آہیں اور افواہیں

قائداعظم محمدعلی جناح ؒاورقائدعوام ذوالفقارعلی بھٹو کے بعد جوبھی فوجی آمریاسول آمراقتدارمیں آیااس نے پاکستان کوتختہ مشق،پاکستانیوں کوبیوقوف اوردونوں ہاتھوں سے خوب پیسہ بنایا۔لوٹواورپھوٹوان سب کاایجنڈا رہا ۔جہاں سیاست عبادت کی بجائے تجارت بن جائے جبکہ تجارت اورحکومت میں فرق مٹ جائے تووہاں ریاست کمزورہوتی چلی جاتی ہے۔ ان دنوں پاکستان میں ہرطرف آہوں اورافواہوں کازوروشورہے کیونکہ ہم میں سے زیادہ ترلوگ کان نہیں دیکھتے بس کتے کے پیچھے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔بے یقینی ،بے چینی ،بدگمانی اوربدامنی کاآپس میں بہت گہراتعلق ہے ۔ ہمارے ہاں باتوں کواپنے اپنے مطلب کارنگ د ینے کارواج جبکہ جھوٹ اورتعصب کاراج ہے۔ہم نے سچائی تک رسائی کیلئے جستجواورتحقیق کادامن چھوڑدیا اسلئے آسانی سے گمراہ ہوجاتے ہیں ۔جس کے پاس پوزیشن ہو اس کی اپوزیشن ضرورہوتی ہے ۔پچھلے دنوں آئی جی پنجاب مشتاق احمدسکھیرا کی تبدیلی کی افواہ اڑائی گئی مگر وہ بے بنیاد خبراخبارات کو جاری کرنیوالی نیوزایجنسی نے حکومت پنجاب یاپنجاب پولیس کے ترجمان سے ان کاموقف نہیں لیا اورنیوزروم میں بیٹھے حضرات نے بھی اپنے کرائم رپورٹرز سے رجوع کئے بغیر خبر چھاپ دی ۔ہمارے اخبارات میں پنجاب یونیورسٹی کے وی سی ڈاکٹرمجاہدکامران سمیت دانشور وں ،آئی جی پنجاب مشتاق احمدسکھیرا،سی سی پی اوکیپٹن (ر)محمدامین وینس کے حوالے سے خبر صفحہ دوپرجبکہ بدنام اداکارؤں کی خبریں رنگین تصاویر کے ساتھ بیک پیج پرشائع کی جاتی ہیں۔میڈیا اورفلم کایہ مطلب نہیں کہ وہ دکھائے جوعوام دیکھنا چاہتے ہیں بلکہ وہ دکھایا جائے جودکھانے سے عوام میں شعور بیدارہواوروہ منفی رویوں اورسرگرمیوں سے بیزارہوں۔

عداوت اورشرارت کی آڑمیں ریاست یااداروں کیخلاف سازش کرناشورش سے بدتر ہے۔پاکستان میں امن وامان کی ابترصورتحال میں اس قسم کی من گھڑت خبریں ایک سوالیہ نشان ہیں۔ملک اورمعاشرے کوبے یقینی اوربے چینی کے کینسر سے بچا نے کیلئے اس قسم کی منفی خبروں کا سدباب صرف ایک متفقہ ضابطہ اخلاق سے ہوسکتا ہے۔ من گھڑت اورمنفی خبر دینے والے عناصر کوجوابدہ بنایا جائے۔ہرغلط کام کرنیوالے کامحاسبہ ضرورہوناچاہئے خواہ اس کاتعلق کسی بھی شعبہ سے ہو ۔اس قسم کی افواہوں کے پیچھے یقینا حاسداوردشمن ہوتے ہیں مگراس کاخمیازہ معاشروں اوراداروں کوبھگتناپڑتا ہے۔جہاں تک میری معلومات ہیں آئی جی پنجاب مشتاق احمدسکھیراکی تبدیلی کادوردورتک کوئی امکان ہے اورنہ اس وقت پنجاب اس قسم کی تبدیلی کامتحمل ہوسکتا ہے ۔