لاہور: گرجاگھروں پر حملے....مسیحی آبادی کا پر تشدد احتجاج

اتوار کے روز لاہور میں یوحنا آباد کے دو گرجا گھروں پر ہونے والے خودکش حملوں میں دو پولیس اہلکاروں سمیت 17افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ 85 سے زاید زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اتوار کے روز یوحنا آباد میں واقع کیتھولک چرچ اورکرائسٹ چرچ میں دعائیہ عبادت جاری تھی کہ خودکش بمباروں نے چرچ میں داخل ہونے کی کوشش کی تو سیکورٹی گارڈز نے انہیں روکنے کی کوشش کی،جس پر بمباروں نے گیٹ پر ہی خود کو دھماکے سے اڑا لیا اور ہر طرف نعشیں، انسانی اعضائ، خون، دھواں اور آگ پھیل گئی۔ گرجا گھروں کے باہر کھڑی گاڑیوں اور متعدد موٹر سائیکلوں کو نقصان بھی پہنچا اور قریبی دکانوں وعمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کی گئی۔ صدر، وزیر اعظم اور ملک کے تمام سیاسی و مذہبی رہنماﺅں نے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور گرجوں پر ہونے والے واقعات کو ریاست پر حملہ قرار دیا۔ مذہبی و سیاسی رہنماﺅں کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات سے ہمارے عزم کو متزلزل نہیں کیا جاسکتا۔ جبکہ علمائے کرام نے کہا کہ کہ دہشت گردی مسجد میں ہو یا چرچ میں اس کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے یوحنا آباد چرچ میں مرنے والوں کے لواحقین کے لیے 5، 5لاکھ روپے، جبکہ فی زخمی کے لیے 75ہزار روپے کا اعلان کیا۔ دھماکو ں کے فوری بعد لاہور میں سرچ آپریشن شروع کیا گیا، پچیس سے زاید افراد کو گرفتار کر کے نامعلوم جگہ پر منتقل کیا گیا۔ ڈی آئی جی آپریشن لاہور حیدر اشرف کا کہنا تھا کہ دونوں دھماکے چرچوں سے باہر ہوئے، خودکش بمبار چرچوں میں نہیں جاسکے۔ پولیس کی نفری دونوں گرجا گھروں کے باہر تعینات تھی، اس کے باوجود پولیس اور دو افراد پر تشدد کیا گیا۔ پولیس کو کام نہیں کرنے دیا گیا، چارو پولیس اہلکاروں کو بھی یرغمال بنایا گیا۔

