ہندو استدلال

یہ بات بڑی معنی خیز ہے کہ تصورِ پاکستان کی تردید اور تحریکِ پاکستان کی مخالفت میں جو سوالات١٩٤٠ء سے لیکر١٩٤٧ء تک اٹھائے گئے تھے اور تحریکِ پاکستان کے دوران جن کی بڑی مؤثراورمحکم تردید کر دی گئی تھی وہی سوالات آج بھارت کے علاوہ پاکستان میں بھی ایک اقلیت اپنے آقاؤں کے ایماء پر اٹھارہی ہے۔ یومِ اقبال کی مناسبت سے منعقد ہونے والی تقریبات میں پنڈت نہرو کے اس بے جا الزام کی گونج ایک دفعہ پھر سنائی دی کہ ''اقبال اپنی زندگی کے آخری دورمیں سوشلزم کے زیرِاثرتصورِپاکستان سے دستبردارہوگئے تھے۔میں نے بابا جی سے اس کا جب تذکرہ کیا توانہوں نے ان الجھنوں سے دور رہنے کا مشورہ دیا لیکن کچھ دوستوں نے پرزور اصرار کیا کہ اس الزام کی کھوج اورتحقیق بلا شبہ ضروری ہے کہ اقبال جنہوں نے پاکستان جیسی ریاست کاخواب دیکھا'ان کو اس الزام میں آخر کیوں ملوث کیاجارہاہے؟اورایک ہی وقت میں بھارت اورپاکستان میں ایسا بے ڈھنگا راگ کیوں الاپا جا رہا ہے؟

پنڈت نہرو کا یہ الزام سراسرغلط ہے 'ان کا یہ الزام لاعلمی پر نہیں بلکہ بد نیتی پرمبنی ہے۔ پنڈت جی یہ بات اپنی کتاب’’دی ڈسکوری آف انڈیا‘‘میں لکھی تھی جو انہوں نے ١٩٤٤ء میں قلعہ احمد نگر کے زنداں میں بیٹھ کر رقم کی تھی۔اس کتاب میں انہوں نے بطورشاعراورمفکراقبال کے فیضان کی تحسین فرمائی ہے مگراقبال کوخراجِ تحسین کرتے وقت وہ یہ بھی کہہ گزرے ہیں کہ اقبال ''ایک شاعر'عالم اورفلسفی تھے اورپرانے جاگیرداری نظام سے وابستہ تھے۔''جن لوگوں نے اقبال کی شاعری'فلسفہ اورسیاست کا سرسری سے بھی کم مطالعہ کیا ہے وہ بھی اس صداقت کی گواہی دیں گے کہ اقبال کے عہد میں جاگیرداری نظام کا اقبال سے بڑا دشمن ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا ۔لکھتے ہیں کہ:
’’اقبال پاکستان کے اوّلین حامیوں میں سے تھے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس تجویز کی لغویت اوران خطرات کو محسوس کر لیا تھاجواس تجویزمیں مضمرہیں۔ ایڈورڈٹامسن نے لکھا ہے کہ ایک ملاقات کے دوران اقبال نے ان سے یہ کہا کہ انہوں نے مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں صدرکی حیثیت سے پاکستان کی حمایت کی تھی مگر ان کو یقین تھا کہ یہ تجویزمجموعی طورپرہندوستان اورخصوصاً مسلمانوں کیلئے مضر ہے۔شائدانہوں نے اپناخیال بدل دیاتھایا پہلے اس مسئلے پرزیادہ غورنہیں کیاتھا کیونکہ اس وقت تک اس نے کوئی اہمیت حاصل نہیں کی تھی۔ان کا عام نظریہ زندگی پاکستان یا تقسیمِ ہند کے اس تصورکے ساتھ جوبعدمیں پیداہو'ہم آہنگ نہیں تھا۔آخری عمرمیں اقبال کا رحجان اشتراکیت کی طرف بڑھتاگیا۔سوویت یونین کی زبردست کامیابی نے ان کوبہت متاثر کیااوران کی شاعری کارخ بدل گیا‘‘۔

