الطاف بھائی ۔ توجہ فرمائیں !

الطاف بھائی۔ 17ستمبر 1953ء کو کراچی میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا مولانا مفتی رمضان حسین آگرہ یوپی کے مفتی اور جید عالم دین تھے۔ عملی سیاست کا آغاز جامعہ کراچی سے بطور طالب علم کیا۔ الطاف بھائی نے مہاجر طلبہ کو منظم کرکے 11 جون 1978ء کو آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی اور اس کے بانی چیئرمین رہے۔

بعد ازاں اس تنظیم نے اپنے دائرے کو وسعت دے کر اسے صوبہ سندھ کی سیاسی جماعت کا درجہ دے دیا اور ۱۸ مارچ ۱۹۸۴ کو مہاجر قومی موومنٹ کاقیام عمل میں آیا۔ سیاسی دھارے میں آنے کے بعد ایم کیو ایم نے اپنی توجہ کا مرکز سندھ میں اردو بولنے والے طبقوں کو بنایا۔ چونکہ کراچی اور سندھ کے کئی دوسرے بڑے شہروں میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے اس لیے ایم کیو ایم نے وہاں کی بلدیاتی ،صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر نمایاں کامیابی حاصل کرنی شروع کردی۔ جولائی 1997 میں ایم کیو ایم کا نام مہاجر قومی مومنٹ سے تبدیل کرکے متحدہ قومی مومنٹ رکھا گیا۔ جس میں صرف مہاجر سیاست سے ہٹ کر تمام مظلوم طبقوں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی بات کی گئی۔

الطاف بھائی پاکستانی سیاست کی ایک مقبول شخصیت ہیں جن کے چاہنے والو ں کی تعداد لاکھوں میں ہے الطاف بھائی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہیں لیکن وہ جمہوری حکومت میں فوج کے محدود کردار کی بھی حمایت کرتے ہیں۔

الطاف بھائی نے 1992ء کے فوجی آپریشن سے قبل ہی جلاوطنی اختیار کر کے لندن میں سکونت اختیار کر لی تھی اور اب ان کے پاس برطانیہ کی شہریت ہے۔ ایم کیو ایم کا انٹرنیشنل سیکرٹریٹ لندن میں ہے جہاں سے الطاف بھائی پارٹی کے امور کی نگرانی کرتے ہیں اور ٹیلی فونی تقاریر کے ذریعے پارٹی کارکنوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔

ایم کیو ایم کی تاریخ کو جاننے کے بعد آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ باتیں تو زیادہ تر لوگوں کو پتہ ہے پھر اس کو یہاں دہرانے کی کیا ضرورت پیش آئی۔ تو عرض یہ ہے یہ باتیں ایم کیو ایم کے ان رہنماوں اور کارکنوں کو یاد دلانے کےلئے ہیں جو شا ید یہ بھول گئے ہیں کہ اُن کے الطاف بھائی نے اس تنظیم کو پروان چڑھانے کےلئیےکتنے جتن کیے ہیں جس کو کچھ مفاد پرست طبقہ بڑی خاموشی سے ایم کیوایم کے اندر رہ کہ اس کو ختم کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔یوں تو پاکستان کی ایجنسیوں نے ایم کیو ایم کو توڑنے کی بہت کوشیشں کی ہیں مگر ایم کیو ایم کے بارے میں ایک بات ذد ِ عام ہے کہ ایم کیو ایم کو اگر کوئی توڑ سکتا ہے تو وہ خود الطاف بھائی ہیں۔کیونکہ ایم کیو ایم کی بنیادیں یونٹ سے لے کر سیکٹر تک اتنی مضبوط ہیں کہ اس کو توڑنے کےلئے الطاف بھائی جیسا ہی کوئی کرشماتی انسان چاہئے ۔ توسازشی عناصر اورمخالفین نے یہ سوچا کہ چلو کیوں نہ یہ کام ہم الطاف بھائی سے ہی کروالیں ۔اور اس کے لئے انکو امریکہ ، برطانیہ یا فرانس سے مدد نہی مانگی بلکہ اس کام کےلئے پارٹی کے کچھ رہنماء اور خاص ساتھی ہی کافی تھے جنہوں نے پارٹی کے اندر رہ کہ نہ صرف ذاتی مفاد ات حاصل کئے بلکہ بھتہ، اغوا برائے تاوان ، ٹارگٹ کلنگ اور لینڈ مافیا جیسے کام بڑی دیدا دلیری سے سب کی نظروں سے بچا کے کئے ۔کچھ رہنماوں نے تو اپنے گھر کی صفائی اور برتن دھونے سے لے کر گاڑی کی دھلائی تک یہ سب کام ایم کیو ایم کے ایک عام کارکن سے لینا شروع کردیا تھا اور اگر کوئی منع کردیتا تو پھر اس کی دھلائی بڑی طبیعت سے کی جاتی۔
کراچی کے اندر کچھ پارک اس مفاد پرست ٹولے نے یہ کہہ کر لئے تھے کہ یہاں پر کھیل کے میدان بنائیں جائیں گےجب یہ پارک ایم کیو ایم کے کی ملکیت میں آگئے تو اب نہ یہاں کوئی کھیل رہا اور نہ ہی کھلاڑی۔اب یہاں پر صرف اُن مفاد پرست رہنماوں کےدوستوں کی یا اُن کے عزیزوں کی شادی بڑے دھوم دھام سے کی جاتی ہے۔ جس کی ایک مثال نارتھ ناظم آباد بلاک آئی کا ایک مشہور گراونڈ ہے جو کہ یہی کہہ کر لیا گیا تھا اور اس کا گواہ پورا محلہ ہے کہ وہا ں اب کون سا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