دوسری جانب دھماکوں کے بعد مسیحی برادری نے مشتعل ہو کر احتجاج شروع کر دیا اور وہاں موجود دو افرادکو دہشت گرد قرار دے کر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ پولیس اہلکاروں نے دونوں افراد کو بچانے کی کوشش کی تو مشتعل ہجوم نے انہیں پولیس سے چھین لیا اور پھر دونوں کو برہنہ کرنے کے بعد پیٹرول چھڑک کر زندہ جلا دیا۔ زندہ جلائے جانے والے افراد کی لاشوں پر جوتے برسا کر ان کی بے حرمتی بھی کی گئی۔ جبکہ بہت سے افراد موبائلوں سے اس انسانیت سوز واقعے کی ویوڈیوز بھی بناتے رہے۔ زندہ جلائے جانے والے دو افراد میں سے ایک کی شناخت عام شہری محمد نعیم کے نام سے ہوئی، جو قصور کا رہائشی تھا۔ مشتعل مظاہرین نے متعدد شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور گاڑیوں کے شیشے توڑنے کے علاوہ میٹروبس روٹ کے جنگلے توڑ دیے، مظاہرین کی لوٹ مار اور توڑ پھوڑ سے شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔ احتجاج کے دوران مشروب ساز ادارے کی گاڑی بھی لوٹ لی گئی۔ کئی جگہ پر روڈ بلاک کر دیے گئے، جس کے باعث گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ عینی شاہدین کے مطابق مشتعل لوگوں کا کہنا تھا کہ ہم نے سانحہ کوٹ رادھا کشن کا بدلہ لے لیا۔ وفاقی وزیر کامران مائیکل اور پولیس افسر موقع پر پہنچے تو مشتعل ہجوم نے ان سے بھی بدتمیزی اور گالم گلوچ کی اور انہیں جائے وقوعہ تک نہ جانے دیا۔ ملک کے کئی شہروں میں مسیح برادری کی جانب سے دوسرے روز بھی شدید احتجاج کیا گیا۔ اس دواران لاہور میں فیروزپور روڈ میدان جنگ بنا رہا۔ متعددمقامات پر مظاہرین گاڑیوں پر ڈنڈے برساتے رہے، دکانیں بھی بند کرا دی گئیں۔فیروز پور روڈ پر مشتعل مسیحی مظاہرین نے شدید توڑ پھوڑ کی۔ اس دوران متعدد گاڑیوں اور عام افراد کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ مظاہرین کے پتھراؤ سے متعدد صحافی بھی زخمی ہو گئے، جبکہ مظاہرین نے میڈیا کی گاڑیوں کے شیشے بھی توڑ دیے۔ پولیس نے مشتعل افراد کو توڑ پھوڑ سے روکا تو جھڑپیں شروع ہو گئیں، مظاہرین نے پولیس پر پتھراﺅ شروع کردیا، جس پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ عیسائی برادری کی جانب سے علاقہ میں موجود مسلمان رہائشیوں کے گھروں پر بھی حملے کیے گئے اور پتھراﺅ کیا گیا۔ جبکہ اس دوران لاہور پولیس خاموش تماشائی بنی اپنی آنکھوں کے سامنے مظاہرین سے راہگیروں کو پٹواتی رہی اور خود بھی مظاہرین سے پٹتی رہی۔ مظاہرین لوگوں کی گاڑیاں روک کر ان سے ان کے شناختی کارڈ چیک کر کے فیملی والوں کے ساتھ بدتمیزی کرتے اور گاڑیوں کو روک کر ان پر ڈنڈے برساتے ، سرکاری و پرائیویٹ املاک کو نقصان پہنچاتے رہے، لیکن پولیس نے کسی بھی مشتعل شخص کو روکنے کی کوشش نہ کی۔ مشتعل مسیحی لڑکوں نے آنے جانے والے ہر فرد کو تنگ کیا اور میٹرو مسافروں کے ساتھ بھی بدتمیزی کی، جبکہ اہل علاقہ اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ مشتعل ہجوم کو کنٹرول کرنے میں ناکامی نے پولیس و دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر کئی سوالیہ نشان چھوڑ دیے ہیں؟ پولیس کی جانب سے ہنگاموں کو کنٹرول کرنے کے لیے قائم کی گئی اینٹی رائٹ فورس تو دور کی بات، کسی افسر یا اہلکار کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ایسی صورتحال میں کرنا کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق دھماکے کے بعد مسیحی برادری نے مشتعل ہوکر پولیس اہلکاروں پر بھی تشدد کیا،جس کے بعد موقع پر پہنچنے والی ٹیموں کو بھی مشتعل ہجوم نے روک لیا، اس کی وجہ سے فرانزک ماہرین اور پولیس بروقت شواہد حاصل نہیں کرسکے اور نہ ہی کرائم سین کو سیل کیاجاسکا۔ حملہ آور کے اعضاءاور دےگر ثبوت پیروں تلے آکر مٹ گئے۔

یوحنا آباد میں مشتعل ہجوم نے جہاں دو افراد کو زندہ جلا دیا، وہیں تین پولیس اہلکاروں کو ادھ موا کرنے کے علاوہ کئی افراد کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا اور میٹرو بس ٹریفک، ٹرمینل اور جنگلوں سمیت کروڑوں روپے کی املاک کو نقصان پہنچایا، دکانوں میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کی گئی۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ پولیس افسروں کو بھی یرغمال بنائے رکھا۔ شواہد اکٹھے کرنے والے فرانزک حکام کو بھی جائے وقوعہ تک نہ جانے دیا، جس سے کئی فرانزک شواہد ضائع ہو گئے۔ اس صورتحال میں دہشت گردی سے نپٹنے کے لیے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ اور جدید ٹیکنالوجی و تربیت کے بلند و بانگ دعوے کرنے والے حکومتی و پولیس حکام یہاں مکمل طور پر بے بس نظر آئے۔ پولیس مظاہرین کو کنٹرول کرنے میں بے بس اور ناکام دکھائی دی۔ حالات کنٹرول سے باہر ہونے پر پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس پھینکی اور لاٹھی چارج کیا۔ سی سی پی او لاہور امین وینس نے نشتر ٹاؤن سے یوحنا آباد تک گشت کیا اور مظاہرین کی ٹولیوں کو ییچھے ہٹنے کا حکم دیا۔ ڈی آئی جی آپریشنز نے پنجاب کانسٹیبلری اور ریزرو پولیس کے دستے طلب کر لے، جبکہ پنجاب حکومت نے بھی رینجرز کے دستے طلب کرلیے۔ ان حالات میں ملک بھر کے متعدد حلقوں نے جہاں ایک طرف لاہور میں گرجوں پر ہونے والے خودکش حملوں کی شدید مذمت کی ہے، وہیں لاہور میں مظاہرین کی جانب سے دو دن ہونے والے پرتشدد واقعات کی شدید مذمت کی ہے۔ تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام نے مسیحی برادی کی طرف سے زندہ انسانوں کو جلائے جانے اور نجی و سرکاری املاک کو تباہ و برباد کرنے کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے ذمہ داروں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے، وہیں قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ قانون ہاتھ میں لے کر خوف و ہراس پھیلانے والوں کے خلاف دہشت گردی ایکٹ ے تحت مقدمات بنائے جاسکتے ہیں۔دو افراد کو زندہ جلائے جانے کا جرم ثابت ہونے پر ملزمان کو سزائے موت ہوسکتی ہے۔ سرکاری املاک کو جلانا اور ہنگامہ آرائی کر کے خوف و ہراس پھیلانا بھی دہشت گردی ایکٹ کے تحت سنگین جرم ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ کسی بھی شہری کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ قانون ہاتھ میں لے کر سرکاری املاک کو تباہ کردے اور زندہ انسانوں کو جلا ئے۔ اسی حوالے سے متعدد مذہبی و سیاسی شخصیات سے گفتگو کی گئی ہے۔

