اپنے آپ سے

منگل کے دن محترمہ ’’لطیف جان کاکی‘‘ کا انتقال ہوا،وہ سب کے یہاں بہت عزیزتھی ،عورتوں اور بچوں میں بہت محبوب تھی،وہ کسی مدرسے کی باقاعدہ عالمہ فاضلہ نہیں تھی،لیکن وہ اپنی ذات میں ایک مکمل مدرسہ بنی ہوئی تھی، سینکڑوں بچوں ، بچیوں اور بڑی عمر کی خواتین کو انہوں نے ناظرہ،نماز ، ذکر اذکار،بنیادی عربی اور اخلاقیات کی تعلیم دی تھی،ان کا گھر محلے کی مسجد کے پڑوس میں تھا،ہماری اس مسجد اور اس کے امام خاندان کی بھی عجیب برکات ہیں،اس کے عقب میں مرحوم ’’شیخ کاکا‘‘ اور انکل سلطانؒ کے گھر ہیں،جو صلاح و تقویٰ کے پہاڑ تھے،اوپر صدق وامانت کے پیکرمیر صمدؒبمبئی والے اور بابا فضل رحیم ؒتھے ،بغل میں ہمارے والد حاجی مظفر خاں مرحوم ومغفور تھے،مسجد کے جنوب میں نادر خان اور عطاء الرحمن کے دولت کدے تھے،مغرب اور جنوب مغرب میں شعیب چاچا،شیر علی خان صاحب اور تاج خاں کاکا رہائش پذیر ہیں، اس مسجد کے چاروں طرف ان تمام پڑوسیوں کے گھروں یا بھتیجے بھانجوں میں آج حفاظ،قراء،علماء،مفتیان اور پی ایچ ڈی لیول کی اولادیں ہیں،ان میں بہت سے اس وقت حرمین شریفین میں ہیں،وہاں متنوع خدمات پر مامور ہیں،یہ مکتب کا کمال ہے یا صحبت کااثرکہ ان سب کی نیکی اور تعلیم میں لطیف جان کاکی،نیزتاج بی بی کاکیؒ،جامع مسجد اور مولانا عبد الغفور عباسی مدنی کے خانوادہ کابہت بڑا اپنا اپناحصہ اور اجرہے۔

بدھ کی رات میں جب بستر پر لیٹ گیا، تو تصورات وتخیلات کا ایک تلاطم خیز سمندر میری فکر ونظر پر چھا گیا، میں سوچتا رہا کہ ہمارے بہت سے علما ء ومشائخ، ہماری حکومتیں اور ادارے، ہماری جماعتیں اور تنظیمیں میدان ِعمل کے کار زاروں میں کیوں پیچھے ہیں؟!
ہوس نے کر دیا ہے، ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو٭اخوت کا بیان ہوجا، محبت کی زباں ہوجا

اسی طرح کے تفکرات، سوچوں واندیشوں میں پیچاں وغلطاں میں دیر تک دم بخود اور بے چینی واضطراب کی کیفیت سے دوچار رہا! میرے ضمیر نے گویا مجھ پر سوالات کی بوچھاڑ کردی تھی،……کیا ہم جمود وانحطاط کا شکار ہیں؟ اگر ہاں! تو اس کے اسباب کیا ہیں؟ افکار وخیالات کی سطحیت؟ حوصلے کی پستی وشکستگی؟ مادیت پرستی؟ حقائق سے نظریں چُرانا اور حق کی عدم جستجو؟ محنت وریاضت کی کمی؟ جاہ طلبی؟ ضیاع وقت کی عادت؟ جسم وجاں کو بیدار کرنے،روح کو تڑپا دینے اور حیات جاودانی سے مالا مال کرنے والی آہِ سحر گاہی کا فقدان؟ گفتار وکردار میں اضمحلال،مشائخ وعارفین سے قطع ارتباط وعدم صحبت؟اڑوس پڑوس کے حقوق کی پامالی؟مسجد سے لا تعلقی……؟ یا وسائل عیش ونشاط کی فراوانی؟ تن آسانی؟ فارغ البالی؟ سہولت پسندی؟ عزائم وہمتوں کا انحطاط؟ مطالعے کی قلت وبودا پن؟ باہمی تدابروتحاسد؟ تباغض؟ تکاسل؟ تعارض……؟

