میرا نصیب:قسط 1

میں ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھنے والی لڑکی تھی جس کو آج کہ دور میں لوئر مڈل کلاس فیملی کہا جاسکتا ہے مہنگائی نے تو وی ویسے ہی کمر توڑ دی ہوئی ابا کی و فات کے بعد تو گزارا بہت ہی مشکل سے ہوتا تھا ماں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی اور ہم بہن بھائیوں کی ضرورتیں پوری کیا کرتی کبھی کبھی تو میں اپنے حالات سے اتنا تنگ آجاتی کہ جی چاہتا خود کو زندہ دفن کر لوں ...................

مجھے لوگوں کی طرف دیکھ کر بہت حیرت ہوا کرتی اور میں ہمیشہ یہ ہی سوچا کرتی کہ شائید ہمارے بھی حالات کبھی ٹھیک ہوں گے۔میں پڑھائی میں کافی اچھی تھی لیکن گھر کے حالات اتنے اچھے نہیں تھے کہ میری ماں میرے تعلیمی اخراجات اٹھائے اس لئے اماں نے میرا سکول جانا بند کر دیا اور پانچویں کلاس سے ہی گھر بیٹھا لیا میں کافی روئی پیٹی لیکن اماں نے ایک نہ سنی اور کہا کہ بس ہم غریبوں کی اتنی ہی پہنچ ہے آمنہ تم مجھے مت تنگ کرو رو دھو کے ایک ہفتہ گزر گیا کم عمر ہونے کی وجہ سے اماں مجھے کسی کے ہاں کام پر بھی نہیں بھیج سکتی تھی پورا دن گھر میں بیٹھی رہتی اماں کے آنے کا انتظار کیا کرتی ڈر سے دروازے کے پاس ہی بیٹھی رہتی ذرا سی آہٹ بھی ہوتی تو جھانک کر دیکھتی شاید اماں لوٹ آئی ہے اماں کے آنے کا وقت مقرر نہیں تھا جب بڑے صاحب کے گھر والے کہتے جب آتی اور آتے ہی بستر پر لیٹ جاتی اور سو جایا کرتی میں اکیلی تھک جاتی نہ کوئی سہیلی اور نہ کوئی رشتہ دار بس تنہائی کاٹنے کو آنے لگی تھی -

اب تو ایک عادت سی ہو گئی تھی اکیلے رہنے کی میری عمر اب 19برس ہو گئی تھی ۔اماں ایک دن جلدی گھر آگئی میری تو خوشی کی انتہا نہ تھی لیکن اماں نے مجھے آتے ایک ایسی بات سنائی کہ میں تو دھنگ رہ گئی۔
اماں نے کہا کہ جس بڑے صاحب کے ہاں وہ کام کرتی ہے ان کی بھی ایک بیٹی ہے ان لوگوں کو اپنی بیٹی کی دیکھ بھال کے لئے ایک نوکرانی کی ضرورت ہے اور 100روپیہ مہینہ دیں گے اور تجھے ان کی بیٹی کے پاس رہنا ہو گا بس ....................

میں بھی قید میں رہ رہ کر تنگ آچکی تھی اور جھٹ سے مان گئی اماں نے کہا جلد اپنا سامان باندھ لے میں تجھے ابھی کے ابھی چھوڑ آؤں کہیں بڑے صاحب کسی اور کو نہ ہامی بھر لیں ۔

میں بچاری خوشی خوشی وہاں پہنچ گئی گھر تھا کہ جیسے محل میری تو آنکھیں ہی کھل گئی یوں لگا جیسے جنت ہو۔

یوں لہراتے ہوئے ریشمی پردے کیا خوبصورت لگ رہے تھے بھیٹک میں نظر پڑی تو وہاں ایک دیوان دیکھا بس ایسا لگا جیسے کسی محل کا سامان پڑا ہوا ہو ۔

اتنے میں دائیں طرف سے ایک بڑی بی آئی اور کہا ارے یہاں وہاں کیا دیکھ رہی ہو ۔ اس قدر خوبصورت ساڑھی پہنی ہوئی تھی اور بہت ہی نخرے والے انداز میں آکر مجھے کہا چلو میں تمہیں رانی کے کمرے میں چھوڑ آؤں سیڑھیاں چڑتے ہوئے مجھے انہوں نے گھر کہ کچھ اصول بتائے لیکن میں تو گھر کی چیزیں دیکھنے میں مصروف تھی ان کی باتوں پر تو دھیان نہیں تھا۔

