جمہوریت کی افسوں گری

دنیا کے بیشتر ممالک جمہوریت کے نام پر اپنے عوام کو محکوم بنائے ہوئے ہیں اور عوام بھی جمہوریت کے افسوں پر اپنی سوچوں کو پابند سلال کرچکے ہیں۔مذاہب میں مذہبی پیشوائیت نے ’ہامان‘ بن کر غیر مرئی قوتوں سے خوفزدہ کرانے کیلئے انسان کی سوچوں پر اپنا قبضہ کیا تو دوسری جانب ’قارون ‘جیسے سرمایہ کاروں نے رزق کے بہتے سر چشموں پر رکاؤٹیں کھڑی کرکے عوام الناس کے لئے مختص رب کائنات کے خزانوں پر اجارہ داری قائم کرلی۔ان دونوں استعارات کو بنا کر مطلق العنان حکومت’ فرعون ‘نے قائم کی اور آج فرعونی طرز حکومت کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔سوچا یہی گیا کہ شکل حکمرانی کو مزید اپنے ہاتھ میں کرنے کیلئے کچھ ایسا کیا جائے کہ بادشاہ کی طاقت بھی سرمائے کی محتاج ہوجائے اور سرمایہ دار اپنے گناہوں کے تلافی کیلئے مذہبی پیشوائیت کا محتاج ہوجائے،لہذا فرد واحد کی اصل طاقت کو لاکھوں افراد میں منتقل و بانٹنے کیلئے ایک پلان بنایا گیا جیسے جمہوریت کا پر فریب نام دیا گیا۔تجارت ، علم اور دولت کے حربوں سے معاشروں ، ذہنوں اور مزاجوں کو تبدیل کرنے کا آغاز ہوا اور انسانوں کی ٹھوس قوت کو پرچیوں میں منقسم کرکے اور کرپشن کا عظیم راستہ کھول کر جمہور کی قوت کو لونڈی بنالیا گیا۔وہ کام جو ایتھنز،روم ، غرناطہ،بغداد اور فلورنس میں ممکن نہیں ہوا تھا ، لندن پیرس اور نیو یارک سے ہوتا ہوا آدھی دنیا کا مطالبہ بن گیا اور باقی آدھی دنیا کو کارل مارکس نے کمیونزم کی قربان گاہ پر لا کھڑا کیا۔ممکن ہے کہ جمہوریت کے شیدائیوں کو یہ بات گراں گذرے ، لیکن کیا کوئی یہ بتا سکتا ہے جمہوریت میں جیتنے والا اکثریت کا نمائندہ ہوتا ہے یا پھر اقلیت کا ؟۔ جمہوریت میں جیتنے والا اکثریت کا نہیں بلکہ اقلیت کا نمایندہ ہوتا ہے مثال کے طور پر ایک حلقے میں ایک لاکھ ووٹرز ہیں لیکن امیدواران کی تعداد دس ہے۔9امیدواران اگر برابر برابر کا ووٹ لیتے ہیں تو جیتنے والا وہی قرار دیا جاتا ہے جس نے کچھ ووٹ زیادہ لئے ہوئے ہوتے ہیں۔اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جیتنے والے کے ووٹ تمام امیدوارن کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ کامیاب قرار دیکر اکثریت پر مسلط ہو جاتا ہے کیونکہ نمبروں کے ہیر پھیر میں وہ اقلیت کا نمایندہ ہونے کے باوجود اکثریت کے مقابلے میں جیت جا تا ہے اور دوسروں کے ووٹ اس کے خلاف ہونے کے باوجود اس لئے ضائع ہوجاتے ہیں کیونکہ مجموعی طور پر وہ تفرقے کا شکار ہوتے ہیں اور اجتماعی طور پر مقابلہ نہ کئے جانے کے سبب فرد واحد سے ہار جاتے ہیں۔اس لئے وہ حقیر اقلیت کا نمائندہ ہونے کے باوجود اکثریت سے کامیاب شدہ قرار پاتا ہے۔سرمایہ دارانہ جمہوریت میں دوسرا سب سے بڑا ناقابل علاج نقص اہل علم پر جاہل کو فوقیت ہے۔جاہل کو اہل علم سے زیادہ دانش مند قرار دیا جاتا ہے اور اہل علم کا درجہ جاہل کے برابر ہوتا ہے کیونکہ ووٹ سب کا ایک جیسا ہوتا ہے اور ہر ایک کا ایک ایک ہی ووٹ ہوتا ہے۔یہاں سرمایہ دار اپنے سرمائیے کے بل بوتے پر ووٹر پر حاوی ہوجاتا ہے اور ووٹر کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ وہ سرمایہ دار کی سازش کا شکار ہوگیا ہے۔علامہ اقبال نے ایسے یوں بیان کیا ہے۔