یا اس انجماد وانحطاط کے علل واسباب اس سے بھی عمیق، گہرے،پر اسرار اور سنگین تر ہیں……؟ ’’رہبان باللیل وفرسان بالنہار‘‘ والی مبارک زندگی پر کیا ہم کبھی دوبارہ واپس آسکتے ہیں؟ جس کے متعلق مجذوب نے کیا خوب کہا تھا:
عمر بھر ہم دن میں بلبل، شب میں پروانہ رہے

حجاز ونجد، کوفہ وبصرہ، دمشق وشام، قدیم ہند وافغانستان، قرطبہ واشبیلیہ، بخارا وسمرقند اور عراق وایران جیسے مردم خیز ملکوں نے کیسے کیسے باکمال انسانوں کو پیدا کیا، وہ کون تھے ،جنہوں نے دنیاوی اور اسلامی علوم وفنون میں اپنی مہارت، ذہانت، بالغ نظری اور عملیت پسندی سے عملی تحقیق کا وہ سکہ صدیوں تک جمائے رکھا، جس کی وجہ سے کئی نسلوں تک ان کا طوطی افق انسانیت پر بولتا رہا؟ صدیاں بیت گئیں، نسلیں گزر گئیں، لیکن ایسے عالم، ادیب، شاعر، مصنف، ریاضی دان، فلسفی، قائد اور رہنما کے نظارے پھر فلک کو دیکھنا نصیب نہیں ہوئے، ان سب نفوس قدسیہ کا اصل مقصدو پیغام ’’ہر ایک کی بھلائی ،محبت ،اخوت اور بھائی چارا‘‘ تھا، تواﷲ جل شانہ نے اپنی طرف سے زمین وآسماں والوں کے قلوب میں ان کی محبت وعقیدت بٹھادی، جیسا کہ حضراتِ انبیا علیہم السلام کے لیے باری تعالیٰ رہتی دنیامیں انسانوں کی زبانوں پر صلوۃ وسلام اور کلمات مدح جاری کیے ہوئے ہیں، آج عام لوگوں میں زمانے کی آنکھوں کو خیرہ کرنے والی ایسی باکردار شخصیات کیوں پیدا نہیں ہوتیں؟ کیا بعد والوں کی قسمت میں آہیں اور حسرتیں ہی رہ گئیں……؟
پھر نہ اٹھا کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب وگِلِ ایراں، وہی تبریز ہے ساقی

اتنے میں اچانک میرے ذہن میں یہ آیت کریمہ وارد ہوئی:﴿والذین کفروا بعضہم أولیاء بعض، الا تفعلوہ تکن فتنۃ في الأرض وفساد کبیر﴾(سورۂ انفال، آیت نمبر:۷۳)ترجمہ: اور جو لوگ کافر ہیں وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں، اگر تم (مسلمان اس طرح کی باہمی) دوستی نہیں کرو گے، تو زمین میں فتنہ اور بڑی خرابی ہوگی۔ یہی آیت ہر مسلمان کو ازبر ہونی چاہیے، بس تاقیامت یہی کافی وشافی علاج ہے، اگر کسی کے دل میں دردِ ملت ہو ،فتنہ وفسادسے اوربلاوجہ و بلا ضرورت باہمی دست وگریبان ہونے سے گریز چاہتا ہو،تو اس کے لئے یہی آیت کامل پیغام ہے۔رات کے دو بج چکے تھے، سکوت طاری تھا، ہُو کا عالم تھا،مذکورہ بالا بزرگوں کے لئے دعائیں کرتے کرتے،مسجد کے حقیقی پیغام میں سوچتے سوچتے میں نے خاموشی کے ساتھ پلٹ کر کروٹ لی، تو علامہ اقبال کا یہ شعر بے ساختہ میرے خیالات کی اسکرین پر دیر تک آویزاں رہا ؂
ہر اک چاہتا ہے کہ ہو اوج ثریا پہ مقیم
پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم
 
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 820336 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More