سعودی عرب کے مخالف دانشور خسارے میں ۔۔۔

یونانیوں کے ہاں ایک ارسطو و سقراط پایا جاتا تھا مگر ہمارے ہاں الله کے فضل سے تھوک کے حساب سے ارسطو ، سقراط اور جالینوس پائے جاتے ہیں انھی میں سے ایک افلاطون دانشور کا فرمان ذیشان ملاحظہ کریں - جناب ارسطوئے وقت ثانی ابن سینا محترم ہارون الرشید صاحب نے اپنی فیس بک ٹائم لائن پر شئیر کیا کہ میری اطلاعات کے مطابق پاکستانی فوج سعودیہ بھیجنے کا فیصلہ ہوچکا ہے ، ایران اپنی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی کرچکا - سعودی عرب کی مخالفت کرنے والے پاکستانی لیڈر اور دانشور خسارے میں رہیں گے ( ہارون الرشید ٢٧ مارچ ٢٠١٥ )-

غازی ضیاء الحقی دور کے اخبارات اٹھا کر دیکھیں ایسے ہی دانشور آپکو افغان وار میں پاکستان کی شمولیت کو احسن اور دانشمندانہ اقدام قرار دیتے نظر آئیں گے تب یہ روس کے خلاف اور امریکہ بہادر اور غازی ضیاء کے حق میں صفحوں کے صفحے سیاہ کرتے تھے ، افغان وار کے مجاہد و غازیوں کی جرءات و بہادری کے جھوٹے سچے قصے سناتے نہیں تھکتے تھے ۔ مگر جب افغان وار کے غازی پاکستانی ریاست اور پٹھو دانشوروں کے سر پر ہتھوڑا بنکر لگے تو انکو احساس ہوا کہ ہم نے بہت بڑی بھول کردی تھی ۔ مگر بعض اوقات لمحوں کی بھول کی قیمت صدیاں نہیں چکا پاتیں ۔ اور افغان وار کے جتنے جنگجو تھے سبھی بعد میں مختلف جنگجو تنظیموں کے جھنڈوں تلے جمع ہوگئے اور نیم دانشوروں نے انھیں اتنا سر پہ اٹھایا کہ یہ جنگجو گروپ خود کو ریاست سے زیادہ طاقتور سمجھنے لگے - اور انکے ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کے پیچھے یہی منطق کارفرما تھی - افغان وار کے ثمرآت کا اگر پوچھیں تو دانشور جواب دیتے ہیں کہ ہماری سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ ہم نے روس کو گرم پانیوں تک نہیں پہنچنے دیا اور سینکڈلی پاکستان روس کا اگلا ٹارگٹ تھا اور ہم نے اپنی سرزمین کا تحفظ افغان سرزمین میں جاکر کیا ۔ میں اس منطق کے ساتھ اتفاق نہیں کرتا کیونکہ پاکستان کبھی بھی روس کے لئیے لقمہ تر نہیں تھا ۔ افغان وار کے ثمرات سے زیادہ کانٹے ہمارے حصے میں آئے ۔ اپنے پڑوسیوں کو اپنا مخالف بنا لیا ، بنگالیوں کی طرح افغانی بھی ہمیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ غازی ضیاء کے بعد جتنے بھی حکمرآن برسراقتدار وہ ضیاء الحقی پالیسی کو ہی آگے لیکر چلتے رہے اور جرنیل بھی اچھے اور برے طالبان کا فلسفہ بکھیرتے رہے ۔ مگر خوش قسمتی سے جرنل راحیل شریف کے چیف بننے کے بعد پرانی پالیسی کو ریورس کیا اور دہشتگردوں کو اچھے اور برے خانوں میں تقسیم کرنے کی بجائے صرف دہشتگردی کے خانے میں رکھا گیا ۔ ہماری ہر خوش قسمتی کے اوپر ہمیشہ بدقسمتی کے بادل منڈلاتے رہتے ہیں ۔ حالات اسطرح کے بن جاتے ہیں کہ ہمیں دوبارہ پرآنی غلطیاں دہرآنی پڑتی ہیں ۔ ہم تو کمبل چھوڑنا چاہتے ہیں مگر کمبل ہمیں نہیں چھوڑتا ۔ حالیہ یمن سعودی تنازعے کے تناظر میں ہم اپنی فوج سعودیہ بھیج کر وہی پرانی غلطی دہرانے جارہے ہیں ، پہلے ہی ایران اور سعودیہ کی پراکسی وار ہمارے ملک میں شعیہ سنی چپقلش کی صورت میں لڑی جارہی ہے ۔ سعودیہ فوج بھیجنے کے بعد اس میں شدت آجائے گی ۔ افواج پاکستان پہلے ہی خوارج کے ساتھ جنگ میں مصروف ہے ، حالیہ فیصلے کے نتیجے میں ایک اور روافض کا محاظ کھل جائے گا ۔ پاکستان مذید خطرات میں گھر سکتا ہے ۔ گوادر سے بلوچستان اور کالاباغ ڈیم کے ایشو پر جلتی پر تیل ڈالنے کا کام ہمارے برادر اسلامی ممالک ہی بڑی فراخدلی سے سرانجام دے رہے ہیں ۔ وقت آنے پر ایک طرف پاکستان کو اسلام کا قلعہ گردانتے ہیں تو دوسری طرف پاکستان کو خودمختار اور مستحکم بھی دیکھنا نہیں چاہتے ۔ انکی خواہش ہے کہ پاکستان کے ہاتھوں میں ہمیشہ کشکول گدائی تھاما رہے ۔ میرا تجزیہ تھا کہ اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ پاکستان اپنے بچپنے سے نکل کر سن بلوغت میں قدم رکھے گا مگر حالیہ فیصلے کو دیکھکر مجھے اپنا تجزیہ غلط ثابت ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ حجاز مقدس کے مقدس مقامات شہر مکہ و مدینہ کے تقدس و حرمت کی حفاظت کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے مگر یہ کسی آسمانی صحیفے میں نہیں لکھا کہ آل سعود کی بادشاہت کا اور انکے مفادات کا بھی تحفظ کیا جائے - آل سعود کی بھی عجب منطق ہے کبھی جنت البقیع سے لیکر ابواء کی وادی تک مقدس مقامات پر خود بلڈوزر چڑھا دیتے ہیں اور جب کبھی انھیں اپنی بادشاہت کو خطرات درپیش آتے ہیں تو امت مسلمہ سے مقدس مقامات کے تحفظ کی آڑ میں مدد طلب کرتے ہیں - اور ہمارے حکمرآن اور نیم دانشور تصویر کا ایک رخ دیکھ کر جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں ، ایک طرف مذہبی وابستگی دوسری جانب ریالوں کی بارش پھر کون پیچھے رہ سکتا ہے - یہی تو کمزوری ہے جسے برادر اسلامی ممالک استمعال کرنے سے کبھی نہیں چوکتے ۔ دس سالہ ایران عراق جنگ ، کویت عراق جنگ کا نتیجہ کیا نکلا ؟ داعش کے جن نے جنم لیا اور عراق سے شام اور لبیاء تک اپنی بقا کے لئیے تڑپ رہے ہیں - یورپ سالوں پر محیط جنگ وجدل کے بعد اپنے تنازعات مذاکرات سے حل کرسکتے ہیں تو مسلم ممالک کیوں نہیں - جو دانشور طالبان سے مذاکرات پر زور دیتے تھے وہی آج سعودیہ فوج بھیجنے پر زور دے رہے ہیں آخر کیوں ؟ پاکستان کو جنگ کا حصہ بننے کی بجائے ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہئیے اور سعودیہ اور ایران کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہئیے - سعودیہ کے مخالف خسارے میں رہیں گے یا نہیں اسکے چانسز ففٹی ففٹی ہیں مگر حمایتی نفرت اور مخاصمت و فرقہ واریت کے کانٹے ضرور بونے جارہے ہیں ۔ لمحوں کی بھول صدیوں میں بعض اوقات درست نہیں ہو پاتی - کبھی ہاتھوں سے دی ہوئی گرہیں دانتوں سے بھی نہیں کھل پاتیں ۔
Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 172460 views System analyst, writer. .. View More