انڈیا میں بڑھتی ہوئی ہندو انتہا پسندی

شاہین اختر

جمہوریت کا لبادہ اوڑھے ہوئے انڈیا میں بڑھتی ہوئی ہندو انتہاء پسندی وہاں کی اقلیتوں کے لئے ہی نہیں بلکہ خود انڈیا کے وجود کے لئے بھی خطرہ بن چکی ہے۔ صورتحال اتنی سنگین ہے کہ بھارتی وزیر داخلہ کو اعتراف کرنا پڑا اور انہوں نے یہ بیان جاری کیا جو کہ بھارتی میڈیا میں شائع ہو چکا ہے جس کے مطابق ’’بھارت کے وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے ملک کی اہم اپوزیشن پارٹی بھارتیہ جنتا پر الزام لگایا ہے کہ ان کے اور آر ایس ایس کے کمیپوں میں شدت پسندی کی تربیت جاری ہے۔ وزیر داخلہ نے ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے پاس رپورٹ آ گئی ہے۔ تفتیش میں معلوم ہوا ہے کہ چاہے بھارتیہ جنتا پارٹی ہو یا چاہے آر ایس ایس ہو ان کے ٹریننگ کیمپوں میں دہشت گردی کو فروغ دینے کا کام دیکھا جارہا ہے۔وزیر داخلہ نے کہا کہ سمجھوتہ ایکسپریس میں ہوئے بم دھماکے ہوں، مکہ مسجد پر ہونے والا بم دھماکہ یا پھر مالیگاں کے دھماکے ہو ہندو شدت پسندوں نے وہاں جاکر بم رکھے اور پھر کہا کہ مسلمانوں نے یہ دھماکے کیے ہیں۔شندے نے کہا کہ ایسی کوششوں سے ملک کو ہوشیار رہنا چاہیے۔ واضح رہے کہ حیدرآباد کی مکہ مسجد، سمجھوتہ ایکسپریس اور مالیگاں میں دھماکوں کے بعد تفتیش کے دوران آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے سادھوی پرگھیہ ٹھاکر اور اسیم آنند جیسے ہندو شدت پسندوں کے نام سامنے آئے تھے۔ یہ دونوں اس وقت جیل میں قید ہیں اور اس بارے میں مزید تفتیش جاری ہے۔ پہلے ان دھماکوں کے لیے مسلمان عسکریت پسندوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا لیکن تفتیش کے بعد ہندو شدت پسندوں کے نام سامنے آئے تھے۔ وزیر داخلہ کے بیان پر بھارتیہ جنتا پارٹی نے سخت ردعمل پیش کیا اور سنگین نتائج کی دھمکی دی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان شاہ نواز حسین نے کہا ہے وزیر داخلہ گھبرائے ہوئے ہیں۔ اس طرح کے بیانات بے بنیاد ہیں اور ہم ان سے اس بارے میں جواب ضرور مانگیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ سشیل کمار شندے دہشت گردی کو مذہب کا نام دے رہے ہیں۔ ادھر کانگریس پارٹی کے رہنما راجیو شکلا نے شندے کے بیان پر صفائی دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کے درمیان ہندو اور مسلمان ہونے کی بنیاد پر امتیاز نہیں کیا جاتا ہے لیکن سینئر کانگریس لیڈر منی شنکر ایئر نے ان کے بیان کے لیے شندے کو مبارکباد دی ہے۔‘‘

کانگریس نے شندے کے بیان کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی جے پی اپنے اندرونی اختلافات سے توجہ ہٹانے کے لیے غیر ضروری معاملات کو اچھال رہی ہے۔پارٹی کی سینئر رہنما رینوکا چودھری نے کہا بی جے پی اندرونی انتشار کا شکار ہے۔ اسے حال ہی میں اپنے صدر کو ہٹانا پڑا ہے۔ شندے نے کیا غلط بات کہی ہے؟ وہ وزیر داخلہ ہیں اور ان کے پاس ثبوت ہے۔

بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندو انتہاء پسندی کے شدت کے پیش نظر امریکی صدر اوباما اور نیویارک ٹائمز کو اقلیتوں کے معاملات کے حوالے سے بھارت کو خبردار کرنا پڑا۔

بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دول کی پاکستان دشمنی اور بھارت میں ہندو انتہاء پسندی کی وکالت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اس طرح عملاً بھارت میں ہندو انتہاء پسندی اور دہشت گردی کی سرکاری عہدوں پر شخصیات کی طرف سے سرپرستی انتہائی خطرناک اور قابل مذمت ہے۔ اجیت دول بلوچستان میں دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں اور پاکستان کو ’’را‘‘ کی دہشت گردی کا ہدف بناتے ہوئے اسے ’’جارحانہ دفاع‘‘ کی ڈاکٹرائن کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ اجیت دول نے ہی کشتی دھماکے کا ڈرامہ رچایا تھا۔ بھارت میں ہندولائزیشن اتنی شدت سے جاری ہے کہ اس کی زد میں انڈین آرمڈ فورسز کا چہرہ بھی آ رہا ہے جو بظاہر عمومی طور پر سیکولر ہوا کرتا تھا۔ ریئرایڈمرل وجے شنکر نے اعلان کیا ہے کہ انڈین نیوی کے نئے کیڈٹس کو رامائن کی کاپیاں فراہم کی جائیں گی جو کہ کلاس روم کی مشقوں میں استعمال کی جائینگی۔ بھارتی کنٹونمنٹ کے علاقوں میں ہنومان کے مندروں میں اضافہ اور ہندو مذہبی میلوں میں بھی تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے جبکہ مسلمانوں اور مسیحوں کے میلے نہیں منائے جا رہے۔ سرکاری ٹی وی اور ریڈیو کے محکمے بھی معاشرے کی ہندولائزیشن میں کسی سے کم نہیں کیونکہ صبح کی نشریات کا آغاز وندے ماترم سے کیا جاتا ہے۔ بھارتی ہندو انتہاء پسندی کا ہدف مسلمان اور مسیحی ہیں۔ پاکستان دشمنی انتہاء پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس کا ایجنڈا ہے۔ بی جے پی جس کا سیاسی چہرہ ہے۔ بھارتی اخبار ’’دی ہندو‘‘ کی 29مارچ کی اشاعت میں پونے پولیس کی طرف سے 24مارچ کو ایک تیرہ سالہ پاکستانی بچی کو اس کی رہائش گاہ پر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کی خبر دی گئی ہے۔ پاکستانی سفارتخانے نے یہ معاملہ اٹھانے کی بات کی ہے تاہم اب تک ہندوستان میں ہندو انتہاء پسندی کے نتیجے میں بابری مسجد سمیت بے شمار مساجد ، گرجا گھر جلائے اور مسلمانوں اور مسیحوں کو جاں بحق کیا جا چکا ہے۔ یہ سب کچھ اس نعرے کے تحت کیا جا رہا ہے ’’ہندوستان میں رہنا ہے تو رام رام کہنا ہے‘‘۔
Javed Ali Bhatti
About the Author: Javed Ali Bhatti Read More Articles by Javed Ali Bhatti: 141 Articles with 95012 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.