جب پنڈت جی نے اپنی کتاب میں درج بالا عبارت لکھی'اس سے تین برس پہلے قائد اعظم کے دیباچہ کے ساتھ قائد اعظم کے نام اقبال کے خطوط شائع ہوچکے تھے'یہ انگریزی کتاب یقینا پنڈت جی کی نظر سے گزر چکی ہو گی'اس کتاب میں شامل ٢٨مئی ١٩٣٧ء کا وہ طویل خط بھی شامل ہے جس میں پنڈت جی کی ''بے خدا سوشلزم''کو بھی زیرِ بحث لایا گیا ہے اوربتایا گیا ہے کہ مسلمان تورہے ایک طرف 'خود ہندو معاشرہ بھی ''بے خدا سوشلزم''کو ہرگز قبول نہیں کرے گا۔پنڈت جی کی سوشلزم کو رد کرتے وقت اقبال نے قائد اعظم کو بتایا ہے کہ اگر اسلامی شریعت کی دورِ حاضر کے معاشی نظریات کی روشنی میں ازسرِ نو تفسیر کی جائے تو مسلمان عوام کی روٹی اور روزگارکا مسئلہ بہتر طور پر حل ہو سکتا ہے۔مسلمان کو غربت کے عذاب سے نجات دلانے کیلئے بھی یہ ضروری ہے کہ مسلمانوں کی الگ قانون ساز اسمبلی ہواور یہ اسمبلی متحدہ ہندوستان کی بجائے ایک الگ خود مختار مملکت میں ہی قائم کی جا سکتی ہے۔اس خط کے مندرجات زبانِ حال سے پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ:
اوّل:اقبال جواہرلال نہروکی ''بے خدا سوشلزم'' پراسلام کے اقتصادی نظام کو ترجیح دیتے ہیں۔
دوم:اسلام کے اقتصادی نظام کو عہدِجدیدکے سیاق وسباق میں نافذکرنے کیلئے جداگانہ مسلمان مملکت کا قیام ضروری ہے۔
سوم:اپنی وفات سے فقط چندماہ پہلے وہ قائد اعظم کو یہ مشورہ دے رہے تھے کہ وہ قیامِ پاکستان کوکل ہند مسلم لیگ کا سیاسی پروگرام بنالیں۔
چہارم:اس خط کے آخرمیں وہ قائد اعظم سے سوال کرتے ہیں کہ کیاوہ وقت نہیں آ پہنچا جب ہمیں کھل کر قیامِ پاکستا ن کو اپنی منزل قراردے دیناچاہئے؟

اقبال کی وفات سے تین ماہ پیشتر پنڈت نہرونے میاں افتخار الدین کے ہمراہ جاوید منزل میں علامہ اقبال سے ملاقات کی تھی۔اس ملاقات کی خوشگوار یادیں بھی اس کتاب میں موجود ہیں۔پنڈت جی نے جو واقعہ بیان کرنا مناسب نہیں سمجھا اسے ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی نے اپنی کتاب''اقبال کے آخری دو سال''میں بیان کر دیا ہے۔محترم بٹالوی صاحب لکھتے ہیں:
’’پنڈت نہرواس زمانے میں زورشور سے سوشلزم کا پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف تھے'انڈین نیشنل کانگرس کے دواجلاسوں کے وہ صدررہ چکے تھے اوردونوں مرتبہ اپنے خطباتِ صدارت میں انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان کے تمام مصائب کا علاج سوشلزم ہے لیکن کانگرس کے بڑے بڑے لیڈروں میں کوئی شخص بھی اس بارے میں پنڈت نہرو کامعاون یاہم خیال نہیں تھا بلکہ سردارپٹیل'راج گوپال اچاریہ اورستیہ مورتی نے توعلی الاعلان پنڈت نہرو کے اس عقیدے سے اختلاف کا اظہار کیاتھا۔دورانِ ملاقات میں ڈاکٹرصاحب نے پنڈت نہروسے پوچھا کہ سوشلزم کے بارے میں کانگرس کے کتنے آدمی آپ کے ہم خیال ہیں؟ َپنڈت جی نے جواب دیا کہ 'نصف درجن کے قریب'۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا'تعجب ہے'خود آپ کی جماعت میں آپ کے ہم خیالوں کی تعداد صرف نصف درجن ہے 'ادھر آپ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں مسلمانوں کو کانگرس میں شامل ہونے کا مشورہ دوں'تو کیامیں دس کروڑ مسلمانوں کوچھ آدمیوں کی خاطرآگ میں جھونک دوں؟‘‘۔اس پرپنڈت جی خاموش ہو گئے ۔

