یوم پاکستان سے لے کر اب تک

پہلاسین:یہ 23مارچ 2015ء ہے جس کا آغاز اکثر پاکستانیوں نے نماز فجر کے بعد پاکستان کی سلامتی اور امن وامان کے حوالے سے دعاؤ ں سے کیا ۔ گذشتہ سات سالوں سے جو کام نہیں ہورہا تھا وہ آج ہم دیکھنے کو جارہے تھے ۔ وقت مقررہ پر جو ہم ٹی وی کے سامنے بیٹھے تو دیکھا کہ قریباََ ہر پاکستانی چینل پر افواج پاکستان کی طرف سے ہونے والی پریڈ کے چرچے تھے ۔جب دفاعی سازوسامان کی پاک افواج نے نمائش کروائی تو میرے ساتھ بیٹھنے والے سبھی افراد کی زبان سے اللہ اکبر کے الفاظ نکل رہے تھے۔ سات سال بعد ہونے والی پریڈنے ہماری افواج اور ہمارے دلوں کی ترجمانی کرتے ہوئے صحیح طرح جذبات کا اظہار کیا ۔ جب ’’براق‘‘نامی ڈرون کو اڑایا گیا تو میرے دل میں فخر کے جذبات موجزن تھے ا ور مجھ سمیت سبھی لوگ اللہ کا شکر ادا کررہے تھے کہ اللہ نے ہماری مدد کی اور ہم اس قابل ہوئے کہ دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکا ر سکیں۔

دوسراسین: یہ کوئٹہ ہے جس میں پاکستانیوں نے 23مارچ 2015ء کو ایک گائے کو ذبح کرکے دوقومی نظریے کی نمائندگی کی کہ ہم تو گائے کو ذبح کرکے اللہ کی دی ہوئی نعمت سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور ہندو اسی گائے کے پیشاب کو پی کر اسے گاؤ ماتا کادرجہ دیتا ہے ۔او ر اس کے پیچھے ایک فلیکس لگی تھی جس میں واضح الفاظ میں لکھا ہوا تھا ’’پاکستان کا مطلب کیا ۔لاالہ اللہ محمد رسول اللہ (ﷺ)اور نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے‘‘

تیسرا سین: جناب پاکستانی صدر ممنون حسین صاحب کی فوجی پریڈ کے موقع پر تقریر تھی کہ جس میں انہوں نے بھارت کے ساتھ تمام معاملات عموماََاور کشمیر کے مسئلے کاخصوصی طور پر نام لے کر اسے حل کرنے کا کہا ۔مجھے اس وقت جناب صدر سے سخت الفاظ کی امید تھی کہ وہ بھارت کو للکاریں گے اور کشمیرمیں ہونے والے مظالم سمیت دوسری دہشت گردانہ سرگرمیوں کو بند کرنے اور کشمیر کی آزادی کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق کی بات کھلے عام کریں گے۔ خیر اللہ ہمارے حکمرانوں میں پاک فوج جیسا جہادی جذبہ پیدا کرے ۔ (آمین)

چوتھاسین: یہ بھارتی شہر نئی دہلی ہے جس میں پاکستانی ہائی کمیشن میں ہونے والی یوم پاکستان کے حوالے سے تقریب ہے جس میں حریت رہنما ء تو شریک ہوتے ہی ہیں اگرچہ بھارتی سرکار اس معاملے کو کافی اچھالتی ہے لیکن اس تقریب میں خاص بات سابق آرمی چیف اور موجودہ وزیرمملکت جنرل ریٹائرڈ وی کے سنگھ کی شرکت تھی جس پر بعد میں کانگریس نے وی کے سنگھ صاحب سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے ۔ خاص بات یہ ہے کہ وی کے سنگھ صاحب کا کہنا ہے ’’پاکستانی ہائی کمشنر باسط علی صاحب کے برابر والی کرسی پر بیٹھ کر میں اچھا محسوس نہیں کررہا تھا۔اس لئے میں وہاں سے اٹھ کر آگیا۔‘‘ یہ تو ہونا ہی تھا کیوں کہ باسط علی ایک دوقومی نظریے کی بنیاد پر بننے والے ملک کے باسی ہیں جن سے آپ لوگوں کو آج تک نفرت ہی رہی ہے اور تم تواس ملک کو آج تک قبول بھی نہیں کرسکے۔وی کے سنگھ کی یہ بات ہمارے دوقومی نظریہ کی نمائندگی کرتی ہے ۔

پانچواں سین:23مارچ کوہی بھارت کی طرف سے بیان آتا ہے کہ ہم پاکستان کے ساتھ تمام معاملات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کو تیار ہیں لیکن اس میں حریت رہنماؤں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔

