عام آدمی کے بکھرتے سپنے

عام آدمی پارٹی تین سال کے اندر ہی تاش کی پتوں کی طرح بکھرنی شروع ہوگئی ہے ۔26 نومبر 2012 میں اس کا قیام عمل میں آیا تھا، دسمبر 2013 کے دہلی اسمبلی الیکشن میں اسے غیر متوقع طور پر نہ صرف 28 سیٹوں پر کامیابی ملی تھی بلکہ کانگریس کی آٹھ سیٹوں کی حمایت کے ساتھ حکومت بھی بن گئی تھی لیکن انچاس دنوں میں ہی کجریوال نے استعفی دے کر ازسرنو اانتخابات کرانے کی مانگ کردی ۔ 2014 کے عام الیکشن میں اس پارٹی کو اسی طرح بری شکست کا سامنا کرنا پڑا جس طرح دہلی الیکشن میں غیر متوقع کامیابی ملی تھی ۔2015 میں اس پارٹی نے ہندوستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کردیا ۔ دہلی کی 70 اسمبلی سیٹوں میں 67 سیٹوں پر جیت درج کرکے صرف ہندوستان نہیں بلکہ عالمی سطح پر ایک نمایاں شناخت قائم کرلی ۔ مودی لہر کجریوال کی سنامی میں دب کر رہ گئی ۔ عام آدمی پارٹی کی اس شاندار کامیابی کے بعد ہندوستان کی عوام میں ایک نئی امید پیدا ہوئی ۔ اس کی نگاہوں میں ہندوستان کے مستقبل پرپڑی تاریکیاں چھٹنے لگی۔ پوری عوام یہ سوچ رہی تھی عام آدمی پارٹی کانگریس اور بی جے پی سے ہٹ کر ایک نئی راہ اپنائے گی ۔یہ پارٹی خاندانی اجارہ داری اور فرقہ پرستی کا داغ لگنے کے بجائے مکمل طور پر جمہوری اور سیکولر ہندوستان کی ترجمان ہوگی۔ دہلی کے ساتھ پورے ہندوستان میں ایک نئے سیاسی باب کا آغاز کرے گی لیکن عوام کا خواب ایک ماہ تک بھی شاداب نہیں رہ سکا ۔ چنددنوں میں ہی آپ کے کنوینر کا اصلی چہرہ سامنے آنے لگے گا ۔ جوتاناشاہی اور ڈکٹیٹر شپ کا الزام کانگریس یادیگر پارٹیوں پر لگایا جارہا تھا وہ سب چیزیں عام آدمی پارٹی سے بھی ظاہر ہونے لگی۔10 فر وری کو دہلی اسمبلی الیکشن کا نتیجہ آیا تھا ، 15 فروری کو کجریوال نے وزیر اعلی کے عہدہ کا حلف لیا ۔ یہ موقع ابھی پارٹی کے جشن منانے کا تھا ، اتنی بڑی جیت کے سہارے پورے ہندوستان میں اپنی شبیہ کو مضبوط بنانے کا تھا ۔ عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے اور انتخابی ایجنڈا کو نافذکرنے کا تھالیکن یہ پارٹی اندورنی اختلاف کا شکار ہوگئی ۔ پارٹی کے کنوینر کجریوال نے پارٹی میں پائی جانے والی خامیوں کے خلاف بولنے کی جرات کرنے والوں کو باہر کا راستہ دکھانا شروع کردیا ۔ یوگیندر یادو اور پرشانت بھوشن کو پارٹی سے نکالنے کی تیاریاں شروع کردی۔4مارچ کوپہلے ان دونوں کو پولٹیکل افیئرز کمیٹی(پی اے سی )سے باہر کا راستہ دکھایا گیا ۔اب انہیں پارٹی سے بھی نکالنے کی تیاری ہورہی ہے ۔ 28 مارچ کو قومی کونسل کی ہونے والی میٹنگ میں اس کا فیصلہ ہوگا ۔ غالب گمان یہی ہے کہ ان دونوں کو پارٹی سے نکال دیا جائے گا۔پارٹی کے پچاس ممبران اسمبلی نے بھی یوگیندریادو اور پرشانت بھوشن کے خلاف تحریک چھیڑ دی ہے ۔ پچاس ممبران اسمبلی نے ایک خط لکھ کر ان دونوں کو پارٹی سے ہٹانے کی مانگ کی ہے ۔پارٹی کے سینئر لیڈران نے ان دونوں پرسنگین ترین الزامات عائد کئے ہیں ۔ ان کے بقول یہ راوندکجریول کے شبیہ خراب کرنے کے لئے میڈیا میں منفی خبریں شائع کرایا کرتے تھے ۔کجریوال کو کنوینر کے عہدہ سے برطرف کرکے خود وہ جگہ لینا چاتے تھے ۔دہلی اسمبلی الیکشن میں یہ پارٹی کی جیت نہیں چاہتے تھے ۔ ان کا کہنا تھاکہ اگر پارٹی شکست کا سامنا کرے گی تو قیادت میں تبدیلی آئے گی۔ سنجے سنگھ ، آشیش کھیتا ن اور آشو توش وغیرہ نے ان پر غدار ی کا الزام بھی عائد کیا ہے ۔

