مادری زبان کا تحفظ کیوں ضروری ؟

 مادری زبان ایک امانت ہے جونسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے۔ جب ایک نسل اپنے وارثوں میں اس امانت کو دیانت سے منتقل نہیں کرپاتی تو اسی وقت سے اس زبان کے صفحہ ہستی سے معدوم ہونے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ہم پہاڑی لوگ ہیں زبان بھی پہاڑی ، دل بھی پہاڑی اور ماحول بھی پہاڑی اور کسی قدر احساسات بھی پہاڑی ہیں۔چونکہ انسان پیدائشی طور پر ایک ترقی یافتہ مخلوق ہے۔ اس کوترقی یافتہ مخلوق سے ترقی یافتہ انسان بننے کا درجہ حاصل کرنے میں مختلف مراحل اور وسائل درکار ہوتے ہیں۔انسان جہاں پیدائش کے بعد جسمانی طور پر پرورش پاتا ہے وہیں اس کی ذہنی نشوونما بھی بتدریج بڑھتی ہی جاتی ہے۔ ذہنی نشوونما کے لیے قدرت کی طرف سے مختلف النوع ذرائع دستیاب ہوتے ہیں۔ انسان کی ذہنی نشوونما میں ’’مادری زبان‘‘ کا بھی اہم کردادر ہوتا ہے۔کیونکہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ماں کی گود بچے کی کل دنیا ہوتی ہے، اس لیے فطری طور پر بچہ وہی زبان سیکھتا ہے جو ماں بولتی ہے۔ ماں بچے کو ہنساتی ہے، لوریاں دیتی ہے، کبھی غصے میں ہوتی ہے توکبھی رلاتی بھی ہے۔ بچہ گوکہ ابھی گفتگو کرنے اور سمجھنے کے لائق نہ ہوا ہو لیکن قدرت نے انسان کے اندر ایک ایسا جذبہ رکھا ہے جو جذبہ ماں کو یک طرفہ بچے سے ہم کلامی پر آمادہ کرتا ہے۔ یہ تمام چیزیں بچے پر اثرانداز ہوتی رہتی ہیں حتی کہ جب وہ گفتگو کا اہل ہوتا ہے تو یہی ماں کی گفتگو لاشعور سے کام کرتی ہے۔ اس کی نفسیات اور بصری حافظے میں غیر محسوس طور پر ماں کی گفتگو اور اس کے اثرات محفوظ ہوتے رہتے ہیں۔اسلامی نقطہ نظر میں اسی مناسبت سے ماں کو بہت محتاط رویہ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ فنی حوالے سے بھی یہ بات جاننے کی ہے کہ ’’مادری زبان‘‘ کا اطلاق صرف ’’ماں‘‘ تک نہیں ہے بلکہ ماں جس گھر میں رہتی ہے اس گھر میں جو زبان بولی جاتی ہے ’’مادری زبان‘‘ ہے۔بدلتے سماجی حالات اور ہجرتوں والی اس نئی دنیا میں مادری زبان کے اطلاقات مزید وسعت اختیار کرگئے ہیں۔ ماں باپ کی آبائی زبان جو بھی ہو لیکن جو زبان شہر اور محلے میں، گھر میں برتی جاتی ہو وہ زبان بھی مادری زبان کہلائے گی۔ بلکہ تعلیمی اعتبار سے یہی زبان مادری ہوگی۔

