ہماری نجات صرف ایک عوامی مفاہمت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اِسے مفاہمت کی پالیسی کا اعجازکہیئے یا پھر مولانا فضل الرحمن کی سیاسی چال بازیوں اور جوڑ توڑ کا ہنر کمال کہ جمعیت علمائے اسلام نے سینٹ میں صرف پانچ سیٹیں رکھنے کے باوجود اپنی جماعت کے سینٹر مولانا عبدالغفور حیدری کو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب کروالیا،جبکہ پیپلز پارٹی کے سینٹر رضا ربانی بھی اسی پالیسی کے تحت بلا مقابلہ چیئرمین سینٹ منتخب ہو گئے،محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ”مفاہمت کی سیاست“کا نعرہ ایسا ابھرا کہ اِسے بعد میں ملک کے ہرسیاسی قائد نے اپنایا،آج مفاہمت کی سیاست تمام سیاستدانوں کے پسندیدہ الفاظ ہیں اور ہزار اختلاف رائے رکھنے کے باوجود یہ لوگ جنگ کے بجائے مفاہمت سے اپنے مسائل سلجھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

اَمر واقعہ یہ ہے کہ ماضی میں جوبھی حکومت برسر اقتدار آئی اُسے ایسی حزب اختلاف کا سامنا کرنا پڑاجو حکومت گرانے کو اپنی اہم ترجیح قرار دیتی تھی، چنانچہ اِس باہمی چپقلش کا انجام حکومت ِوقت کی رخصتی یا سیاسی نظام کی بساط لپیٹنے کی صورت میں سامنے آتا رہا، مگر 2008ءکے بعد وطن عزیز میں مفاہمت اور مصلحت پسندی کو بنیادی فوقیت دی گئی اور سیاستدانوں نے مفاہمت کی سیاست کا راستہ اختیار کیا، یوں ملک میں شروع ہونے والے نئے سیاسی دور ”مفاہمتی سیاست“ نے ”شجر سیاست“ کو لالچ،خود غرضی ،مفاد پرستی اور منافقت کی دیمک لگادی،وہ سیاست جو کبھی اصولوں اور نظریات کی پابند تھی، آج تمام اصول وقیود سے ماورا اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کا نام بن گئی،یوں سیاسی نظام میں حزب اختلاف کا اصل کردار یعنی قانون سازی میں متبادل تجاویز کادینا،عوامی مسائل کے حل اور تحفظ کو یقینی بنانا اورحکومتی کاموں کی نگرانی کرنا عملاً مفقود ہوگیا اور ہر دو فریق اپنے اپنے مفاد کے تحفظ کیلئے منافقانہ مفاہمت پر آمادہ ہوگئے۔

آج مفاہمت اور مصلحت پسندی کی سیاست اِس قدر آگے بڑھ گئی ہے کہ حزب اختلاف نے جمہوری نظام کو سہارا دینا اپنی لازمی ضرورت بنالیا، یوں مفاہمتی سیاست کے نام پر ملک میں قائم ہونے والاجمہوری نظام اقتدار کی بندر بانٹ بن کر رہ گیا،”خود بھی کھاؤ اور ہمیں بھی کھانے دو “کی پالیسی نے جمہوری اقتدار اور روایات کو تباہ کرکے رکھ دیا،جس کی وجہ سے بلوچستان،سندھ اور بالخصوص کراچی کے داخلی مسائل ہنوز حل طلب اور جرا_ت مندانہ فیصلوں کے متقاضی ہیں،لیکن مصلحت پسندی اور سیاسی سمجھوتوں کے شکار موجودہ جمہوری نظام میں اِس بات کا امکان آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

یہ درست ہے کہ قومی و ملی مفادات کے تحفظ کے پیش نظر بعض اوقات سیاسی سمجھوتے اور مصلحت پسندی کی راہ اختیار کی جاتی ہے ،یہ کوئی بری بات بھی نہیں،مگر جب مفاہمت اور مصلحت پسندی کی حکمت عملی قومی وملی مسائل میں اتفاق رائے کے بجائے محض اقتدار کو طول دینے یا قومی وسائل کی بندر بانٹ کیلئے اختیارکی جائے تو نتیجہ قومی اداروں کی کمزوری کے ساتھ نت نئے مسائل کو بھی جنم دینے کا باعث بنتا ہے،ہمارا موجودہ قومی منظر نامہ اسی پالیسی کا آئینہ دار ہے۔