اسی ملاقات میں ایک ناگوارواقعہ بھی پیش آیاتھاجوپنڈت جی نے تو بیان کرنا مناسب نہیں سمجھا'ہاں البتہ بٹالوی صاحب نے بیان کر دیا ہے۔

’’ابھی ان دو عظیم المرتبت انسانوں کے ساتھ گفتگو جاری تھی کہ یکایک میاں افتخار الدین بیچ میں بول اٹھے کہ ڈاکٹرصاحب! آپ مسلمانوں کے لیڈر کیوں نہیں بن جاتے؟مسلمان مسٹر جناح سے زیادہ آپ کی عزت کرتے ہیں'اگر آپ مسلمانوں کی طرف سے کانگرس کے ساتھ بات چیت کریں تو نتیجہ بہتر نکلے گا۔ ڈاکٹر صاحب لیٹے ہوئے تھے'یہ سنتے ہی غصے میں آ گئے اور اٹھ کر بیٹھ گئے اورانگریزی میں کہنے لگے'تواچھا'یہ چال ہے کہ آپ مجھے بہلا پھسلا کرمسٹرجناح کے مقابلے میں کھڑا کرناچاہتے ہیں'میں آپ کو بتادیناچاہتا ہوں کہ مسٹرجناح ہی مسلمانوں کے اصل لیڈر ہیں اورمیں توان کامعمولی سپاہی ہوں۔ 'اس کے بعد ڈاکٹر صاحب بالکل خاموش ہوگئے اورکمرے میں تکدرآمیز سکوت طاری ہوگیا۔پنڈت نہرو نے فوراًمحسو س کر لیا کہ میاں افتخار الدین کے دخل درمعقولات نے ڈاکٹر صاحب کوناراض کردیاہے اوراب مزیدگفتگوجاری رکھنابے سودہے چنانچہ وہ اجازت لیکررخصت ہوگئے‘‘۔

نہ معلوم یہ باتیں پنڈت جی کے ذہن سے محو ہو گئی تھیں یا انہوں نے ان باتوں کو ناخوشگواراوراپنی سیاسی آئیڈیالوجی کی تردیدسمجھ کراپنی کتاب میں درج کرنامناسب نہیں سمجھا۔ حیرت یہ ہے کہ انہوں نے ان ناقابلِ فراموش یادوں کوتوآسانی سے فراموش کردیامگرایڈورڈتھامسن کی گپ شپ کوناقابلِ تردید تاریخی صداقت کا درجہ دے دیا ۔ ایڈورڈ تھامسن آکسفورڈ یونیورسٹی میں بنگالی زبان کے استاد تھے اورتاریخ ہند سے بھی علمی شغف رکھتے تھے ۔وہ دومرتبہ برطانیہ کے اخبار مانچسٹر گارڈین کے نامہ نگا ر کے روپ میں بھی برٹش انڈیا تشریف لائے تھے ۔مہاتما گاندھی 'رابندر ناتھ ٹیگور'راج گوپال اچاریہ'سردار پٹیل اورجواہرلال نہرو کے ساتھ ان کے گہرے دوستانہ تعلقات تھے جہاں وہ ہمیشہ مسلم لیگ کی مخالفت میں سرگرم رہتے تھے'وہاں کانگرس کی پرجوش وکالت کوکوئی موقعہ بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔

جس روایت کا سہارالیکر پنڈت جی نے اقبال پرالزام تراشی کی ہے وہ ایڈورڈ تھامسن اورعلامہ اقبال کی زبانی گفتگوپرمبنی ہے۔ ایڈورڈ تھامسن موصوف کا یہ بیان قائد اعظم کے نام اقبال کے متذکرہ بالاخطوط کی دستاویزی شہادت کے ساتھ ساتھ اقبال نہرو ملاقات کے مندرجہ بالااحوال ومقامات کی بنیاد پرجھوٹ ثابت ہوتا ہے۔اقبال آخردم تک اپنے تصورِپاکستان کوقیامِ پاکستان کی صورت میں جلوہ گردیکھنے کی تمنا میں سرشار رہے۔قائد اعظم کے ایک ادنیٰ سپاہی کی حیثیت میں سرگرمِ عمل رہے اوراسلامیانِ ہند کو یہ مشورہ دیتے رہے کہ میری زندگی کی دعائیں مانگنے کی بجائے محمد علی جناح کی طویل زندگی کی دعائیں مانگو'صرف جناح ہی قوم کی کشتی کوساحلِ مرادتک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں:
نگہ بلند'سخن دلنواز'جاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کیلئے

نظریاتی اختلاف کے باوجودعلامہ اقبال اورپنڈت نہرو کے درمیان ہمیشہ باہمی احترام کے تعلقات قائم رہے اوراس کی وجہ صرف اورصرف یہی تھی کہ علامہ اقبال ہمیشہ یہ فرماتے تھے کہ میرے نبیۖ کا یہ مبارک فرمان ہے کہ تم میں بہترین وہ شخص ہے جس کے اخلاق بہترہیں۔ پنڈت نہر و نے١٩٣١ء میں لندن کی گول میز کانفرنس میں مسلمان مندوبین کے طرزِ فکرو عمل کو تنقید کا نشانہ بنایاتھا۔اقبال اس کانفرنس میں شریک تھے مگرنہروشریک نہیں تھے۔کانگرس کی نمائندگی گاندھی جی نے کی تھی۔گاندھی جی نے واپسی پر کہا کہ انہوں نے ذاتی طورپرمسلمانوں کے تمام مطالبات کوقبول کرلیاتھامگرسیاسی رجعت پسندی کی بناء پرمسلمانوں نے کانفرنس کوناکام بنادیا۔نہرو نے گاندھی جی کی باتوں میں آکر مسلمان مندوبین کے خلاف ایک انتہائی سخت سیاسی بیان داغ دیا۔علامہ اقبال نے گاندھی جی کے اس الزام کی تردید میں جواہرلال نہروکو جواب ان الفاظ سے شروع کیا:
’’میں پنڈت جواہرلال نہرو کے خلوص اورصاف گوئی کی ہمیشہ سے قدرکرتارہاہوں۔مہاسبھائی معترضین کے جواب میں جوتازہ ترین بیان انہوں نے دیاہے اس سے خلوص ٹپکتا ہے اوریہ چیزآج کل کے ہندوستانیوں میں کمیاب ہے لیکن ایسا محسوس ہوتاہے کہ پچھلے تین سالوں میں جوگول میز کانفرنسیں لندن میں منعقد ہوئی ہیں ان میں شریک ہونے والے مندوبین کے رویہ کے متعلق پنڈت جی کی تحقیق کی بنیاد کسی تعصب پرمبنی ہے۔''اس خوش گمانی کے اظہارکے بعدعلامہ اقبال نے اصل حالات کوبے نقاب کرتے ہوئے بتایاکہ ''گاندھی جی نے مسلمانوں کے مطالبات کوذاتی طورپرماننے کاعندیہ تو دیا تھا مگر ساتھ ہی یہ بھی واضح کردیا تھا کہ وہ اس بات کی حتمی ضمانت نہیں دے سکتے کہ کانگرس کی مجلسِ انتظامیہ بھی ان مطالبات کو تسلیم کر لے گی'ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتادیاتھا کہ کانگرس انہیں ان مطالبات کے سلسلے میں مکمل اختیاردینے کیلئے کبھی بھی رضامند نہیں ہو گی'گویا عملاً گاندھی جی نے مسلمانوں کے تمام مطالبات کوردکردیاتھا، مسٹر گاندھی جی کی دوسری غیرمنصفانہ شرط یہ تھی کہ مسلمان اچھوتوں کے مخصوص مطالبات کی حمائت ترک کر دیں مگر مسلمانوں نے اچھوتوں کی حمائت سے دستبرداری سے انکارکرکے گاندھی جی کو ناراض کردیاتھا''۔