پروفیشنل اوراصول پرست مشتاق احمدسکھیرانے آئی جی کی حیثیت سے بلوچستان میں دہشت گردی کے سدباب کیلئے شاندارخدمات انجام دی ہیں۔ان کے تجربات اورمشاہدات سے صوبہ پنجاب کودہشت گردی کے سدباب کیلئے کافی استفادہ ہورہا ہے ،اس نازک وقت انہیں ہٹانے کاکوئی جواز نہیں بنتا۔دنیا کاکوئی حکمران یاعہدیدارسب کوخوش نہیں رکھ سکتا،پولیس کاکام حکمران اشرافیہ کوخوش یاان کی خوشامدکرنا نہیں بلکہ عوام کی حفاظت کرناہے ۔ مشتاق احمدسکھیرانے ابھی تک اپنے ٹیم ممبرز کی مشاورت سے جواصلاحات کی ہیں ان کے دوررس نتائج برآمدہوئے ہیں اورابھی مزیدہوں گے،ان اصلاحات کوثمرآوربنانے کیلئے جہاں ان کاتسلسل ناگزیر ہے وہاں اس ٹیم کوبھی مناسب وقت دیناہوگا۔ہم کرپشن کاروناروتے ہیں جبکہ سفارش اس سے زیادہ مہلک ہے ،سفارشی کلچر ختم کئے بغیربدعنوانی کے ناسور سے نجات نہیں ملے گی ۔ہرملزم رشوت دے کررہا نہیں ہوتا بلکہ زیادہ ترسفارش سے چھوٹ جاتے ہیں مگردونوں صورتوں میں پولیس بدنام ہوتی ہے۔

آئی جی پی مشتاق احمدسکھیرااورسی سی پی اولاہورکیپٹن (ر)محمدامین وینس کی طرح جوبھی ناجائزکام نہیں کرے گاان کے دشمن تو متحرک ہوں گے اوران کیخلاف اندراورباہرسے سازش بھی ضرورہوگی۔اگرپولیس فورس کو ایوان اقتدار سے فورس کرنے کاسلسلہ بندنہ ہواتواس سے آفیسرز اوراہلکاروں میں بددلی پیداہوگی اور اپنی عزت نفس کے ساتھ ساتھ اپنے ادارے کی ساکھ کوعزیزرکھنے والے آفیسرزاس ماحول اوراس سیاسی ٹیم کے ساتھ کام کرناپسندنہیں کریں گے ۔مہم جواورپراعتمادکیپٹن (ر)محمدامین وینس نے ایک چیلنج کی طرح سی سی پی اولاہورکاعہدہ قبول کیاکیونکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد پولیس میں پیداہونیوالی بے یقینی اوربے چینی کے سبب کئی آفیسر زنے توصاف انکارکردیا تھا۔کیپٹن (ر)محمدامین وینس کی طرح جوعہدوں کی طلب نہیں رکھتے عہدے ان کے پیچھے بھاگتے ہیں اوروہ اپنے کام سے انصاف کرتے ہوئے اس عہدکا درخشندہ باب بن جاتے ہیں،میں کیپٹن (ر)محمد امین وینس کی صورت میں مستقبل کاایک کامیاب آئی جی پنجاب دیکھ رہا ہوں ،ان کا پنجاب میں دورآیا توپولیس کی کایاپلٹ جائے گی۔پولیس حکام کو داخلی فیصلے کرنے اورٹیم بنانے کیلئے بھرپور اختیارات دیے بغیر ان سے رزلٹ مانگنا درست نہیں ۔آئی جی سے ایس ایچ اوتک ہرکسی کواس کے عہدے کی مناسبت سے ٹائم فریم دیا جائے ، پولیس میں اوپرسے نیچے تک بار بارتبادلے کرنے یاوردی کی تبدیلی سے تھانہ کلچرتبدیل نہیں ہوگا۔ ڈی آئی جی آپریشن ڈاکٹرحیدراشرف اورایس ایس پی آپریشن باقررضانے آپریشن ونگ کوکافی حدتک منظم اورفعال کردیا ہے۔