نظریہ پاکستان

اقوام عالم کی زندگیوں میں کچھ ایام اور کچھ مہینے ایسے ہوتے ہیں کہ جو ان کے لئے انتہائی غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ ہم پاکستانیوں کے لئے مارچ کے مہینے میں ہونے والے ایک واقعہ نے اس کی اہمیت ہمارے نزدیک بہت زیادہ کردی ہے ۔ وہ واقعہ قیام پاکستان میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا۔ ہم نوجوانوں کو یہ ملک اپنے بڑوں سے وراثت میں ملا ہے اس لئے اس کی قدر واہمیت اس طرح سے ہمارے دلوں میں نہیں جس طرح ان کے ہے ۔ پچھلے دنوں بھارت میں ایک تحریک شروع ہوئی ’’گھرواپسی‘‘)شدھی تحریک) کی جس نے میری نظر میں میرے بزرگوں اور قیام پاکستان کے دوران ہونے والی قربانیوں کی اہمیت کو اور زیادہ واضح کردیااور ان کی دوراندیشی کو شاید اپنی زندگی میں پہلی دفعہ صحیح طرح سے خراج تحسین پیش کیا ۔کتنے دوراندیش تھے ہمارے بانیان پاکستان کہ جنہوں نے وقت دومکار دشمنوں کے مذموم عزائم کا تدارک کرتے ہوئے آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ گھر کی بنیادرکھی۔ ’’بغل میں چھر ی منہ میں رام رام‘‘ کی فطرت والوں کو سمجھا اور دوقومی نظریے کی اہمیت کو واضح کیا۔ یہ تحریک کیا ہے ؟ صرف یہ سمجھ لیں کہ بھارت میں خصوصاََ مسلمانوں کو اور عموماََ دوسری اقلیتوں کو زبردستی ہندو بنایا جارہا ہے اور اگر آپ ہندو نہیں تو ہندوستان چھوڑ دو۔شدھی تحریک جو کہ 1923ء میں پہلی بار چلائی گئی تھی جس کے تحت لاکھوں مسلمانوں کو اس وقت زبردستی ہندو مذہب میں داخل کیا گیا تھا۔ آج پھر موجودہ حکومت کے جو بھارت میں مسلمانوں کی سب سے بڑی دشمن سمجھی جاتی ہے اس نے یہ تحریک چلا کر مسلمانوں کو دوبارہ ہندومذہب کی طرف لانا شروع کیا ہوا ہے۔اس سے پہلے میں بھی اپنے دوستوں کے ساتھ اس دن کو صرف ایک قومی دن سمجھ کرصرف ایک دن منا کر اپنے آپ کو محب وطن سمجھتا کرتا تھا لیکن اس بار جب بھارت میں ہونے والے واقعات جو کہ زیادہ تر مسلمانوں کے خلاف اور پاکستانیوں کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈہ کو کھنگالاتو ہندو دیش کے باسیوں نے میرے لئے23مارچ کی اہمیت اور زیادہ کردی ہے ۔
حکومت انگریزوں کی تھی اور گونج رام رام کی تھی۔ملازمتوں، عہدوں وغیرہ پر انگریزوں اور ہندوؤں کاراج تھا ۔ انگریزی راج میں فرقہ وارانہ فسادات کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام ہوتا تھا۔ مسلمانوں کے تہذیب وتمدن اور زبان کو ختم کرنے کی کوششیں عروج پر تھی۔ہندوستان میں مسلمانوں کامذہب اور مسلمان بذات خود خطرات میں گھرے ہوئے تھے۔ ان شدیدحالات وواقعات میں کچھ غیور اور سرپھرے لوگوں نے امت مسلمہ کی نمائندگی کواپنے ہاتھوں میں لیا اور آزادی کی طرف سفر شروع کیا جس کی بنیاد دوقومی نظریے پررکھی گئی تھی کیونکہ اس وقت مسلمانوں کی جو حالت تھی وہ صرف اور صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے تھی۔ قائد محمدعلی جناح ؒ دوقومی نظریے کے زبردست حامی تھے ۔مسلم لیگ کے 27ویں سالانہ اجلاس میں ( 23مارچ 1940ء )قرارداد پیش کی گئی جو بعد میں قردادپاکستان کے نام سے مقبول ہوئی ۔قرارداد لاہور کو اسوقت کے ہندوؤں نے بطور تمسخر قراردادپاکستان کانام دیا تھا جس کو مسلمانوں نے فخر سے قبول عام بخشا۔ محترم قائد محمدعلی جناحؒ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا’’مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں کیونکہ ان کے رسم ورواج ،تہذیب اور مذہب جدا ہیں ۔مسلمان اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں‘‘ ۔ یہ سب اس لئے کہا کہ ہماری نوجوان نسل کو پاکستان بنانے کا مقصد واضح ہوجائے اگر پھر بھی کوئی اس تاریخ کو نہیں مانتا تو وہ بھارتی گجرات میں ہونیوالے مسلمان کش فسادات کو دیکھ لے کہ جس میں مسلمانوں کوزندہ جلایا گیا اور ماؤں کے پیٹ چاک کرکے بچوں کو انیوں پرپرویا گیا۔ جس کی سربراہی میں یہ سب ہوا وہ آج بھارت کا وزیراعظم ہے اور تقریباََ ہرہفتے ایک سے دودفعہ پاکستان کی سرحدوں پرفائرنگ کرواتا رہتا ہے ۔