پرشانت بھوشن اور یوگیندر یادو پارٹی کے بانی ممبروں میں سے ہیں ۔ پارٹی کو آگے بڑھانے میں ان کی کافی قربانیاں ہیں ۔ ان پر اس طرح کا الزام عائد کرنا اور پھر پوری توجہ انہیں ہٹانے پر مبذول کرنا پارٹی کی اندورنی جمہوریت پر سوال قائم کرتا ہے ۔ ان دونوں کو برطرف کرنے کی جو اہم وجہ سامنے آرہی ہے وہ یہی ہے کہ انہوں پارٹی میں درآئی خرابی کے خلاف آوارز بلند کی تھی ۔ کجریوال کی ڈکٹیٹر شپ کے یہ خلاف تھے ۔یوگیندر یہ چاہ رہے تھے کہ جن اصولوں پر یہ پارٹی بنی ہے اسی کے مطابق کام ہو۔ اگر مان لیا جائے کہ واقعی انہوں نے پارٹی کے خلاف کوئی تحریک چلائی تھی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فورا اس برطرف کردیا جائے ۔ اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے ۔ اسے آپس میں سلجھانے کی کوشش کرنی چاہئے نہ یہ کہ فورا برطرف کرنے کا فیصلہ کرنا چاہئے۔

اب تک ان دونوں کو لیکر عام آدمی پارٹی میں جو گھمسان جاری ہے اس سے یہ پوری طرح صاف ہوگیا ہے کہ پارٹی میں مکمل تاناشاہی اور ڈکٹیٹر شپ کا نظام ہے ۔ جمہوریت کی نام کی کوئی چیز یہاں نہیں پائی جاتی ہے ۔کجریوال کے سامنے ہرایک بے بس ہیں ۔اس پارٹی کا اصل نام ’’اکیلے اروند پارٹی‘‘ ہے جس کا مخفف ہے’’ اے اے پی‘‘ ۔

یوگیندریادو ایک تعلیم یافتہ شخص مانے جاتے ہیں ۔ ان کے والد پروفیسر ہیں جبکہ ان کی بیوی دہلی یونیورسیٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ان کا نام بچپن میں سالم تھا جسے پانچ سال کی عمر مین انہوں نے بتدیل کرکے یوگیندر کھ لیا تھا ۔ نام تبدیل کرنے وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اسکول کے رفقاء انہیں مسلمان سمجھتے تھے ۔یوگیندریوجی سی اور آر ٹی ای کے ممبر بھی ہیں ۔ کرپشن مخالف تحریک میں وہ اناہزارے سے جڑے تھے۔ اس کے بعد پارٹی میں شامل ہوئے ۔عام انتخابات میں گڑگاؤں سے انہوں نے لوک سبھا کا الیکشن بھی لڑاتھا لیکن کامیابی نہیں ملی ۔پرشانت بھوشن پیشہ سے وکیل ہیں ۔ ان کا تعلق ایک سیاسی گھرانے سے ہے ۔ان کے والد مراری جی دیسائی کے دور حکومت میں مرکزی وزیر قانون بھی رہ چکے ہیں ۔ بھوشن مفاد عامہ کا کیس لڑنے کے حوالے سے کافی مشہور رہے ہیں ۔ کرپشن مخالف تحریک میں یہ اناٹیم کے رکن رکین تھے ۔

ان د ونوں کے ساتھ پارٹی کے ممبئی یونٹ کی سربراہ انجلی دمانیا بھی پارٹی سے استعفی دے چکی ہیں ۔ انجلی دمانیا یوگیندرکجریوال کی سب سے بڑی حامی تھیں ۔ یوگیندر اور پرشانت کو برطرف کرنے میں وہ بھی پیش پیش تھیں ۔ لیکن کجریوال کے آڈیوٹیپ کے آنے کے بعد انجلی کا اعتماد اس طرح متزلزل ہوا کہ وہ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکی اور پارٹی سے استعفی دے دیا ۔ کجریوال نے لوک سبھا انتخابات کے بعد کانگریس ممبران اسمبلی کو توڑنے کی کوشش کی تھی ۔آڈیوٹیپ کے اس سنسنی خیز انکشاف کے بعد عام آدمی کا اعتماد عام آدمی کی قیادت کا دعوی کرنے والے اروند کجریوال سے پوری طرح ٹوٹ گیا ہے ۔ آپ نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کرلیا ہے کہ واقعی کجریوال نے کانگریس ممبران اسمبلی کو توڑنے کی کوشش کی تھی اور یہ ٹیپ درست ہے۔

عام آدمی پارٹی کا اپنے بانی ممبران کے ساتھ یہ رویہ نہ صرف افسوسناک بلکہ دہلی کی دو کروڑ عوام کی امیدوں کا خون کرنے کے مترداف ہے جنہوں نے ایک نئی امید اور ایک نئے ہندوستان کی تعمیر کی خاطر دل کھول کر ان کی حمایت کی ہے ۔ ہندوستان کی ان عوام کو دھوکہ دینا ہے جو اس پارتی کے تئیں اپنی آنکھوں میں خوبصورت خواب سجا رکھے ہیں ۔ عام آدمی پارٹی میں جاری گھمسان کے درمیان یوگیند ر یادو اور پرشانت بھوشن نے پارٹی کارکنوں کے نام اپنا کھلا خط بھی جاری کردیا ہے جس سے یہ بات بالکل عیاں ہوگئی ہے کہ کجریوال کے مزاج میں تاناشاہی ہے ۔ہرکچھ وہ اپنی مرضی کے مطابق کرنا چاہتے ہیں ۔ پارٹی میں جمہوریت کے بجائے آمریت ہے وہ عام آدمی پارٹی نہیں بلکہ اکیلے کجریوال پارٹی ہے ۔
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 163793 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More