ہنر مند افراد ترقی کے ضامن

کسی بھی ملک کی ترقی کو اگر دیکھا جائے تو یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ اس ملک نے ترقی کی منازل اپنے ان ہنر مندوں کی وجہ سے طے کی ہیں جن کی صلاحیتوں کا عتراف کرتے ہوئے ان کو ان کا جائز مقام دیا گیا چائینہ، ترکی ،اور ملائشیا جیسے ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جنھوں نے ہم سے کم وقت میں ترقی کی وہ منازل طے کر لی جن کے بارے میں ہم صرف سوچ ہی سکتے ہیں سوال یہ ہے کہ آخر وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہم آج بھی انھیں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں جو برسوں سے اس ملک میں پیش آتی رہی ہیں تو اس کا جواب بڑا واضح ہے کہ ہم لوگ سفارشی ہیں جب بھی ہمیں کسی کام کے کرنے کا ٹاسک دیا جاتا ہے ہم سفارش ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں اور بڑی تگو دو کے بعد ہم اپنے لئے کوئی سفارشی ڈھونڈ ہی لیتے ہیں یہی حال بیورو کریسی کا ہے جب بھی گورنمنٹ سیکٹر میں کوئی ملازمتیں سامنے آتی ہیں ہر وہ شخص اس میں دلچسپی لیتا ہے جس کو نکما رہنے کا شوق ہوتا ہے اور ایسے لوگ اپنی سفارش کے بل بوتے پر وہ ملازمت حاصل کر لیتے ہیں پھر ہوتا کیا ہے کام چور اور نکمے لوگ ہمارے سروں پر مسلط کر دیے جاتے ہیں اور ہونے والے کام بھی بگڑ جاتے ہیں آپ پاکستان کے تمام ہی اداروں کا حال دیکھ لیں چند ایک کے سواء تقریبا ہر جگہ یہی صورت حال صرف اس وجہ سے ہے کہ ناہل لوگوں کو اور سفارشی لوگوں کو ان اداروں پر ناصرف مسلط کیا گیا بلکہ ان کی مدد سے ان داروں کا بیڑا غرق کر دیا گیا اور جب کھبی وہ لوگ جنھوں نے انھیں اس کام کے لئے سفارشی بن کر سلیکٹ کیا تھا ان پر بات آئی تو بڑی ٹھٹائی سے کہا کہ ہم نے تو ایسے لوگوں کو صرف روز گار دینے ک غرض سے اس کام کے لئے منتخب کیا تھا اب کوئی ان سے یہ پوچھنے کی کوشش بھی نہیں کرتا کہ جناب یہ ریاست پاکستان ہے کوئی آپ کی جاگیر نہیں کہ جسے چاہا سب کچھ دے دیا اور جسے چاہا نظر انداز کر دیا۔ سویلین بیورو کریسی موجودہ وقت میں بہت بری حالت میں ہے اور قوم کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے قابل نہیں ہے بیورو کریسی میں مطلوبہ ہنر کی بھی شدید کمی پائی جاتی ہے جسے پورا کرنے کے لئے حکومت کو نجی شعبہ سے باہنر افراد لینے پڑ تے ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ نجی شعبے سے لئے جانے والے افراد بہت محنتی اور کام کو سمجھنے والے ہوتے ہیں سویلین بیورو کریسی سے موجودہ صورتحال میں بہتر کارکردگی کی توقع نہیں کی جاسکتی یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے سول بیورو کریسی ایڈہاک ازم کا شکار رہی ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ نوے فیصد سرکاری ملازمین کو جس وقت جس کام کے لئے بھرتی کیا جاتاہے اس وقت ان کے پاس وہ ہنرنہیں ہوتا جس کے لئے انہیں مقرر کیاجاتاہے دس فیصد سے بھی کم سرکاری ملازمین ایسے ہیں بالخصوص جن کا تعلق مختلف کیڈر اور گروپس سے ہوتا ہے جنھیں باضابطہ جوائنگ سے قبل ایک سے دو سال کی تربیت دی جاتی ہے سویلین بیورو کریسی نااہل اور نالائق افسران سے بھری ہو ئی ہے یہ درست ہے کہ بیورو کریسی میں نااہل لوگ موجود ہیں لیکن جب میرٹ کے بجائے سیاسی مصلحتوں اور سفارشوں کی بنیاد پر تقرریاں اور پرموشن کی جائیں تو ایسے میں دفتری نظام کیونکر بہتر کارکردگی کامظاہرہ کر سکتاہے دکھ اور افسوس کے ساتھ کہ موجودہ حکومت نے اپنے گزرے گئے عرصے کے دوران اعلی افسروں کی تعیناتیوں اور ترقیوں کے حوالے سے جو فیصلے کئے وہ ہرگز بہتر کارکردگی کے تناظر میں درست نہیں لگتے مختلف اداروں اور محکموں کی سربراہی کے لئے سپریم کورٹ نے جو طریقہ کار مقرر کیا حکومت نے دانستہ اس سے پہلو تہی کی کیونکہ اس طرح وہ اپنی پسند کے افراد کو مقرر نہیں کرسکتی تھی یہی وجہ ہے کہ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود کئی ایک اداروں میں مستقل سربراہ قائم نہیں کئے جاسکے اور افسروں کو اضافی ذمے داریاں دے کر کام چلایا جارہاہے۔ ان سب کے باوجود یہ بات کہنا بے جا نہ ہوگا کہ باصلاحیت اور دیانتدار افسروں کی بڑی تعداد اب بھی ہمارے دفتری نظام میں موجود ہے مگر حکومت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ افراد اس کے مخصوص انفرادی جماعتی یاسیاسی مقاصد پر پورے نہیں اترتے جس کی وجہ سے حکومت ان کو اداروں کی بھاگ دوڑ دینے سے کترا تی رہتی ہے اور ان افراد کو جنھیں ہم سرکاری زبان میں (کھڈے لائن لگانا کہتے ہیں) لگائے رکھتی ہے کیونکہ اسے ڈر ہوتا ہے کہ کہیں ایسے افراد ان کی سیاسی کمزوریوں کو سامنے نہ لے آئے ایسے افراد کا تقرر نہ کرنا ناصرف ان کے ساتھ بلکہ عوام اور ریاست کے ساتھ بڑی ناانصافی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت تمام اداروں میں ہونے والی تقرریوں میں میرٹ کو یقینی بناتے ہوئے سفارش ،رشوت اور اقرباء پروری جیسے سنگین جرم کی سزا سخت کرئے ایسے باصلاحیت لوگوں کا انتخاب کرئے جو واقعتاہنر مند اور ملکی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوں اس کے لئے سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر کسی بھی ادارے میں سیاسی مداخلت کو روکا جائے کیونکہ یہی ہنر مند افرد ہیں جو ملکی ترقی کے ضامن ہیں ۔
Raja Tahir Mehmood
About the Author: Raja Tahir Mehmood Read More Articles by Raja Tahir Mehmood: 21 Articles with 13183 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.