مولانا اورنگزیب فاروقی(صدر اہلسنت والجماعت پاکستان)
لاہور میں گرجا گھروں پر ہونے والے حملے افسوسناک اور قابل مذمت ہیں، ان کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔، لیکن ان واقعات سے بھی قابل مذمت لاہور واقعہ کے بعد زندہ انسانوں کو جلانے کے واقعات ہیں۔ گرجوں پر حملے مسیحی برادری سے زیادتی ہوئی ہے، لیکن زیادتی کے جواب میں بھی بہت بڑی زیادتی کی گئی ہے۔ انسانوں کو زندہ جلانے کے واقعات میں میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کا کردار اور ان کی خاموشی انتہائی قابل مذمت ہے اور لمحہ فکریہ ہے۔ دونوں واقعات سازش کے تحت کیے گئے ہیں، تاکہ ملک میں اقلیتوں پر حملے شروع ہوجائیں اور لڑائی شروع ہوجائے۔ سازش کے تحت ملک کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پنجاب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس سازش کو بے نقاب کرے اور پس پردہ چھپے عناصر کو سامنے لائے۔ حکومت پنجاب فضول کاموں میں اپنا وقت اور سرمایہ خرچ کر رہی ہے،بے گناہ لوگوں کو گرفتار کر رہی ہے، لیکن ملک میں سازش کے تحت بدامنی پھیلانے والے عناصر کو بے نقاب کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ لاہور میں دونوں واقعات انتظامیہ کی ناکامی اور نااہلی ہے۔ ریاست میں کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ہم بھی عرصے سے اپنے کارکنوں کے جنازے اٹھارہے ہیں، لیکن کبھی قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا۔ لاہور واقعہ کے بعد عیسائی شہریوں کی طرف سے قانون ہاتھ میں لے کر انتہائی برا کیا گیا۔ ذمہ داران کے خلاف بھرپور کارروائی ہونی چاہیے۔

صاحبزادہ ابوالخیر زبیر(سربراہ جمعیت علمائے پاکستان)
لاہور گرجوں پر ہونے والے دھماکے انتہائی قابل مذمت ہیں اور اس کے بعد انسانوں کو زندہ جلایا جانا بھی قابل مذمت ہے۔ میرے نزدیک دونوں واقعات ایک پلاننگ اور منصوبے کے تحت ہوئے ہیں۔ پہلے سازش کے تحت گرجا گھروں پر حملہ کیا گیا اور اس کے بعد سازشی عناصر نے زندہ انسانوں کو جلایا، تاکہ ملک میں بدامنی کی آگ مزید بڑھکے اور ملک میں افراتفری پھیل جائے اور ایک دوسرے پر حملے شروع ہوجائیں۔ سازشی عناصر نے لاہور میں ہونے والے واقعات سے آپریشن ”ضرب عضب“ کو ناکام کرنے کی کوشش کی ہے۔ ابھی تک آپریشن ضرب عضب کامیابی سے ہمکنار ہورہا ہے، اس سے دہشت گردی پر کافی حد تک قابو پایا گیا ہے، لیکن سازشی عناصر کو یہ برداشت نہیں ہوا ہے کہ ضرب عضب آپریشن کامیاب ہو۔ ان حالات میں عوام کو سوچناچاہیے کہ سازشی عناصر کے ہتھے نہ چڑھیں۔ عوام کو جذبات کو قابو میں رکھنا چاہیے اور قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ دونوں واقعات کے ذمہ داروں کو گرفتار کرے۔ قانون پر عمل کروانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ واقعات میں ملوث افراد کو ڈھونڈ کر منظر عام پر لائے اور سازشی عناصر کو بے نقاب کرے۔ ایسے واقعات کے بعد اکثر انتظامیہ ناکام نظر آتی ہے۔ ناکام انتظامیہ کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے، واقعات کی روک تھام میں ناکام ہونے والے پولیس والوں کو برطرف کیا جائے، کیونکہ ان کو ہٹانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

