خصوصی: نوشتہِ دیوار

پاکستان کی بیٹی پر ظلم کی انتہا کر دی گئی!

امریکہ کے ایک جعلی مفروضے پر پاکستان کے حکمرانوں نے ڈالرز کے عوض پاکستان کی بیٹی کو فروخت کردیا تھا! کسی امریکی نے ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ ڈالرز کے بدلے پاکستانی اپنی ماں کو فروخت کر دیتے ہیں۔ اس بیان پر ماضی میں پاکستان میں بڑی لے دے بھی کی گئی تھی۔ مگر امریکی کی کہی ہوئی وہ بات ہم نے تو سچ بھی ثابت بھی کر کے دکھا دی۔ پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی کو کراچی سے پنڈی کے سفر کے دوران اسکے تین معصوم بچوں سمیت ائیر پورٹ سے مبینہ طور پر ہماری ایجنسیوں نے یا امریکی درندوں نے مبینہ طور پر اغوا کر کے غائب کر دیا تھا اور افغانستان لیجا کر اس کو مختلف جیلوں میں قید رکھا گیا۔ جب ہر طرف ہا ہا کار مچی اور ڈھونڈ پڑی تو اس کو کوئی ایجنسی بھی بازیاب نہ کرا سکی۔ یہ خاتون اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں جو امریکہ میں اپنی پی ایچ ڈی کی اعلیٰ تعلیم مکمل کر کے پاکستان آگئیں تھیں۔ جو فلسطینیوں کی زبردست حمائتی تھی یہودیوں اور اس کے حمائتیوں کی شدید مخالف تھی۔ امریکیوں اور پرویز مشرف کی جانب سے ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ بایوٹیروریزم یا حیاتیاتی دہشت گردی سے ان کا تعلق ہے۔ وہ خطرناک کیمیکل تیار کرنے کی ماہرہ ہیں۔ جب عافیہ کو اور اسکے بچوں کو اغوا کیا گیا تو وہ اپنی والدہ کی عدت پوری ہونے پر پنڈی جا رہی تھیں۔ گھر والوں کی مسلسل تلاش کے باوجود مشرف حکومت نے ان کی والدہ یا گھر والوں کو انکی گمشدہ بیٹی کا پتہ نہ دیا اور تمام پاکستانی ادارے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے مکمل لا علمی کا اظہار کرتے رہے۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ نام نہاد انسانی حقوق کے چمپیئن یہودی غنڈوں کے اشاروں پر عافیہ پر پانچ سال تک بگرام ائیر بیس کے عقوبت خانے میں انتہائی انسانیت سوز مظالم ڈھاتے رہے۔ پاکستان کا بزدل کمانڈو امریکیوں سے ڈالر لے کر کھیلتا رہا۔ امریکی حکام نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 11 ستمبر کے ماسٹر مائینڈ خالد شیخ کے بھتیجے عبدالعزیز اور القاعدہ کے ایک اہم رکن ابوندال بلوچی سے رابطے کے جھوٹے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ ایف بی آئی کی ایک ویب سائٹ کے مطابق 2003 میں انکو امریکہ کے خلاف کام کرنے کے الزام میں صرف پوچھ گچھ کے لئے گرفتار کیا گیا تھا۔ مگر اس دوران عافیہ کو کسی وکیل سے ملنے کی اجازت تک نہ دی گئی تھی۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ پاکستان میں شروع کے پانچ سالوں میں ڈاکٹر عافیہ کا کہیں سراغ فراہم نہ کیا گیا تھا۔ ان کا سراغ ملتا بھی کیسے پاکستان میں انسانوں کا ایک بڑا تاجر اپنے کارندوں کے ذریعے جس کو جب چاہتا تھا غائب کرا کے امریکہ سے لاکھوں ڈالر بٹور کے چپ سادھ لیتا۔ نہ جانے وہ کس قماش کا مسلمان اور کس ذہنیت کا پاکستانی تھا؟ کہ اپنے ہی لوگوں کو بے عزت کراتا اور ان کو فروخت کر کے طمانیت محسوس کرتا رہا۔ اس کو پتہ ہونا چاہئے تھا کہ اقتدار، دولت پیسہ سب یہیں رہ جائے گا۔ انسان خالی ہاتھ آیا ہے اور خالی ہاتھ ہی اپنے اعمالوں کی پوٹلی کو گھسیٹا ہوا جائے گا۔