ہر موڑ پہ ملتا ہے ہمدرد نیا میرے شہر میں ہیں فنکار بہت۔

اسی طرح کون نہی جانتا کہ جب ہڑتال ہوتی ہے تو کس طرح ان دکان داروں کو ڈرایا اور زدوکوب کیا جاتا ہے ۔ میرے ایک جاننے والے دکان دار سے جب بات ہوئی تو کہنے لگے کہ پچھلے ۵ سال سے میں ایم کیو ایم کو ووٹ دے رہاں ہوں اور پچھلے پانچ سالوں سے مسلسل اسی لئے پٹ رہا ہوں کہ میں ہڑتال والے دن اکثر دو گھنٹے کےلئے دکان کھول لیتا ہوں۔ اس میں کتنی حقیقت ہے اور سچائی ہے یہ جاننے کےلئے آپ کو گوگل نہیں کرنا پڑے گا بلکہ کسی بھی دکاندارسے جا کے اس کے دل کا حال پوچھ لیں۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اب اس گنگا میں دوسرے بھی ہاتھ دھو رہے ہیں ، مگر سب جانتے ہیں کہ شروع کس نے کیا تھا۔الطاف بھائی سے جھوٹی محبت جتا کر یہ مفا پرست طبقہ ایم کو ایم کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے جس کی خبر خود الطاف بھائی کواچھی طرح ہے اور اسی لئے وہ آئے دن قیادت سے سبکدوش ہونے کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ۔
جتا جتا کے محبت ، دکھا دکھا کے خلوص
بہت قریب سے لوٹا ہےمیرے دوستوں نے مجھے

الطاف بھائی سے بڑی مودبانہ گذارش ہے کہ ان تمام مسائل کا حل تب تک نہی ہوگا جب تک آپ خود پاکستان تشریف نہیں لاتے ۔ اگرکسی بھی گھرانے کا سربراء بچوں کے سر پر نہ ہو تو ان کے بگڑنے کی امیدیں زیادہ ہوجاتی ہیں۔اور یہاں تو بچے قابو سے باہر ہوچکے ہیں ۔ لہذا الطاف بھائی کو چاہئے کہ وہ کراچی نہی بلکہ پاکستان کی خاطر واپس تشریف لائیں اور ایم کیو ایم میں موجود تمام کالی بھیڑوں کو نکال کر دوبارہ ۱۹۸۴ والی ایم کیوایم بنائیں کہ جب الطاف بھائی ایک، دو ، تین بولتے تھے تو لا کھوں کے مجمعے میں میں ہو کا ہالم ہو جاتا تھا۔ خدارا کراچی کے لوگوں کامزیدامتحان نہ لیں ان تمام مفاد پرست رہنماوں اور ساتھیوں کی گردنوں سے ’سریے‘ نکالنے کےلئے خود یہاں پر آکر قیادت کو سنبھالیں اور ہم کو یہ بھی پتہ ہے کہ اگر آپ فیصلہ کرلیں تو پھر آپ اپنے آپ کی بھی نہی سنتے ۔ورنہ ایسا نہ ہو کہ ایم کیو ایم کے ساتھ جماعت اسلامی والا حال ہو اور اس کا فائدہ کوئی تیسری جماعت اٹھالے ، ویسے بھی کراچی میں پی ٹی آئی کا ووٹ بینک مضبوط ہورہا ہے جس کی وجہ صرف اور صرف ایم کیوایم میں شامل وہ کالی بھیڑیں ہیں۔ ۔
Najeeb Farooqui
About the Author: Najeeb Farooqui Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.