گاندھی جی کے اس رویہ کی حمائت میں پنڈت جی کی لب کشائی پر اقبال حیرت زدہ رہ گئے چنانچہ اپنے اس بیان میں انہوں نے یہ سوال اٹھایا کہ:
’’اپنے زبانِ زدِ عام سوشلسٹ خیالات کے پیشِ نظر پنڈت جواہر لال نہرواس انسانیت کش شرط کی کیسے حمایت کریں گے؟کم از کم انہیں یہ زیب نہیں دیتاکہ وہ مسلمانوں کو سیاسی معاملات میں رجعت پسندی کاالزام دیں ۔اس صورت میں میں وہ لوگ جو ہندوؤں کے فرقہ پرستانہ مقاصد کو اچھی طرح سمجھتے ہیں' اس نتیجے پرپہنچنے میں حق بجانب ہونگے کہ پنڈت جی فرقہ وارانہ فیصلے کے خلاف ہندو مہاسبھاکی جاری کردہ مہم میں ایک سرگرم رکن ہیں‘‘۔

مسلمانوں کے خلاف پنڈت جواہر لال نہرو کا دوسرا الزام یہ تھا کہ مسلمان ہندوستانی قومیت کے مخالف ہیں۔اس کے جواب میں علامہ اقبال نے فرمایا:
’’اگر قومیت سے ان کی مراد یہ ہے کہ مختلف مذہبی جماعتوں کو حیاتاتی معنوں میں ملاجلا کرایک کردیا جائے توپھرمیں ہی اس نظریہ قومیت سے انکارکامجرم ہوں۔میں پنڈت نہرو سے ایک سیدھاساسوال کرناچاہتا ہوں'جب تک اکثریت والی قوم دس کروڑکی اقلیت کے کم سے کم تحفظات کوجنہیں وہ اپنی بقاء کیلئے ضروری سمجھتی ہے نہ مان لے اورنہ ہی ثالث کا فیصلہ تسلیم کرے بلکہ واحدقومیت کی ایسے رٹ لگاتی رہے جس میں صرف اس کااپناہی فائدہ ہے'ہندوستان کامسئلہ کیسے حل ہوسکتاہے؟اس سے صرف دوصورتیں نکلتی ہیں'یاتو اکثریت والی ہندوستانی قوم کو یہ ماننا پڑے گا کہ وہ مشرق میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے برطانوی سامراج کی ایجنٹ بنی رہے گی یاپھر ملک کومذہبی'تاریخی اور تمدنی حالات کے پیشِ نظر اس طرح تقسیم کرنا ہوگاکہ موجودہ شکل میں انتخابات اورفرقہ وارانہ مسئلہ کاسوال ہی نہ رہے‘‘۔