چھٹا سین: یہ مقبوضہ کشمیر ہے کا علاقہ سرینگر ہے جس میں پولیس دختران ملت کی سربراہ آپاسیدہ آسیہ اندرابی پر ایک مقدمہ درج کرتی ہے ۔ کس وجہ سے ؟ 23مارچ 2015ء کو ایک تقریب منعقد کی جاتی ہے جس میں پاکستانی پرچم اور پاکستانی قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے ۔اور پاکستان کے حق میں تقریر کی جاتی ہے۔ اس تقریب میں کافی تعداد میں خواتین شریک ہوتی ہیں۔ آپا آسیہ انداربی پر بھارتی سرکار الزام لگاتی ہے کہ انہوں بھارت قانون کی خلاف ورزی کی ہے ۔

یہ کچھ خاص خاص خبریں ہیں جن میں چھٹی خبر تاز ہ ہے اور کشمیریوں کی پاکستان سے محبت کوظاہر کرتی ہے یہ خبر ان لوگوں کے منہ پرطمانچہ ہے جو کہتے ہیں کہ کشمیری پاکستان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ ہمارا دشمن جس نے ہمارے نظریہ پاکستان کو ہماری درسی کتب اور ہمارے الیکٹرونک وپرنٹ میڈیا سے بالکل غائب کردیا تھا اور باہمی یکجہتی وامن کی آشاجیسے منصوبے بنا کر پاکستان کو نظریہ پاکستان سے دور کیا جارہاتھااور ابن قاسم ؒ وغوری ؒ جیسے مجاہد ان اسلام کو ڈاکو،لٹیرااور قاتل بنا کر پیش کیا جارہاتھا۔ اس 23مارچ کو دیکھا کہ وہی لوگ جو کہ دشمن کے ان ہتھکنڈوں کا بری طرح سے شکار ہوگئے تھے جب انہوں نے اس طرح کے واقعات دیکھے اور خصوصاََ کشمیر میں پاکستان کے حق میں ہونے والی تقریبات اور پاکستانی جھنڈے کا کشمیر میں لہرایا جانااور پھر بھارت سرکار کی طرف سے ایک نہتی عورت (آسیہ اندرابی) پرمقدمہ کیااور بھارت کا میڈیا انہیں مسلسل غدار کہہ رہا ہے ۔ تو وہی لوگ اس مقولے کو دہراتے نظر آئے’’بغل میں چھری منہ منہ میں رام رام‘‘۔

یہ واقعات کوئی عام واقعات نہیں ہیں جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ تاریخ کے اوراق میں دفن ہوجائیں گے بلکہ یہ واقعات اسی طرح سے ہوتے رہیں ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ کیونکہ مسلمان اور ہندو دوالگ الگ قومیں ہیں ان کے نظریات وعقائد الگ ،ان کے تفریح کے طریقے الگ،ان کی تقریبات علیحدہ طریقے سے منائی جاتی ہیں ۔اگر ایک مسلمان ایک گلاس میں پانی پی لے تو ہندو اس گلاس کو ہاتھ تک نہیں لگاتا۔مسلمان ایک اللہ کو ماننے والی قوم ہے جب کہ ہندو لاکھوں ،کروڑوں خداؤ ں کو نہ صرف مانتے ہیں بلکہ اپنے ملک ہندوستان میں رہنے والے دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی زبردستی ہندو بنانے کی کوشش کرتے ہیں جس کو وہ لوگ’’ گھرواپسی‘‘( شدھی تحریک) کی تحریک سے مانتے ہیں اور برملا کہتے ہیں کہ ہندوستا ن صرف اورصرف ہندوؤں کا ہے ۔باقی مذاہب کے لئے اس میں کوئی جگہ نہیں۔

میرے خیال میں ہم میں سے کچھ لوگ تو اس دوقومی نظریہ سے روگردانی کے مرتکب ہوسکتے ہیں لیکن ہندوستان اس دوقومی نظریے یعنی مسلم اورہندودو الگ الگ قومیں ہیں وقتاََفوقتاََ ہمیں کسی نہ کسی واقعہ سے یاددلاتا رہتا ہے۔ جب ہمارا ملک ہی اس نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا ہے اور ہمارا دشمن بھی ہم سے اسی نظریے کی بنیادپر لڑتا ہے کہ یہ مسلمان ہیں۔کشمیر اور دیگر مقبوضہ علاقوں سمیت بھارت میں رہنے والوں مسلمانوں کی نسل کشی اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑتا رہتا ہے تو کیوں نہ ہم پھر سے اسی نظریے کی بنیا د پر اکٹھے ہوکر مملکت خدادا دکو صحیح معنوں میں اسلامی اور فلاحی ریاست بنا کر اسے اسلام کا قلعہ بنائیں ۔ پاکستانی افواج اور دفاعی ادارے اسی نظریے کی بنیا د پر دن رات اس مملکت خداداد کی حفاظت میں اپنا سب کچھ قربان کرتے نظر آتے ہیں لیکن پاکستان تب تک اسلام کا قلعہ اور امن کا گہوارہ نہیں بن سکتا جب تک ہم لوگ اس نظریہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر پاکستان کے دشمنوں کے عزائم کو خاک میں نہیں ملاتے۔
Muhammad Atiq Ur Rhman
About the Author: Muhammad Atiq Ur Rhman Read More Articles by Muhammad Atiq Ur Rhman: 72 Articles with 55945 views Master in Islamic Studies... View More