تھانہ کلچر بدلناہے توناتجربہ کارسب انسپکٹرزکی بجائے اچھی شہرت کے حامل اورزیرک انسپکٹرز کوتھانوں میں ایس ایچ اولگایاجبکہ انہیں منشیات فروشی سمیت دوسرے سنگین جرائم کے سدباب کاٹائم فریم دیاجائے اورسیاسی دباؤپرتبادلے نہ کئے جائیں۔ سیاسی دباؤپرلگائے جانیوالے ایس ایچ اوزعوام کی بجائے اپنے سیاسی آقاؤں کے وفادارہوتے ہیں۔راناایازسلیم ایس ایس پی انوسٹی گیشن لاہورکے منصب کیلئے کیپٹن (ر)محمدامین وینس کاحسن انتخاب ہیں ،راناایازسلیم کے آنے اوراپنے مخصوص اندازمیں کام کرنے سے تفتیشی ونگ کے مردہ وجودمیں جان پڑگئی ہے۔ایس ایس پی سی آئی اے عمرورک نے سی آئی اے ونگ کومجرمان کیلئے خوف کی علامت بنادیا ہے۔اگرسی آئی اے کومزید اپ گریڈ کیا جائے تواس کی کارکردگی مزید موثرہوسکتی ہے ۔عمرورک دوران تفتیش جس طرح بال کی کھال اتارتے ہیں وہ قابل داد ہے۔آرپی اوراولپنڈی اخترعمرحیات لالیکا ،ایس ایس پی سی آئی اے لاہورعمرورک ، ڈی پی اوننکانہ کامران یوسف ملک،سی پی اوگجرانوالہ وقاص نذیر،ڈی پی اواوکاڑہ محمدفیصل رانا،سی ٹی اوطیب حفیظ چیمہ،ایس ایس پی شعیب خرم جانباز،منصورقمر،عاطف حیات ،عاصم افتخارکمبوہ ،اقبال حسین شاہ،عاطف معراج خان اور نبی بخش بٹ کی اپنے ادارے کے ساتھ کمٹمنٹ اورمجرمانہ سرگرمیوں کی سرکوبی کیلئے ان کی قابلیت قابل رشک ہے۔

پچھلے دنوں ایک وارڈن خرم نے دوران ڈیوٹی ایک شہری کاچالان کرتے ہوئے پرچی پرانسان ولدحیوان لکھ دیاتھا جوکسی بھی طرح مناسب نہیں ،اس پرایک کالم نگارنے وارڈن خرم کاموقف سنے اورسی ٹی اولاہورطیب حفیظ چیمہ کی انکوائری رپورٹ منظرعام پرآنے کاانتظارکئے بغیر ملزم خرم کومجرم ڈکلیئر کردیا۔اداروں میں گندی مچھلیوں کے وجودسے انکار نہیں کیا جاسکتا مگرکئی شہری بھی اپنے حسب نسب یاتعلقات کی بناپرسرکاری اہلکاروں کوانسان نہیں سمجھتے اوران کے ساتھ حیوانوں سے بدترسلوک کرتے ہیں،عدالتوں میں آئے روزباوردی پولیس اہلکاروں کو تشدداورتضحیک کانشانہ بنایاجاتا ہے۔ پولیس والے شہریوں پر تشددکریں یاکوئی ان پرکرے یہ دونوں صورتوں میں قابل قبول نہیں ،عدم برداشت اوربات بات پرتشدد کا کلچر معاشروں کیلئے زہرقاتل ہے۔ شہری دانستہ غلطی کے بعدڈیوٹی پرماموراہلکاروں سے الجھنااوران کی عزت نفس تارتارکرنااپنا حق اورفرض سمجھتے ہیں ۔وارڈن خرم نے مجھے فون پربتایا کہ مجھے بری طرح زچ اورمشتعل کردیا گیاتھا اورکہاگیا اگر اپنے باپ کے ہوتوجولکھوارہا ہوں وہی لکھو ،میرے بارباراصرارپرمجھے توہین جبکہ میرے ادارے اوریونیفارم کی تضحیک کی گئی ،میں اپنی توہین پرتوخاموش رہا مگرادارے اوریونیفارم کی تضحیک پر طیش میں آگیا اوروہ لکھ دیا جونارمل حالت میں کوئی وارڈن لکھنے کاتصور بھی نہیں کرسکتا۔