پنڈت نہرو کے جواب میں دیا گیا علامہ اقبال کا یہ بیان یقینی طورپرپنڈت جی کی نظروں سے گزراہوگا 'اس بیان میں روزِ اوّل تاآخراقبال کاترقی پسند'وسیع النظراورانسان دوست مسلک نمایاں ہے۔یہ بیان تصورِپاکستان کی نفی سے نہیں بلکہ اثبات سے عبارت ہے۔ایسے میں پنڈت جی کایہ کہناکہ١٩٣٠ء کے بعداقبال اپنے تصورِپاکستان سے دستبردارہوگئے تھے'دیانت داری پرمبنی نظرنہیں آتابلکہ تاریخی حقیقت پرتعصب کی چادر ڈالنے کے مترادف ہے۔
جب پنڈت نہرو نے ''ماڈرن ریویو''(کلکتہ)میں دنیائے اسلام کی صورتحال پر تین مضامین میں وطنیت اورلا دینیت کے فروغ کا خیر مقدم کیا تھا تواس کے جواب میں اقبال نے بھی ''ماڈرن ریویو''(کلکتہ)ہی میں پنڈت جی کی فکری گمراہی کوراست فکری میں بدلنے کاسامان کیا۔اپنے طویل مضمون کے آغازمیں اقبال نے برملاکہا:
’’میں اس بات کو پنڈت جی اورقارئین سے پوشیدہ نہیں رکھنا چاہتاکہ پنڈت جی کے مضامین نے میرے ذہن میں احساسات کا ایک دردناک ہیجان پیدا کردیاہے۔ جس اندازمیں انہوں نے اپنے خیالات کااظہارکیاہے اس سے ایک ایسی ذہنیت کاپتہ چلتاہے جس کوپنڈت جی سے منسوب کرنامیرے لئے دشوار ہے۔وہ اپنے دل میں مسلمانانِ ہند کے مذہبی اور سیاسی استحکام پسند نہیں کرتے۔ہندوستانی قوم پرست جن کی سیاسی تصوریت نے احساسِ حقائق کوکچل ڈالاہے اس بات کوگوارانہیں کرتے کہ شمال مغربی ہندکے مسلمانوں میں احساسِ خودمختاری پیداہو‘‘
اقبال کا یہ تجزیہ کہ پنڈت جی کی سیاسی تصوریت نے احساسِ حقائق کو کچل ڈالاہے'وقت نے بہت جلد سچ ثابت کردکھایا'جب پنڈت جی کے دل میں برصغیرکی زندگی کے ٹھوس حقائق کا احساس جاگ اٹھاتومولاناابوالکلام کی خدمت میں حاضرہوئے اورانہیں بھی ٹھوس حقائق یعنی قیامِ پاکستان کی حقیقت کو قبول کرنے کامشورہ دینے لگے۔مولاناآزادنے اپنی تصنیف’’انڈیاونز فریڈم‘‘میں اس بات کا ذکریوں فرمایاہے:
"After a few days Jawaharlal came to see me again. He began with a long preamble in which he emphasized that we should not indulge into wishful thinking, but face reality. Ultimately he came to the point and asked me to give up opposition to partition."

