاری: ج1 ص125 باب التاذین عند الخطبۃ)
جبکہ غیر مقلدین کے نزدیک یہ اذان بدعت ہے [معاذ اللہ]، چنانچہ محمد ادریس سلفی نے ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے:
والاذان الاول بدعۃ•
(ضمیمہ جدیدہ فتاویٰ ستاریہ: ج2 ص13)
کہ اذان اول بدعت ہے۔
ایک صاحب عبد الستار رحمانی غیر مقلد نے تو کیا غضب ڈھایا کہ ”عجیب و غریب بدعات“ کے نام سے ایک کتاب لکھی ، اس میں بدعات کے نام پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جاری اس اذانِ جمعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے بدعات میں شمار کیا ہے۔ [معاذ اللہ]
((عجیب غریب بدعات ص29 عبد الستار رحمانی ))
9:وجوب وتر:
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر واجب ہیں۔
((مسند ابی داؤد الطیالسی: ج1 ص314 رقم الحدیث594 و رواتہ کلہم ثقات))
جبکہ غیر مقلدین کے ہاں وتر واجب نہیں بلکہ سنت اور تطوع ہیں۔
((رسول اکرم کا صحیح طریقہ نماز از رئیس ندوی غیر مقلد: ص571))
10: مسئلہ تین طلاق
تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا اس بات پر اجماع ہوا کہ تین طلاق تین ہی شمار ہوتی ہیں، اور یہ اجماع حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں منعقد ہوا۔
)(سنن الطحاوی ج2ص34باب الرجل یطلق امرأتہ ثلاثاً معا))
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس اقدام کے خلاف غیر مقلدین بہت سیخ پا ہوئے، ان کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک گستاخ غیر مقلدنے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس اقدام کو احکام شرعیہ اور نصوص کے خلاف کہتے ہوئے یوں لکھا:”احکامِ شرعیہ و نصوص کے خلاف خلفائے راشدین کے طرزِ عمل کو پوری امت نے اجتماعی طور پر غلط قرار دے کر نصوص و احکام شرعیہ پر عمل کیا ہے، پھر زیر بحث مسئلہ طلاق میں بھی ہم یہی چاہتے ہیں کہ نصوص و احکام شرعیہ کے خلاف حضرت عمر کی سوچی ہوئی مصلحت کی بنا پر جاری شدہ حکم کے ساتھ بھی یہی معاملہ کیا جائے۔ [معاذ اللہ]
((تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق از محمد رئیس ندوی ص 487))
مزید لکھا: [حضرت عمر نے] باعتراف خویش قرآنی حکم میں ترمیم کر دی۔“ [معاذ اللہ]
((تنویر الآفاق: ص 487))
ایک غیر مقلد نے تو حد ہی کر دی اور یوں لکھا:”ہم فاروقی تو نہیں محمدی ہیں،ہم نے ان کا کلمہ تو نہیں پڑھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا کلمہ پڑھا ہے۔“
((فتاویٰ ثنائیہ: ج2 ص252))
11: فجر کی سنتیں:
حضرت عبداللہ بن ابی موسیٰ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:” حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ(مسجد میں) تشریف لائے جبکہ امام نماز پڑھا رہا تھا۔ تو آپ نے ستون کی اوٹ میں دو رکعتیں پڑھیں،آپ نے فجر کی سنتیں نہیں پڑھی تھیں۔“
((المعجم الکبیر: رقم الحدیث9385 ورجالہ موثقون))
جبکہ غیر مقلدین کے نزدیک اس وقت سنتیں پڑھنا ”خلافِ سنت“ ہے۔
((مسنون نماز از عبد الروف سندھو غیر مقلد: ص137))
12:ڈاڑھی ایک مشت:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں روایت ہے:”وکان ابن عمر اذا حج او اعتمرقبض علی لحیتہ فما فضل اخذہ۔“
((صحیح البخاری: ج2 ص875 باب تقلیم الاظفار))
کہ آپ جب حج یا عمرہ کرتے تو ڈاڑھی کا جو حصہ مٹھی سے زیادہ ہوتا، اسے کاٹ دیتے۔
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے محمد اسماعیل سلفی نے لکھا:”صحابہ عموماً اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ خصوصاًاتباع سنت میں مشہور ہیں لیکن ان کا یہ فعل سنت صحیحہ کے خلاف ہے۔ [معاذ اللہ]
)(فتاویٰ سلفیہ: ص107)(
اور ”فتاویٰ اصحاب حدیث“ میں بھی اس عمل کو ”سنت صحیح کے خلاف“ قرار دیا گیا ہے۔ )(ص485)(
اگر غیر مقلدین کی نظر میں اگر صحابہ رضی اللہ عنہم کا عمل بھی سنت صحیحہ کے خلاف ہے تو بتایا جائے کہ پھر” متبع سنت“ اور کون ہو گا؟!
13:ایام قربانی:
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ” قربانی کے تین دن ہیں۔“
)(احکام القرآن للطحاوی: ج2 ص205 اسنادہ حسن)(
حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما کے نزدیک قربانی کےتین دن ہیں۔
((موطا امام مالک: حدیث نمبر 1071 سندہ صحیح))
حضرت ا بن عباس رضی اللہ عنہماکے نزدیک قربانی کےتین دن ہیں۔
)(احکام القرآن للطحاوی: ج2 ص205اسنادہ حسن)(
ان سب حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے خلاف غیر مقلدین قربانی کےچار دنوں کے قائل ہیں۔
(( آپ کے مسائل کا حل از مبشر ربانی : ص104))
(ہفت روزہ اہلحدیث لاہور: ج40، شمارہ 47، 28 نومبر تا 11 دسمبر 2009))
14:قرآن کو چھونا:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں روایت ہے:أَنَّهُ كَانَ لاَ يَمَسُّ الْمُصْحَفَ إِلاَّ وَهُوَ طَاهِرٌ.
((ابن ابی شیبۃ: ج2 ص361 باب في الرجل على غير وضوء والحائض يمسان المصحف))
کہ آپ رضی اللہ عنہ پاک ہونے کی حالت ہی میں قرآن مجید کو چھوتے تھے۔
جبکہ غیر مقلدین کے ہاں بغیر طہارت کے قرآن کو چھونا جائز ہے۔
((نزل الابرار از وحید الزمان غیر مقلد: ص26، تفسیر احسن البیان از صلاح الدین یوسف: ص832 مفہوماً))
15: عورتوں کے عید گاہ جانے کی ممانعت:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنی عورتوں کو نماز عیدین کے لیے نہیں جانے دیتے تھے۔
((مصنف ابن ابی شیبۃ:ج4ص234، باب من کرہ خروج النساء الی العیدین، رقم 5845، اسنادہ صحیح))
جبکہ غیر مقلدین کے ہاں مسئلہ یوں ہے: ”عید گاہ میں عورتوں کی شرکت لازمی ہے، اگرچہ وہ حیض یا نفاس کے دن گزار رہی ہوں“
((صحیح نماز نبوی از عبد الرحمن عزیز: ص409))
قارئین!حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا مبارک عمل ذہن میں رکھیے اور غیر مقلدین کی ذہنیت بھی ملاحظہ کیجیے:
”بعض لوگوں نے…… عورتوں کے لیے عید گاہ میں جانے پرپابندی لگا رکھی ہے…… یہ سراسر زیادتی …… ہے“
((صحیح نماز نبوی از عبد الرحمن عزیز: ص410))
جاری ہے

muhammad kaleem ullah
About the Author: muhammad kaleem ullah Read More Articles by muhammad kaleem ullah: 107 Articles with 110200 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.