علامہ ابتسام الٰہی ظہیر(ناظم اعلیٰ جمعیت اہلحدیث پاکستان)
لاہور میں گرجوں پر ہونے والے خودکش حملے قابل مذمت اور انتہائی افسوس ناک ہےں۔ اسلام اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ اسلام تو ہر انسانی جان کی قدر کرتا ہے۔ اسلام نے ہر انسانی جان کے مکمل حقوق رکھے ہیں۔ ریاست کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے اور شہریوں کا تحفظ یقینی بنانا چاہیے۔ شہریوں کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ شہریوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی ریاست کا احترام کریں اور قانون ہاتھ ہی نہ لیں۔ لاہور واقعہ کے بعد جو ایک اور افسوس ناک واقعہ پیش آیا کہ مسیحی برادری کی طرف سے لوگوں کو زندہ جلایا گیا ہے۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ زندہ انسانوں کو جلاکر قانون بھی توڑا گیا ہے اور انسانیت کی تذلیل کی گئی ہے۔ جس طرح گرجا گھروں پر حملے قابل مذمت ہیں، اس طرح زندہ انسانوں کو جلانا بھی قابل مذمت ہے۔ جب توہین رسالت کے واقعات کے رد عمل میں مسلمانوں کی طرف سے کوئی پر تشدد واقعہ رونما ہوجاتا ہے تو اس وقت مسلمانوں کو کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا اور مسلمان تشدد نہ کریں اور اس وقت ساری دنیا مسلمانوں کی مذمت بھی کرتی ہے۔ بالکل اسی طرح لاہور واقعہ کے بعد عیسائیوں کو چاہیے تھا کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرتے اور قانون ہاتھ میں نہ لیتے، لیکن عیسائی برادی نے قانون ہاتھ میں لے کر املاک کو نقصان پہنچایا اور شہریوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کیا، جو انتہائی قابل مذمت ہے۔ شہریوں کی طرف سے یوں قانون کو ہاتھ میں لینا ملک کی بقا اور سلامتی کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ انتظامیہ کو چاہیے کہ اپنا کردار ادا کرے۔ اس حوالے سے ریاست اور علمائے کرام کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔ ایسے واقعات میں انتظامیہ کی ناکامی کھل کر سامنے آتی ہے۔ ریاست کے ذمہ ہے کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔

جان اچکزئی(جے یو آئی، ف)
لاہو میں گرجا گھروں پر حملے انتہائی قابل مذمت ہےں، اسلام ایسے واقعات کی بالکل اجازت نہیں دیتا، لیکن اس کے بعد زندہ انسانوں کو جلانا بھی انتہائی قابل مذمت ہے۔ دونوں واقعات دہشت گردیاں ہیں۔ انصاف فراہم کرنا عدالت کا کام ہے۔ قانون کو خود ہاتھ میں لے کر زندہ انسانوں کو جلانا نہ صرف ریاست کی پامالی ہے، بلکہ غیر انسانی فعل بھی ہے،جو کسی طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان ایک آئین اور قانون رکھنے والا ملک ہے۔ یہاں آئین و قانون میں سب کچھ لکھا ہے۔ تمام جرائم کی سزائیں بھی قانون میں موجود ہیں، لیکن اگر کوئی خود ہی قانون ہاتھ میں لینے لگے تو ریاست کس کام کی رہی؟۔ ایسی ریت نہیں ڈالنی چاہیے کہ لوگ خود ہی قانون ہاتھ میں لے کر کارروائیاں کرنا شروع کردےں۔ تمام معاملات قانون کے مطابق ہونے چاہیےں۔ ان واقعات کے ذمہ داران کو فوری گرفتار کرکے سزا دینی چاہیے۔ ایسے واقعات پولیس اور انتظامیہ کی ناکامی کا نتیجہ ہوتے ہیں، جو انتہائی افسوس ناک ہیں۔ انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ اپنی ناکامیوں پر نظر ثانی کرے اور قانون پر عمل داری یقینی بنائے اور انسانوں کو زندہ جائے جانے والے افراد کے ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کرے اور سزا دے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 632643 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.