چنانچہ اِس تناظر میں یہ امید کرنا کہ مسائل حل ہوجائیں گے اور ملک کے ایک عام آدمی کے مفاد کو مدنظر رکھا جائے گا ،سوائے خام خیالی کے اور کچھ نہیں،مفادات اور سیاسی مصلحتوں کا شکار سیاسی جماعتوں میں اشتراک عمل کے ثمرات سماج کے اُن طبقات تک کسی طور پہنچ پا ئیں گے جن کیلئے جسم وجان کا رشتہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہوچکا ہے،زرداری جمہوریت سے لے کر نواز جمہوریت تک کا سفر ہمارے سامنے ہے، حقیقت یہ ہے کہ مفاہمتی سیاست کے نام پر وجود میں آنے والاسیاسی نظام مفاد پرست سیاستدانوں اور طبقہ اشرافیہ کیلئے آئیڈیل ثابت ہوا، کیونکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں اور اِسے قومی مفاد میں مفاہمت کا نام دیتے ہیں،جبکہ حقیقت میں یہ مفاہمت نہیں بلکہ عوام کے خلاف ایک ایسا گٹھ جوڑہے جو انہیں ہر قیمت پر غلام رکھنے کے اصول پر مبنی ہے۔

اَمر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان میں عام آدمی کا دم بھرنے والی سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ اپنے مفادات کی سیاست کی اور اپنے اِس رویئے کو قومی مفاہمت کے لبادے میں لپیٹ کر اپنے فائدے کیلئے استعمال کیا،اِن جماعتوں نے ہمیشہ ایک دوسرے کے مفادات کاتحفظ کیا اور اپنی بارگیننگ پوزیشن مضبوط کرنے کیلئے تمام اصولوں وقواعد کو بالائے طاق رکھ کر اپنے طرز عمل کو” عظیم تر قومی مفاد“ کا نام دیا، یہی حال کچھ اُن جماعتوں کا بھی رہا جو ملک میں مذہبی سیاست کی علمبردار ہیں،یہ جماعتیں بھی ملکی مفاد پر اپنے جماعتی اور ذاتی مفادات کو ترجیح دیتی نظر آتی ہیں، ٹکٹوں کی تقسیم،عہدوں کی بندربانٹ،انتخابات سے پہلے گروہ بندی، میرٹ کو نظر انداز کرکے اپنی من پسند تقرریاں اور ذاتی مفادات کو مقدم جاننا، آج ہمارے سیاسی کلچر کا بنیادی حصہ بن چکا ہے اور اِس صورت حال میں ہماری سیاست ایک کارٹیل بن کر رہ گئی ہے، جو صرف اپنے مفادکو تحفظ دینے کیلئے تمام اصولوں اور قومی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر فیصلہ سازی میں مصروف ہے۔

آج ہماری سیاسی جماعتیں عوامی مسائل سے بے خبر جوڑ توڑ کی سیاست میں مصروف ہیں اور ملک میں جاری دہشت گردی، فرقہ واریت، امن وامان کی ابتر صورت حال، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ، کرپشن ، اقربا پروری اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری جیسے خوفناک مسائل اِن کی نظروں سے اوجھل ہیں،انہیں عوام اور عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ،اگرانہیں دلچسپی ہے تو اپنی اپنی باری سے ،چنانچہ اِس تناظر میںشوشل میڈیا پر گردش کرتی وہ تصویر اور اُس کا کیپشن پوری قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے، جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کی باچھیں کھلی ہوئی ہیں،جو پاکستانی عوام کے بے بسی سے زیادہ اُن کی بے حسی پر ہنس رہے ہیں ،جو اِس بات پر قہقہے لگارہے ہیں کہ یہ کتنی بے وقوف قوم ہے جو سب کچھ جاننے کے باوجود انہیں بار بار منتخب کرتی ہے اور انہیں دونوں ہاتھوں سے قومی دولت لوٹنے ، باہر منتقل کرنے اور نوچ کھانے کا موقع فراہم کرتی ہے، درحقیقت یہ ہماری سیاسی جماعتوں کا وہ مکروہ طرز عمل ہے جوگزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے۔

قارئین محترم ! ہمارا ماننا ہے کہ جو مفاہمت عہدوں کی بندر بانٹ، وسائل کی تقسیم، کرپشن کی حفاظت ،ایک دوسرے کے مفادات کے تحفظ اور استحصالی نظام کی بقاءکیلئے اپنائی جائے ،وہ کبھی بھی عوام کیلئے سود مند ثابت نہیں ہوسکتی اور نہ ہی عوام کو کوئی ریلیف دے سکتی ہے،یاد رکھیئے ملک میںحقیقی جمہوریت کا ظہوراورعوامی مسائل کے حل کے ساتھ قومی وملی وسائل کے تحفظ کیلئے صاحب کردار نیک و صالح اور خوف خدا رکھنے والے نمائندوں کی پارلیمان میں موجودگی ضروری ہے ،جس کیلئے ایک مفاہمت ملک کے بیس کروڑ عوام کو بھی کرنا ہوگی ، یقین جانیئے یہی عوامی مفاہمت وطن عزیز کواِن ابن الوقت، موقع پرست اور منافقانہ طرز عمل اختیار کرنے والے سیاستدانوں سے نجات دلاسکتی ہے ۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 312512 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More