اسلامیانِ ہند نے١٩٤٦ء کے انتخابات میں اپنے ووٹ کے ذریعے پنڈت نہرواورگاندھی جی کے سیاسی خواب پرستوں کو زندگی کے جن حقائق کا احساس دلایا تھا 'اقبال نے برسوں پہلے پنڈت جی کوان حقائق کی جانب متوجہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ''سیاسی تدبر کا تقاضہ یہ ہے کہ زندگی کے حقائق سے فرارکرنے کی بجائے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان سے پنجہ آزماہواجائے۔''اپنے زیرِنظرمضمون میں بھی علامہ اقبال نے جداگانہ مسلمان قومیت کے سوال پردوٹوک اندازمیں اظہارِخیال کیاتھا ۔اقبال نے اسلامیانِ ہند کے سیاسی مسلک پر ان الفاظ پرروشنی ڈالی تھی:
’’اگر قومیت کے معنی حب الوطنی اورناموس وطن کیلئے جان تک قربان کردینے کے ہیں توایسی قومیت مسلمانوں کے ایمان کاجزوہے۔اس قومیت کااسلام سے اس وقت تصادم ہوتا ہے جب کہ وہ ایک سیاسی تصور بن جاتی ہے اوراتحادانسانی کابنیادی اصول ہونے کادعویٰ کرتی ہے اوریہ مطالبہ کرتی ہے کہ اسلام شخصی عقیدے کے پس منظرمیں چلاجائے اورقومی زندگی میں ایک حیات بخش عنصر کی حیثیت سے باقی نہ رہے،جدا گانہ مسلمان قومیت کا سوال صرف ان ممالک میں پیداہوتاہے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اورجہاں قومیت کایہ تقاضہ ہے کہ وہ اپنی ہستی کومٹادیں۔جن ممالک میں مسلمان اکثریت میں ہیں اسلام قومیت سے ہم آہنگی پیداکرلیتاہے کیونکہ یہاں اسلام اورقومیت عملاًایک ہی چیز ہے۔میں یقین کامل کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اسلامیانِ ہند کسی ایسی سیاسی تصوریت کاشکارنہیں بنیں گے جوان کی تہذیبی وحدت کا خاتمہ کردے گی'اگران کی تہذیبی وحدت محفوظ ہوجائے توہم اعتماد کر سکتے ہیں کہ وہ مذہب اورحب الوطنی میں ہم آہنگی پیدا کرلیں گے‘‘۔

علامہ اقبال کا یقین ِکامل بالکل درست نکلا'اسلامیانِ ہند نے بالآخرمتحدہ ہندوستانی قومیت کے سیاسی تصورکو غلط ثابت کرتے ہوئے جمہوری عمل کے ذریعے پاکستان قائم کرلیا ۔ان کی تہذیبی وحدت محفوظ ہوگئی اوریوں پاکستان میں اسلام سے عشق اوروطن سے محبت میں کوئی تضادباقی نہ رہا۔اب ہمارا دین اسلام ہے اورہماراوطن دارلسلام ہے اوردوسری طرف آپ پنڈت جی کی صداقت کااس بات سے اندازہ لگا لیں کہ ساری دنیا کے سامنے انہوں نے تحریری طورپراس بات کااعتراف کیا کہ وہ کشمیریوں کوحق خودارادیت دیں گے لیکن خودہی اپنی تحریرسے منحرف ہوگئے اوراس وعدہ خلافی نے ان کی ساری شخصیت اورصداقت کا بھرم طشت ازبام کردیا ہے۔ علامہ کایہ شعرکتناحسبِ حال ہے!
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

آخرمیں اس بحث کوسمیٹتے ہوئے بس اتناعرض کرناچاہتاہوں کہ پاکستان ایک معجزاتی ریاست ہے جسے میرے رب کی خاص حکمت عملی کے تحت ٢٧رمضان المبارک کی پرنور شب کو اسے ''ریاست مدینہ ثانی''بنانامقصودتھاجس کیلئے میرے رب نے محمدعلی جناح،علامہ محمداقبال کے علاوہ دیگرمشاہیرکاانتخاب کیاجنہوں نے ایک ہی وقت میں انگریز اورہندوکی مشترکہ سازشوں کوانتہائی دانشمندی کے ساتھ ناکام بنایا،اب ضرورت اس امرکی ہے کہ ''ریاست مدینہ ثانی''کی تکمیل کیلئے قرآن کومن وعن نافذکردیاجائے جس کاوعدہ ہم نے پاکستان جیسی ریاست عطاکرنے والی ہستی سے کیاتھا!
رہے نام میرے رب کا جوحق سچ ہے!
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 351143 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.