انسانی زندگی میں مادری زبان کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر ہر سال 21 فروری کا دن اقوام متحد ہ کے ادارہ یونیسکوکے زیر اہتمام بین الاقوامی مادری زبان کے دن کے طور پرمنایا جاتا ہے۔ اس دن مہذب دنیا میں مادری زبان کی حوصلہ افزائی کے لیے مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ امسال 21 فروری 2015 ء کو منعقد کیے جانے والے بین الاقوامی مادری زبان کے دن کو اپنی اپنی مادری زبان کے حق میں یادگار بنانے کی ضرورت ہے۔کہتے ہیں کہ اچھی روایات کو اپنے گھرو محلے سے شروع کرنا چاہیے اس لیے ہم کچھ دوستوں نے اپنی رضارتنظیموں لائف سپورٹ اینڈ ڈیویلپمنٹ فاؤنڈیشن آزادکشمیر اور چٹکا پلیٹ فارم سے راولاکوٹ میں میڈیکل کالج کے ہال میں 21 فروری کو صبح 10 بجے سے دن ساڑھے 3 بجے تک پہاڑی بیٹھک رکھی ہے،پہاڑی زبان میں منفرد طرز کی مٹھاس ہے ،آج ہماری نسلیں اس سے دور ہو رہی ہیں اس لیے اپنی زبان کے تحفظ اور اس کو پروان چڑھانے کیلئے ہم نے ایک پہاڑی نشست کا اہتمام کیا ہے جس میں صدر آزادکشمیر یعقوب خان، صدر مسلم کانفرنس سردار عتیق خان، ممبران قانون ساز اسمبلی سردار غلام صادق،عابد حسین عابد، نجیب نقی کے علاوہ ادبی ، تعلیمی ، سماجی ، حکومتی اور سیاسی شخصیات کو شرکت دعوت دی گئی ہے ۔ گو کہ سردار اظہر ،خرم شبیر،یاسر رفیق، صنم نذیر،وسیم آزاد و دیگر منتظمین کی کوشش ہو گی کہ اس پروگرام کو نسل نو کیلئے ایک مثالی پلیٹ فارم کے طور پر سامنے لایا جائے لیکن یہ تو وقت ہی بتایئے گا کہ خواندگی میں نمبر ون کا دعویدار شہر اور اس کے باسی کس سنجیدگی سے ہمارے اس اقدام کوا پناتے یا دھتکارتے ہیں ۔

زبان کا انسانی زندگی کے ارتقاء سے بھی بہت گہرا تعلق ہے۔اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ زبان علم کے پھیلاؤ کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔انسانوں نے آپسی رابطے اورخیالات و معلومات کی ترسیل و تبادلہ کے لیے زبان کے نظام کو فروغ دیا۔مادری زبان کسی بھی انسان کی شخصیت کی تعمیر، تعلیم اور ہمہ جہت ترقی میں بنیادی کردارادا کرتی ہے۔زبانوں کی اہمیت صرف بول چال اور فہم کی حد تک نہیں ہوتی بلکہ مادری زبان کا علاقائی ادب و ثقافت کے ساتھ بھی گہرا تعلق ہوتا ہے کیونکہ کسی بھی زبان کا ادب انتہائی ہمہ گیر ہوتا ہے اور سماجی ذہن پر اس کے اثرات انتہائی لافانی قسم کے ہوتے ہیں۔ ادب کا رخ دراصل لوگوں کے ذہنوں کا رخ متعین کرتا ہے۔ اس میں مزاح، انشائیہ، خاکہ نگاری، مضمون نگاری، خطوط، ڈرامہ، داستان، ناول اور افسانوں کو شامل رکھنے کا عام رجحان ہے۔ اگر آدمی اپنی مادری زبان پر درمیانی درجے کی قدرت رکھتا ہو اور مادری زبان کے ادبی ذخیرے سے استفادہ کسی درجے میں آسان ہو تو اس کی ذہنی وسعت پذیری کا انکار نہیں کیا جاسکتاکیونکہ ایسے مزاح اور انشائیہ میں جہاں فکری پرواز کو قوت ملتی ہے وہیں خاکہ نگاری، تاریخ رفتگاں اور صالح اقدار سے روشناس کراتی ہے۔ یہ ساری باتیں اگر انسان کی اپنی مادری زبان میں ہوں تو فطری صلاحیتوں کے نکھر جانے کے مواقع زیادہ کھلتے ہیں۔ اس کے برخلاف اجنبی زبان ایک طرح کا احساس کمتری پیدا کرے گی اور اگر فخر کی نفسیات پیدا بھی ہوئی تو وہ کسی دوسری تہذیب پر فخر ہوگا اور یہ عین ذہنی غلامی ہے۔ہم کثیرلسانی سماج میں رہتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے علاقے کی زبانوں، مقامی زبان اور انگریزی پر بھی عبور حاصل کریں۔ المیہ یہ ہے کہ ہم نے اسکولوں کا معیار تعلیم بلند کرنے اور دیگر زبانوں کو سیکھنے میں مددگار ماحول تیار کرنے کی بجائے پرفریب پروپیگنڈہ پر بھروسہ کیا اوراپنے بچوں کو انگریزی اور دیگر زبانوں کے پیچھے لگا کر اصل وراثت سے دور کر دیا ۔ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو مادری زبان کے توسط سے تمام زبانیں اور علوم سکھائیں۔اپنی اولاد کے لیے ایک بہتر مستقبل کی تلاش میں ان کے حال کو قربان کرنا عقلمندی تو نہیں ہے۔
Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 59514 views Columnist/Writer.. View More