اتنے میں ایک کمرے کا دروازہ کھولا اور کہا رانی بیٹا یہ تمہاری دیکھ بھال کے لئے لڑکی ہے اس کو اب اپنے تمام کام سمجھا دو رانی بی بی اپنے نام کی طرح حسین تھی اور ان کا کمرہ بھی ان کی طرح خوبصورت چیزوں سے بھرا ہوا تھا۔

رانی بی بی نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا یہاں بیٹھو تم اور تمہارا نام کیا ہے لڑکی ۔

میں تو جیسے سہم ہی گئی اورڈر کے مارے ہاتھ زور سے جھٹکا اتنے میں رانی بی بی زور سے ہنسنے لگی اور کہا اف تم تو بہت ڈرپوک ہو۔

شروع شروع میں تو رانی بی بی مجھے اچھی نہیں لگتی تھی لیکن جب انہوں نے مجھے اپنے کپڑے اور چیزیں دینا شروع کر دی۔ مجھے تو اتنے قیمتی کپڑے زندگی میں پہلی بار دیکھنے کو ملے تھے اماں کو دیکھائے تو اس نے کہا تم کیا کرو گی پہن کر مجھے دے میں تیرے جہیز کے لئے رکھ دوں کل کو تیرا بیاہ کروں گی تو جب پہن لینا ۔

لیکن پھر بھی رانی بی بی مجھے اپنی بہت ساری پرانی چیزیں دے دیا کرتی تھی اور روپیہ پیسہ بھی لیکن بڑے صاحب ان کو گھر سے باہر نہیں جانے دیتے تھے اس لئے میں ان کے سب کام کیا کرتی تھی۔۔۔۔

ایک دن بڑے صاحب جلدی گھر آئے تو انہوں نے کہا کہ میرا بھتیجا آرہا حیدرآباد سے گھر میں مہمان خانہ ٹھیک کروا دو -

بڑے صاحب کچھ سخت مزاج تھے ان کی بات ہر کوئی بہت اچھے سے سنتا اور عمل بھی کرتا تھا ۔ کیونکہ ان کو اپنی کہی ہوئی بات بھولتی نہیں تھی اور اگر کام ان کی مرضی کے مطابق نہ ہو تو وہ تو گھر میں طوفان کھڑا کر دیتے-

بیگم صاحبہ بھی ان کے آگے خاموش رہتی اور بس جی جی کر کے جواب دیا کرتی کیا مجال کہ کسی کی اونچی آواز بھی آجا ئے جب بڑے صاحب گھر ہوا کرتے تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ بڑے صاحب رانی بی بی سے بہت پیا ر کرتے تھے اور اس کی ہر ضرورت پوری کیا کرتے تھے اور کبھی غصہ نہیں کرتے تھے۔ دنیا کی ہر چیز ان کے لئے لیکر آ جایا کرتے۔-

رانی بی بی ان کی بہت لا ڈلی تھی ۔ یوں سمجھ لیں کہ بڑے صاحب کی جان تھی ان میں ۔

رانی بی بی کے بارے میں ایک بھی لفظ نہیں سنتے تھے بس وہ جو کہتی تھی وہ ہی کیا کرتے تھے ۔

گھر میں اب تو ایک عجیب سا شور تھا اور ہر طر ف ہلچل مچی ہوئی تھی ہر طرف بس نئے مہمان کے آنے کی تیاری تھی بیگم صاحبہ سختی سے کہہ رہی تھی ۔کسی چیز کی کمی مت رہے تم لوگوں کہ ساتھ ساتھ میری بھی سختی آجائے گی ۔

اصل بات یہ تھی کہ بڑے صاحب کے آگے کسی کی بھی نہیں چلا کرتی تھی سوائے رانی بی بی کہ ان کے علاوہ تو سب کی باتیں بڑے صاحب کو جھوٹ ہی لگا کرتی تھی لہجہ اس قدر سخت کہ سامنے والا کانپ جائے ڈر سے۔

sana luqman
About the Author: sana luqman Read More Articles by sana luqman: 11 Articles with 22723 views I am student of MS mass communication.
I am a columnist in different news papers and Magazines.
.. View More