چند ماہ قبل طالبان کی قید سے رہا ہونے والی ایک مغربی خاتوں صحافی ریان ریڈلے نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں افغانستان کے بگرام ائیر بیس کے عقوبت خانے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی موجودگی کا دعویٰ کیا تھا۔ جس کے بعد اس نے کہا تھا کہ وہ قید خانے کا دورہ کر رہی تھی کہ اس نے بہت سے قیدیوں کو دیکھا اور ان کے کمروں کا بھی معائنہ کیا ایک ڈبہ نماں کمرہ ایسا تھا جو مکمل بند تھا مگر اس کمرے سے کسی قیدی خاتون کی دلدوز چیخوں کی آواز آرہی تھی۔ جو یقیناََ عافیہ صدیقی ہی کی تھی۔ جب امریکہ کے شہر ہیوسٹن میں مقیم ڈاکٹر عافیہ کے بھائی نے انکی گمشدگی کے حوالے سے ایف بی آئی حکام سے رابطہ کیا تو ایف بی آئی کے ایجنٹ نے جو معلومات فراہم کیں ان کے تحت صرف یہ تصدیق کردی گئی تھی کہ وہ زندہ ہیں ۔ جس سے ان کے خاندان کی تشویش اور بڑھ گئی۔ اب انہیں اس بات کی فکر تھی ڈاکٹر عافیہ کہاں اور کس حال میں ہیں؟ حکومت پاکستان کی اس معاملے میں خاموشی ان کے لئے اور بھی اذیت ناک سے زیادہ شرم ناک تھی۔

ریان ریڈلے کے انکشافات منظر عام پر آنے کے بعد امریکیوں اور افغانوں کو انہیں مزید بگرام کے قید خانے میں رکھنا دشوار محسوس ہوا تو انہوں نے ایک نئی کہانی گھڑ کر ڈاکٹر عافیہ کو منظر عام پر پیش کر دیا۔ ایف بی آئی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ 36 سالہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 17 جولائی 2008 کو گورنر غزنی کی رہائش گاہ کے احاطے میں افغانستان کی پولیس نے مشتبہ حالت میں گرفتار کر کے لے جاتے وقت ان کے قبضے سے کچھ دستاویزات برآمد کی تھیں جن میں بم بنانے کی ترکیب درج تھی اور نیو یارک سمیت امریکہ کی اہم عمارتو ں کے نقشے اور ان کے پرس سے بمعہ کیمیکل مواد کے برآمد ہوئے تھے۔ ان کے قبضے میں شیشے کی بوتلیں اور مرتبان بھی تھے جن میں خطرناک بم بنانے کا کیمیکل بھرا ہوا تھا۔(یہ اسی طرح کی امریکی خبر تھی جیسی عراق میں کیمیکل کی موجودگی کی خبر تھی۔ جو کبھی برآمد نہ کئے جاسکے) جس کے تحت ڈاکٹر عافیہ ایک مدت سے امریکی حکومت کو مطلوب تھی۔ جن کو گرفتاری کے بعد حکمرانوں نے امریکیوں کے سپرد کر دیا تھا۔امریکیوں کے بقول ڈاکٹر عافیہ نے دوران تفتیش ایک امریکی فوجی کی بندوق چھین کر امریکیوں پر فائر کئے مگر اس فائرنگ کا اثر امریکیوں پرتو ہوا ہی نہیں۔ خود عافیہ صدیقی زخمی ہوگئں۔ امریکہ کے اٹارنی جنرل مائیکل گارشیا نے ایک جھوٹی اور من گھڑت کہانی گھڑ کر الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ جوابی فائرنگ سے ایک گولی ڈاکٹر عافیہ کے سینے میں لگی اس دوران ڈاکٹر عافیہ چیخ چیخ کر کہتی رہی کہ وہ امریکیوں کو مار دے گی۔ لیکن ان پر قابو پالیا گیا۔ اس موقع پر انہیں طبی امداد بھی فراہم کی گئی، جو جھوٹ کے سوائے کچھ نہیں ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی فوجی اتنے کمزور اور بزدل تھے کہ ایک کمزور عورت نے ان سے بھاری بھرکم بندوق چھین کر ان پر فائر بھی کر دیئے اس کے جواب میں ایک امریکی کی گولی سے وہ زخمی ہوگئیں؟؟؟پاکستان کی بیٹی پر ظلم کی انتہا کرد ی گئی ہے۔ اس پر حکمرانوں کا بھڑکیں مارنے کے علاوہ کچھ نہ کرنا سوالیہ نشان ہے۔

اس جھوٹی اور من گھڑت کہانی کے بعد ایف بی آئی نے امریکی نژاد ڈاکٹر عافیہ کو افغانستان سے امریکہ منتقل کر دیا۔ جہاں امریکی فوجیوں پر فائرنگ کے جھوٹے الزام میں نیو یارک کی ایک عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔عافیہ پر جراح کے دوران یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ کوئی ایک الزام بھی ان کے مخالف وکیل ثابت نہ کر سکے۔ مگر فیصلہ دلائل کے برعکس آیا۔ جو عیسائی تعصب کی ایک واضح دلیل کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ جو جیوری پر یہودیت کے دباﺅ کا کھلا عکاس ہے۔ آج جو کچھ عیسایت مسلمانوں کے ساتھ کر رہی ہے کیا عیسایوں کو یاد نہیں؟ کل تک ان کے خلاف یہودیوں کا یہ ہی وطیرہ تھا۔ ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ عیسایت صنفِ نازک کا کیسا احترام کرتی ہے۔ جھوٹے دلائل پر کائروں کی نسل پرست جیوری نے معصوم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو نا کردہ گناہوں کی مجرم قرار دے کر اپنی آلودہ ذہنیت اور کھلے تعصب کا برملا اظہار کر دیا۔ جس سے عیسایت کا داغ دار چہرہ، جس کو فی زمانہ یہودیت کا انفیکشن لگا ہوا ہے تمام دنیا نے دیکھ لیا ہے۔ یہ تعصب اور مکر و فریب امتِ مسلمہ گزشتہ پندرہ صدیوں سے دیکھ رہی ہے۔