ہمارے ہاں حیوان سمجھنا نہیں صرف لکھنا گناہ ہے کیونکہ ہم اس معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ہرطاقتورکمزورکوحیوان سمجھتا ہے۔اگرخطاء کار قابل گرفت ہے تواسے اکسانے اوربھڑکانے والے کوبھی سزادی جائے۔ کسی باوردی اہلکار پرہاتھ اٹھا نے کامطلب ایک ادارے پرہاتھ اٹھاتا ہے۔اگرکسی کلرک یاچپڑاسی کوزدوکوب کیا جائے تواس کے ساتھی اہلکار سراپااحتجاج بن جاتے ہیں اور دفاترمیں کام بندہوجاتا ہے لیکن پولیس اہلکار ہٹرتال نہیں کرسکتے اس کایہ مطلب ہرگزنہیں کہ ان کاکوئی والی وارث نہیں۔اگروارڈنزکوایک گھنٹہ کیلئے ہٹادیاجائے توپوراشہرجام اورزندگی مفلوج ہوجائے۔ہمارے ہاں لوگ ڈپریشن سے نجات کیلئے قانون شکنی کرتے ہیں اوراس پرشرم محسوس کرنے کی بجائے اپنے عزیزواقارب کے روبروڈینگیں مارتے ہیں ۔وارڈن خرم نے کہا کہ ہم بھی انسان اورہمارے بھی جذبات واحساسات ہیں کسی کوہماری عزت نفس روندنے جبکہ ہمارے ادارے کی مجموعی کارکردگی پرانگلی اٹھانے کا حق نہیں پہنچتا ۔ وارڈن خرم کے والدین دنیا میں نہیں رہے اورمسلسل کئی گھنٹوں تک شاہراہوں پرگاڑیوں کاشو ر جبکہ شہریوں کی غلطی کے باوجودان کاغصہ برداشت کرنا آسان نہیں ،اس سے اعصاب بری طرح متاثرہوتے ہیں۔مہذب ملکوں میں چالان بذریعہ ڈاک گھروں میں بھجوائے جاتے ہیں،یوں ٹریفک پولیس اورشہریوں کے درمیان تناؤیاالجھاؤنہیں ہوتا۔کیا ہمارے ملک میں یہ تجربہ نہیں کیا جاسکتا ۔سی ٹی اوطیب حفیظ چیمہ نے ایس پی صدرکواس افسوسناک واقعہ کی انکوائری کاٹاسک دیا ہے دیکھتے ہیں وارڈن اورشہری میں سے کون قصوروارنکلتا ہے ۔سی ٹی اوطیب حفیظ چیمہ نے وارڈنز کی تربیت کیلئے ایک ماہرنفسیات کاانتظام کیا ہوا ہے جومستقل بنیادوں پروارڈنز کولیکچر د یتے ہیں۔حکومت بھی شہریوں کو مفت ماہرنفسیات کی سہولت دے ۔دوران ڈیوٹی دباؤاوردھونس سے کس طرح نبردآزماہونا ہے اس کیلئے وارڈنزکو ماہرنفسیات کے لیکچرز سے بھرپورمدد ملے گی ۔سی ٹی او طیب حفیظ چیمہ ایک متحرک آفیسر ہیں اورلاہورشہرمیں گاڑیوں کی روانی اورآسانی کیلئے ان کی سرگرمیاں قابل داد ہیں۔لاہورسیاست ،سیاحت اورثقافت کامرکز ہے ۔ اس شہرمیں مذہبی ،سیاسی اجتماعات ،احتجاجی مظاہرے روزکامعمول ہیں ،سی ٹی اوطیب حفیظ چیمہ کاان چیلنجز سے نبردآزماہونا معمولی بات نہیں ۔ پولیس والے ہم میں سے اورہمارے اپنے ہیں ،ہمیں ایک خوبصورت معاشرے کی تعمیرکیلئے ان کے مسائل سمجھناہوں گے اوران کے بارے میں سوچ بدلناہوگی ،عزت کرواورعزت کراؤکااصول اپناناہوگا۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126846 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.