حج کی فرضیت اور اہمیت

حج کے معنی قصد اور ارادے کے ہیں۔ اس کا مقصد کسی مقدس مقام کے سفر کا ارادہ کرنا ہے۔اسلام میں ملک عرب کے مشہور شہر مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سے مراد لیے جاتے ہیں۔ اصطلاح شریعت میں عبادت کی نیت سے خانہ کعبہ کی زیارت، طواف اور مناسک حج ادا کرنے کو حج کہا جاتا ہے۔

حج اسلام کی عبادت کا اہم رکن اور فریضہ ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے، ترجمہ۔ لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو بھی استطاعت رکھتا ہو اسکے گھر کا حج کرے اور جس نے کفر کی روش اختیارکی اس کو جان لینا چاہیے کہ اللہ سارے جہا ں سے بے نیاز ہے۔ سورہ الاعمران ۹۷

استطاعت سے مراد جسمانی اور مالی دونوں استطاعتیں ہیں۔جسمانی استطاعت سے مراد یہ ہے کہ معذور نہ ہو۔ مالی استطاعت سے مراد یہ ہے کہ حج کے سفر کے اخراجات کے علاوہ متعلقین کے گزر بسر کے اخراجات بھی موجود ہوں۔ حج اللہ تعالی کی عبادت اور اسکی محبت و قربت کا قدیم ترین طریقہ ہے۔بیت اللہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی یادگار ہے۔ حضرت ابراہیم نے بہت محبت اور خلوص سے اللہ کا یہ گھر بنایا تھا جس کے لیے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے یہ دعا کی تھی کہ، ترجمہ۔ "اے اللہ ہمارے عمل کو قبول فرما۔ یقینا تو سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ مالک ہمیں اپنا سچا فرمان بردار بنادے اور ہماری اولاد میں سے ایک ایسا گروہ پیدا کردے جو تیرا فرماں بردار ہو اور ہمیں اپنی عبادت کے طریقہ بتلا اور ہم پر کرم کی نظر سے دیکھ بے شک تو نظر کرم فرمانیوالا اور رحم کرنیوالا ہے۔ سورہ البقرہ ۲۳۸۔

خانہ کعبہ خدا دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔جہاں سارے مسلمان عبادت کے لیے جمع ہوتے ہیں۔اسکی اہمیت کے متعلق اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ، ترجمہ۔"اور ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لیے مرجع اور امن کی جگہ بنایا اور حکم دیا کہ ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کی جگہ بنا لو۔ سورہ البقرہ ۱۲۵

ایک حدیث میں ہے۔ "جو اردہ پر قدرت رکھتا ہو،بیت اللہ تک پہنچنے کی سواری بھی میئسر ہو اور اس کے باوجود حج نہ کرےتو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر مرے"
اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کی اہمیت مسلمانوں پر واضح کر دی لیکن ہم اس فرض کو ادا نہ کرنے کے کیا کیا بہانے اور عذر تلاش کرتے ہیں۔

حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں کہ "جو لوگ استطاعت کے باوجود حج نہ کریں میرا جی چاہتا کہ ان پر جذیہ لگادوں۔"مذکورہ بالا آیات اورحدیث سے معلوم ہوا حج بھی نماز ، روزہ اور زکوۃ ہی کی طرح اسلام کا اہم رکن اور فریضہ ہے۔جس طرح نماز ، روزہ اور زکوۃ فرض ہوئے اسکی ادائیگی ضروری ہو جاتی ہے۔ فرض ادا نہ ہونے کی صورت میں انسان گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اسی طرح حج کی استطاعت رکھنے کے باوجود کوئی شخص اسے چھوڑدے تو اس کا دین و ایمان متشبہ ہے۔ اس طرح اس میں اور ایک غیر مسلم اور کافر میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا لہذا ہمیں چاہیے کہ حج فرض ہوتے ہی اسکی فوری ادائیگی کا پختہ ارادہ کر لیں اور ادا کرنے میں تاخیر نہ کریں کیونکہ انسانی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔

حج کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کی زیارت اور حاضری بھی ضروری ہو جاتی ہے۔ ایک تو یہ کہ مومن کے دل میں اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عقیدت موجود ہے دوسرے خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"جس نے حج کیا اور میری زیارت نہ کی تو اس نے مجھ سے جفا کی"،ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ، "جس نے حج کیا اور اس کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو اسے وہی سعادت نصیب ہو گی جیسَے اس نے میری حیات ظاہری میں زیارت کی ہو"۔

ایک اور حدیث ہے کہ، "جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کی شفاعت مجھ پر لازم ہے۔"

حج کی ادائیگی کا تعلق عقل سے ہے اگر کسی مسلمان کی اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دلی وابستگی ہو تو اس جذبہ محبت میں اس کو اللہ کے گھر کا طواف اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کی تمنا ہوتی ہے۔ ایک دفعہ اپنے دل میں ارادہ کر کے دیکھیں پھر اللہ تعالی اس تمنا کو پوری کرنے کے لیے کیسی کیسی راہیں کھول دیتا ہے۔ یہ انسان کے لیے ایک امتحان ہے کہ اپنے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں کن کن مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے۔ اللہ کے گھر پہنچ کر ہمارے دل مزید جزبہ محبت اور عقیدت سے بھر جاتے ہیں۔ ہم اپنے گناہوں پر آنسو بہاتے ہیں اس سے اپنی بخشش کرواتے ہیں۔ وہاں جا کر انسان اپنا گھر، اپنا مال اور اپنی اولاد سب سے بے فکر ہوجاتا ہے اسکے دل میں اللہ اور اسکے محبوب کے سوا اور کچھ نہیں ہرتا۔

حج ایک ایسی عبادت ہے جس میں ایک طرف تو توبہ استغفار، عاجزی اور انکساری، تقوی و پاکیزگی، صبر و ضبط شامل ہے۔دوسرے اس میں ملت اسلامیہ کا اتحاد بھی نظر آتا ہے۔ غرض حج ایک ہمہ جہت عبادت ہے،عشق الہی ہے،دعاوں کا عمل ہے، ایک ناقابل فراموش واقعہ ہے اور پھر اپنی باقی زندگی میں خدا کے گھر اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی بار بار تمنا اور گناہوں سے بچنے اور نیک راہ پر چلنے کی کوشش جاری رہتی ہے۔ مومن کے لیے دنیا ایک قید خانہ ہے، ایک آزمائش ہے، ایک امتحان ہے۔ جس میں قدم قدم پر شیطان ہمیں بہکانے اور ہماری آخرت کو خراب کرنے پر کمر بستہ ہے۔

اللہ تعالی ہمیں توفیق دے کہ ہم ہر قدم پر اور ہرہر لمحے االلہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کا خیال کرتے ہوئے اپنے اعمال کی درستگی کریں اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پسندیدہ اور محبوب بن جائیں۔