اس راز کو اک مرد فرنگی نے کیا فاش
ہرچند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

ہم ہر انتخابات میں دیکھتے ہیں کہ سرمایہ داروں کے علاوہ کوئی اہل علم یا قابل ہنر مند و ماہر اس لئے کامیاب نہیں ہو پاتا کیونکہ اس کے پاس سرمائیے کی وافر مقدار نہیں ہوتی۔سرمایہ دار اپنی دولت کے بل بوتے پر الیکشن میں حصہ لیتا ہے اور پھر اپنے مقاصد کے حصول کیلئے مزید سرمایہ لگا کر ’ عوامی نمائندوں ‘ کو بھی خرید لیتا ہے۔جرمن فلسفی تھیوڈور ہرزل (Theodor Herzl) جو صہیونیت کے بانیوں میں سے تھا ، اس نے اپنی ایک تصنیف "یہودی ریاست "میں جو اس نے 1896ء میں لکھی تھی ، کہا تھا۔"دانشمندانہ اور معقول فیصلے پارلیمانی اداروں سے سرزد نہیں ہوسکتے، عوامی خواہشات کی صحیح نمائندگی اور ریاست کے حقوق و مفادات کی محافظ وہی شخصیتیں ہوتی ہیں جو تاریخی قوتوں کی پیداوار ہوں۔ حکمرانی کیلئے یہی شخصیتیں پیدا ہوتی ہیں یہ عوام کا کام نہیں۔"فرانسیسی ادیب والٹیئر Voltaire)) جس کی تحریروں نے انقلاب فرانس کی راہ ہموار کی تھی ، جمہوریت کے بارے میں طنزیہ سوال کرتا ہے کہ"تمہاری موت آئے تو کیا پسند کرو گے ؟ تمہیں ایک ہزار چوہے نوچ نوچ کر کھا جائیں یا شیر کا ایک ہی نوالہ بن جاؤ۔"جرمن فلاسفر نطشے ( Nietzehae) کے شہرہ آفاق تصنیف ’ یوں کہا زرشت نے‘ کا دیباچہ ایک یہودی ڈاکٹر آسکر لیوی نے لکھا تھا، اس نے یہود کی ’ جمہوریت‘ کا یوں پول کھولا۔"غریب اور امیر برابر ہوں ، کمزور اور طاقتور برابر ہوں ، جاہل اور عالم ایک دوسرے کے مساوی ہوں ۔نہیں بلکہ جہلا امیروں ، علما اور طاقتوروں پر سبقت لیجائیں۔"جمہوریت دور جدید کی پیداوار ہے اور اقتدار کو سرمائیے کی طاقت سے اپنے قبضے کا نام ہے جس میں وہی شخص یا جماعت کامیاب ہے جس نیجمہوریت کے کاروبار میں سرمایہ کاری کی۔اگر زمینی حقائق سے سمجھنا چاہتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی انتخابات آتے ہیں تو اگر ایک جانب معاشی نظام میں دسترس رکھنے والا ایک صاحب علم اور دوسری جانب کسی بھی سیاسی جماعت کا امیدوار کھڑا ہو تو پورا علاقہ سرمائیے کی دولت سے رنگ دار بن جاتا ہے جلسے جلوسوں میں عوام کی بڑی تعداد اُس صاحب علم کے بجائے اپنی سیاسی جماعتوں کو اہمیت دیتی ہیں اس میں قابلیت کے جوہر تلاش کرنے کے بجائے اس کی جاہلیت کے طمطراق سے متاثر نظر آتی ہے۔ اس کا موزانہ اہل علم سے نہیں کیا جا تا کہ امیدوار کی ایسی کون سے قابلیت ہے جس بنا پر عوام ایسے اپنا نمائندہ قرار دیکر اسمبلیوں میں بھیجا جائے۔ایک قانون دان ، جیسے ملکی قانون پر کماحقہ کمال حاصل ہوتا ہے وہ ایک جاہل کے مقابلے میں قانون سازی اسمبلی کا رکن بن جاتا ہے اور قوم کے مستقبل کے فیصلے اس ان پڑھ نمائندے کے ہاتھ میں چلے جاتے ہیں جو خود کو جمہوریت کی پیداوار قرار دیتا ہے۔