اگرچہ پاکستان میں حالات کتنے ہی برے ہوں لیکن ہم پھر بھی بھارت میں رہنے والے مسلمانوں اور دوسری اقلیتیوں سے اچھے ہیں ہندو بنیاء تو اس وقت اپنی ہی ذات دلت کو بھی قتل کرنے سے نہیں باز آرہا۔پاکستان کے جس کو اسلام کا قلعہ ہونا چاہئے تھا پوری دنیا کے مظلوم مسلمان مصیبت میں پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں لیکن ہمارے دشمن ہمیں ہمارے ہی گھر میں ہمیں مصروف کر کے عالم اسلام کو ہم سے دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ یہ بات ہم پاکستانی مسلمانوں کے لئے فخر کی بات ہے کہ اللہ نے ہم کو یہ اعزازبخشا کہ ہم نے دنیاء اسلام میں پہلا ایٹمی بم بنا کر ثابت کیا کہ ہم ایک اللہ کو ماننے والے ہیں اور اللہ ہماری مدد بھی کرتا ہے۔ ۔آج بھی ہمیں دہشتگردی اور دیگر وجوہات سے لڑنے کے لئے اسی جذبہ اور ہمت کی ضرورت ہے کہ جوہمارے بزرگوں نے قیام پاکستان بناتے وقت دنیا کو دکھائی تھی۔کیاپاکستان کو پاکستان بنانا صرف اور صرف سیاست دانوں اور دوسرے اداروں کاکام ہے؟ نہیں بلکہ یہ فریضہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ آج ہمارا دشمن ہمیں ہمارے دوقومی نظریے سے دور کررہاہے اور ہم دور ہو بھی رہے ہیں ۔

23مارچ کو صرف ایک دن کے طور پرمنانا کافی نہیں ہے بلکہ یہ ایک جنون اور عشق کی داستان ہے جو ہمارے بزرگوں نے ہم کو ودیعت کیا ہے۔ تقریروں ،جلسوں ،جلوسوں اور دن منانے سے کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا بلکہ نظریہ پاکستان کو سمجھنے ا ور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہم اس وقت تکمیل پاکستان کی منزل کی جانب رواں دواں ہیں یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم نظریہ پاکستان اور بانی پاکستان محمدعلی جناحؒ کے افکار ونظریات کوسمجھتے ہوئے پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے۔ پاکستان کا قانون اسلامی قانون ہو تب ہی امن وسکون ممکن ہے۔ یہ بدامنی،فسادات اوردہشتگردی اسلام اور پاکستان کو بدنام اور ایک ناکام اسلامی ریاست ثابت کرنے کی سازشیں ہیں جن کو ہم اسی وقت ناکام بنا سکتے ہیں جب ہمارا نقطۂ نظر واضح اور صاف ہو۔پاکستان اسلام کے نام پر بناتھا اور اس کی بقاء بھی اسلا م کے قوانین پر ہی ممکن ہے۔ یادرکھیں اللہ تب تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود کوشش نہ کرے۔
میرے پیارے پاکستان! توچمن ہے اورچمن میں بہار ہم ہی لائیں گے باہمی اتحاد سے کیونکہ ہمارا کلمہ طیبہ بھی ایک ،رسول ﷺ بھی ایک اور کتاب بھی ایک۔
پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لاالہ الااللہ
Muhammad Atiq Ur Rhman
About the Author: Muhammad Atiq Ur Rhman Read More Articles by Muhammad Atiq Ur Rhman: 72 Articles with 55956 views Master in Islamic Studies... View More