ایک تفریحی،تاریخی وثقافتی شو

آج کے اس تحریر میں میں اپنے ساتھ تمام قارئین کو بھی ایک تفریحی مقام پر لے جانے کی کوشش کرتا ہوں،مگر قارئین کرام پریہ بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ یہ فقط ایک تفریحی مقام نہیں بلکہ یہ ایک عظیم دینی درس گاہ بھی ہے ۔چراٹ روڈ پر واقع ’’جامعہ عثمانیہ پشاور(نیو)گلشن عمر کیمپس ‘‘کا امت مسلمہ پر بے شمار انعامات ہیں اور انہی انعامات میں سے ایک نعمت یہ بھی ہے کہ گزشتہ کئی دنوں سے اس جامعہ میں ایک شو شروع کی گئی ہے اس شو میں عجیب وغریب ،پرانے چیزوں کے ساتھ ساتھ اس میں کئی کتابی مخطوطے شامل کی گئی ہیں،جس کے نظارے کے لئے دور دور سے سیاسی وغیر سیاسی لوگ آتے رہتے ہیں اور مہمانان کرام کا یہ سلسلہ اتوار تک جاری رہے گا۔اس شو میں کئی مشہور چیزوں کے علاوہ چند مشہور جگہیں مثلاً :مزار قائد اعظم علی جناح،بادشاہی مسجد،فیصل مسجد،لال مسجد،قلعہ بالا حصار،اٹک قلعہ اور بھی ان کے علاوہ کئی جگہیں بنائی گئی ہیں۔

پچھلے دنوں غلام بلور جامعہ عثمانیہ تشریف لائے تھے ثقافتی وتاریخی شو دیکھنے کے بعد جب انہوں نے قبائی جرگہ سسٹم میں طلبائے کرام کی کارکردگی دیکھی تو بہت خوش ہوئے اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ آج مجھے پتہ چل گیا کہ مدارس میں اس طرح کے لوگ بھی ہیں کہ انہوں نے تو اپنی کوششوں سے پوری دنیا کو حیران کر رکھا ہے ہم تو بس یہ سمجھ رہے تھے کہ مدارس میں بس بہت سے طلبہ ہونگے جن کی بڑی بڑی مونچیں ہوگی،سر پر پگڑی ہوگی اور ہاتھ میں کلاشنکوف ہوگابس جب کوئی آدمی سامنے آئے گا تو اس کی زندگی کو ایک گولی کے نظر کر دیا جائے گامگر آج پتہ چلا کہ اسی مدارس سے تو محبین وطن، پشتونوں کی زندگی کے قائم رکھنے والے ،اوران عوام کے مقتدا ،پیش امام،خطیبین اور واعظین تیار ہو رہے ہیں۔

جامعہ عثمانیہ پشاور نے ایک چت تلے بہت سارے لوگوں کو جمع کیا،بہت سے امیر و غریب ،نوجون کالم نگار اور اور اخبارات کے ایڈیٹر حضراتوں کے ساتھ ساتھ بہت سے نیوز چینل والے بھی موجود تھے ہر ایک کو اظہارِ رائے کا موقع بھی دیدیا گیا،اس محفل اور شو کے قائم کرنے والے حضرات میں جامعہ عثمانیہ پشاور کے طلبہ کے ساتھ ساتھ جامعہ عثمانیہ پشاور کے اساتذہ میں سے سر فہرست دو حضرات ہیں ایک جامعہ عثمانیہ پشاور کے مہتمم، وروح رواں ،استاذی ومکرمی ،شیخ الحدیث حضرت مولا مفتی غلام الرحمٰن حفظہ اﷲ اور ان کے ساتھ ساتھ جامعہ عثمانیہ پشاور کے ناظم تعلیمات اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ناظم امتحانات استاذی ومکرمی جناب حضرت مولانا حسین احمد صاحب حفظہ اﷲ تھے۔ان حضرات کو اﷲ تعالیٰ نے ایک عجیب وغریب سوچ وسمجھ سے نوازا ہے ان حضرات کی ان تمام کوششوں اور محنتوں کا نتیجہ وثمرہ یہ ہے کہ آج کل مدارس کو ہر قسم کے الزامات کے ساتھ ساتھ خون کی ہولی کے ساتھ بھی رنگین کیا جا رہا ہے،مگر یہ سب بے ساختہ اور جھوٹ ہونے کے ساتھ ساتھ افتراء اور کذب پر مبنی ہے۔

میں نے اسی جامعہ عثمانیہ پشاور میں9 سال گزاردیے اور ایسا معلوم ہوتاہے کہ روئے زمین پر اگر امن و گہوارے کا درس دینے کی جگہ ہے تو وہ صرف مدارس ہی ہیں ،مدارس روئے زمین پرصرف ایک ایسی واحد درس گاہ ہے کہ جونئی نسل کوملک میں امن وآشتی کے گہوارے کا سبق دیتاہے۔مدارس میں ہمیں جو درس دیاگیا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے،تو یہی وجہ ہے کہ تمام معاشرہ مدارس کے علاوہ اپنی زندگی بسرنہیں کر سکتی۔

آجکل ہمارے بعض بھائی مدارس پر یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ مدارس دنیا کی لب ولہجے سے ناآشنا ہے ۔ اگر اس اعتراض پر ہم غور کریں تو یہ اعتراض بے محل ہے کیو نکہ مدارس دنیا کے ساتھ چلنے کی سکت رکھتے ہیں اور ہمیشہ دنیا کے لوگوں کی خدمت کی ہے اور جب بھی اس قوم و ملت پر کوئی آفت آٹوٹی ہے تو مدارس کے غیور اور مخلص حضرات نے اس قوم و ملت کی ہر محاذ پر مدد و معاونت کی ہے اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا مدارس نے ہمیشہ قوم و ملک کے لیے خدمات پیش کیے ہے اور جب بھی وطن عزیز پر کوئی سخت گھڑی آئی ہے تو مدارس نے کندھا دے کر ملک و قوم کو اس مصیبت سے نکالی ہے ۔ جب ملک میں سیلاب ، زلزلے اور قدرتی آفات آئی ہے تو اہل مدارس نے اس سخت آن میں مصیب زدہ لوگوں کی جانی و مالی خدمت کرکے اپنی ذمہ داریاں نبھائی ہے لیکن پھر بھی بعض نام نہاد لوگ مدار س کے نصاب و نظام پر انگلی اٹھاتے ہے اور مدارس کو دہشت گردی کے اڈے تصور کرتے ہیں، حالانکہ یہ بات غلط اور خلاف عقل ہے کیونکہ مدارس نے ہمیشہ معاشرے کو امن و آشتی ، اخوت و بھائی چارے کا درس دیا ہے اور پورے معاشرے کو ایک نقطے پر جمع کرنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ اگر پھر بھی مدارس کے فعال کردار پر کسی کو اعتراض ہے تو یہ کم فہمی اسکی ذات تک محدود ہوگی جو اتنی بڑی نظام پر انگلی اٹھاتے ہیں ۔ اگر ہمارے ارباب اقتدار تھوڑا سوچھے کہ یہ مدارس تو ملی و قومی و حدت کے لیے کام کر رہے ہیں اور معاشرے کی دینی پیاس بجھانے کے لیے سر گرم عمل ہیں ،اگر مدارس کا وجود ختم کردیا گیا تو پھر معاشرہ بہت سی روحانی بیماریوں کا شکار ہو جائے گا۔
Rizwan Ullah Peshawari
About the Author: Rizwan Ullah Peshawari Read More Articles by Rizwan Ullah Peshawari: 162 Articles with 190186 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.