جسمانی قوت ، ذہنی قابلیت اور دفاع کیلئے خصوصی تربیت لینے والا ایک ایسے شخص سے ہار جاتا ہے جو اپنے قدموں پر درست طریقے سے کھڑا بھی نہیں ہوتا ۔ آزاد عدلیہ کے نعرے بلند کرنے والے اسی جج کے سامنے جیت جاتے ہیں جہاں ان کے مقدمات اور اہم فیصلے ایک قلم کی حرکت کے محتاج ہوتے تھے۔انسان کی زندگی میں اس کے ہر پہلو کو مذہب کی روشنی میں چلانے والے ، جمہوریت کے اس نظام میں فیل ہوجاتے ہیں اور اس کی صدا پر رکوع و سجود کرنے والے جمہوریت کے نام پر سرمایہ داروں کے سامنے جھک جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ایک ہنر مند قابل اور ذہن پیشہ وارانہ اہلیت کے حامل شخص پر سیاسی اور سرمایہ دارنہ تشخص کو کامیابی ملتی ہے ۔قدیم ہندو تہذیب، روما اور یونان کی تہذیبیں ، اسلام کی فتوحات اور اٹلی کی نشاۃ ثانیہ کی درخشاں مثالیں ثابت کرتی ہیں کہ تہذیبوں کے احیا اور ترقی کیلئے کاغذ پر ووٹ اور ووٹ سے اقتدار لازمی نہیں ہے۔ آج ہمیں اس جمہوری دور میں تہذیبوں کی ترقی کا فقدان نظر آئے گا۔ یہ جمہوریت کے ہی ثمرات ہیں کہ اگر اقوام متحدہ کے تمام ممالک اسرائیل کے خلاف ووٹ دے بھی دیں تو ایک ویٹو پاور ملک ، اپنے جمہوری ووٹ کا استعمال کرکے مجموعی ووٹوں کو معطل کردیتاہے۔یہ جمہوریت کے ہی ثمرات ہیں کہ جب مشرقی تہمور کا معاملہ ہو تو اقوام متحدہ سر بکف ہوجاتی ہے لیکن جب بات کشمیر اور فلسطین کی آئے تو کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود جمہوریت نیند سے بیدار نہیں ہوتی۔یہ جمہوریت کی ہی کارستانی ہے کہ اپنے فیصلے خود نہیں کئے جا سکتے بلکہ عوام پر مسلط کردئیے جاتے ہیں ۔قانون سازی کے عمل میں حقیقت سے زیادہ مفادات کو سامنے رکھا جاتا ہے ۔ جمہوریت کے ہی کمالات ہیں کہ پرائی جنگوں کو خود پر نافذ کرکے لاکھوں عوام کے خون پسینے کی کمائی سے فلاح کے منصوبے شروع کرنے کے بجائے جنگی ساز و سامان اور آلات حرب پر انسانوں کی تباہی کیلئے خرچ کئے جاتے ہیں۔یہ جمہوریت ہی ہے کہ تعلیم کی وزرات کے وزیر انگوٹھا چھاپ رہے ہیں۔دفاع کیلئے ایسے افراد وزیر بن جاتے ہیں جنھیں ایک فٹ سے دور دکھائی بھی صحیح نہیں دیتا ، خارجہ پالیسوں اور معیشت پر ایسے افراد کو تعینات کردیا جاتا ہے جس کی وفاداریاں دنیا کے طاقت وروں اور سرمایہ داروں کے ساتھ ہوتی ہیں۔یہ جمہوریت ہی ہے جو انصاف کے پائیدان پر اُسے بٹھا دیتا ہے جیسے قانون کی الف ب بھی نہیں معلوم ہوتی۔پارلیمان میں بھیڑ بکریوں کی ایک بڑی تعداد سوچے سمجھے بغیر ایسے قوانین و پالیسیاں بنانے کی منظوری دے دیتے ہیں جن کیلئے ان کی جماعتوں کے لیڈروں نے حکم دیا ہوتا ہے۔ہمیں سوچنا ہوگا کہ اس عبوری دور میں جہاں قابلیت اور اہلیت پر جاہلیت کو فوقیت دی جاتی ہے جمہوریت کا افسوں کب تک گمراہ کن تباہی لاتا رہے گا۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 661603 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.