حال ہی میں پاکستان کے صوبہ سندھ میں بھنبھور کے آثار
قدیمہ میں ماہرین کی ایک ٹیم نے ایک زیر آْب شہر دریافت کیا ہے- ماہرین کی
ٹیم کا کہنا ہے کہ ان کے دریافت کردہ نئے زیرِ آب شہر میں پانچویں صدی
عیسوی سے نویں صدی عیسوی تک کی آْبادی کے نشانات موجود ہیں۔
|
|
آثارِ قدیمہ کے ماہرین کے مطابق دریافت شدہ زیرِ آب شہر میں پکی گلیاں اور
کارخانے موجود ہیں جبکہ جو عمارتی ڈھانچہ دریافت ہوا ہے اس میں لکڑی کے پول
پر چھت بنائی گئی ہے- اور ماہرین کے اندازوں کے مطابق اس چھت کے نیچے بیٹھ
کر کاریگر اپنا کام سرانجام دیتے تھے-
آرکیالوجسٹ ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری کے مطابق اس شہر میں جانوروں کی ہڈیوں
کی صنعت بڑے پیمانے دیکھی گئی- یہاں جانوروں کی ہڈیوں سے چوڑیاں، کنگھیاں
اور دیگر زیورات کے علاوہ زرعی آلات تیار کیے جاتے تھے-
بھنبھور کی ایک شناخت رومانوی داستان سسی پنوں بھی ہے۔ اس قدیم شہر کے بارے
میں یہ رائے عام ہے کہ سمندر کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ یہ شہر بنتا اور بگڑتا
رہا اور اسی کے ساتھ یہاں کے لوگوں کا کاروبار بھی جڑا رہا ہے۔
|
|
مذکورہ مقام پر ہونے والی حالیہ کھدائی میں ٹیرا کوٹا کے کچھ ٹکڑے بھی
دریافت ہوئے ہیں اور ان ٹکڑوں کی اب پیمائش اور سائنسی مشاہدہ کیا جا رہا
ہے-
حالیہ کھدائی کا ایک مقصد بھنبھور اور دیبل کا تنازعہ بھی حل کرنا ہے۔
آرکیالوجسٹ ڈاکٹر عاصمہ ابراہیم کے مطابق اب تک ہونے والی کھدائی سے یہ
تصدیق نہیں ہوسکی کہ آیا دیبل اور بھنبھور ایک ہی تھا اور محمد بن قاسم
یہاں آیا تھا۔ |