ماضی میں کراچی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ کی چھوٹی بہن فوزیہ صدیقی نے کہا کہ بگرام ائیر بیس پر گزشتہ پانچ سالوں کے دوران عافیہ صدیقی پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے۔ مگر ان پر کوئی جرم ثابت نہ کیا جاسکا۔ مسلسل تشدد کی وجہ سے ان کی جسمانی اور ذہنی صحت تشویشناک حد تک خراب ہو گئی ہے۔ ہمیں امریکی عدالت سے انصاف کی امید نہیں ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں مسلسل دھمکیاں دی جا رہی ہیں ۔ اور دباﺅ ڈالا جارہا ہے کہ ہماری جانب سے اسلام آباد میں دائر کیا جانے والا مقدمہ واپس لے لیا جائے ورنہ مجھے بھی اٹھا کر اسی طرح غائب کر دیا جائے گا۔ عافیہ صدیقی پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ القاعدہ کیلئے کیمیاوی ہتھیار بنا رہی تھی۔ حالانکہ ان کا اس شعبے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے فوزیہ صدیقی نے کہا کہ مجھے بھی فون اور ایس ایم ایس کے ذریعے دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ اگر ہم نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں زبان بند نہ کی تو ہمارے خاندان کو قتل کر دیا جائے گا۔ اس وقت ہماری جانوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اور یہ بات بھی سب کے علم میں ہے کہ ہمیں دھمکیاں کون دے رہا ہے؟

موجودہ حکومت اور اس کے کارندوں نے عافیہ کے لئے کوئی پریکٹیکل کام سوائے نعروں کے نہ کیا۔ کیوں کہ امریکہ کی طرف سے انہیں بتا دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان کی بیٹی کے ساتھ کیا سلوک کرنے والے ہیں؟ لہٰذا اس کے بعد بڑے وزیر صدر، داخلہ و خارجہ کی وزارت اور مصنوعی چہرہ سفارت کار نے عافیہ کی حمایت کا ایسا شور اٹھایا کہ ساری دنیا حیران ہو کر رہ گئی کہ اب تو حکومت امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولنے کی ہمت کیونکر پکڑ رہی ہے؟ کہ جیسے پاکستان کی بیٹی کو وہ تُرت ہی پاکستان لانے والی ہے۔ جب فیصلہ آگیا تو بڑی سرکار نے فیصلے پر صرف روائتی افسوس کا اظہار کر کے جھوٹی تشویش کا بھی اظہار کر ڈالا۔ مگر یہ سب دکھاوے کے سوائے کچھ نہ تھا اور نہ ہے۔ اگر کچھ تھا تو صرف جھوٹ ہی جھوٹ تھا۔ امریکی حکومت اور پاکستانی سرکار کے رویوں پر آج ساری قوم سراپہ احتجاج ہے۔کیوں؟یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ہر پاکستانی امریکیوں کی مذمت کر رہا ہے۔ مگر حکومت کو تشویش سے آگے بڑھنے کی ہمت ہی نہیں ہورہی ہے۔

ہماری حکومت سے بہتر بیان تو افغان طالبان کی طرف سے آیا ہے کہ اگر امریکی ہماری مسلمان بہن عافیہ کو رہا نہ کریں گے تو ہم امریکی قیدیوں کو قتل کر دیں گے۔ پاکستان کا ہر بچہ اور بڑا یہ مطالبہ کرتا ہے کہ عافیہ کو پاکستان لایا جائے جسے امریکی درندے اغوا کر کے لے گئے تھے۔ اور اگر ہمت ہے تو امریکیوں بھی اسی طرح پکڑ کر لایا جائے اور ان سے عدالت کے کٹہرے میں پوچھا جائے کہ اس اغوا کا جرم انہوں نے کن مقاصد کی تکمیل کے لئے کیا ہے؟اور انہیں عبرت ناک سزا دی جائے۔
Prof.Dr.Shabbir Ahmed Khurshid
About the Author: Prof.Dr.Shabbir Ahmed Khurshid Read More Articles by Prof.Dr.Shabbir Ahmed Khurshid: 285 Articles with 189566 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.