پانی کی فراہمی اور کرپشن کی کہانی

پانی زندگی ہے ۔کیونکہ پانی زندگی کی ایک اہم ضرورت ہے اس کے بغیر زندگی کا تصور محال ہے۔ زمانہ قدیم میں حضرت انسان نے بستیاں دریاوں کے کناروں پر ہی بسائیں۔اسی پانی سے کھیتیاں بھی سیراب کرتے تھے اور پینے کے لیے دریا،ندی نالوں کا پانی استمال میں لایا جاتا تھا۔اوریہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ سندھ ، دجلہ و فرات ، نیل ، گنگا اور جمنا کی تہذیبیں پانی کی ہی مرہون منت تھیں۔پانی نہ صرف انسان بلکہ جانور، پودے، پھل پھول، فصلیں، اور زمینوں کے لئے انتہائی ضروری ہے اس کے بغیر انسان چند دن میں ہی موت سے ہمکنار ہو جاتا ہے اور پانی کے بغیر زندگی بنجر اور بے آباد ہو جاتی ہے جانور اور پودے اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے پانی زندگی کا ایک نا گزیر حصہ ہے۔انسان نے پانی کے حصول کے لیے ندی نالوں،دریا ؤں کارخ کیا تو کبھی زیر زمین پانی کے ذخیرہ کو، کنواں سے باہر نکالا،یہی نہیں بارش کے پانی کو بھی بڑے بڑے گڑے کھود کر تالاب کی صورت میں محفوظ کیا جاتا تھا ۔ قدیم تہذیبوں سے لے کر آج تک یہی سلسلہ جاری ہے۔ پس طور طریقے بدل گئے ہیں ۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں آج کل پانی کی قلت کے بحران کا سامنا ہے۔ گزشتہ کئی عشروں سے آبی ماہرین بار بار خبردار کرتے چلے آ رہے تھے کہ اگر پاکستان نے آبی وسائل کے حوالے سے منصوبہ بندی نہ کی اور بڑے ڈیم تعمیر نہ کئے تو ملک میں پانی کی قلت اس حد تک بڑھ جائے گی کہ آبپاشی تو درکنار پینے کے لیے بھی پانی وافر مقدار میں دستیاب نہ ہو گا۔پانی کی اہمیت کے حوالے سے راقم نے آج جو موضوع لیا ہے ۔ وہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور حکومتی اقدامات ،عوام کی ضروریات ہے۔اس حوالے سے سب سے پہلے ہم حکومت کی ترجیحات کاذکر کریں گے۔ وزیر اعلی پنجاب شہباز شریفنے پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے منعقدہ ایک اعلی سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی کا منصوبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔اور اس منصوبے پر جنگی بنیادوں پر کام شروع کرنے کی ضرورت ہے۔اس منصوبے کے تحت صوبہ بھر میں فلٹریشن پلانٹ لگائے جائیں گے۔واضح رہے کہ اس منصوبے پر گذشتہ سال کام کا آغاز شروع ہوگیا ہے۔ اورفلٹریشن پلانٹ کی تنصیب کا کام پہلے فیز میں 20 اضلاع میں بیک وقت شروع کیا گیا۔ مگر وہی ہوا جس بات کاڈر تھا۔منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچنے سے پہلے ہی ناکام ہوگیا۔ اول تو بیشتر سے زائد اضلاع میں فلٹریشن پلانٹ کی تنصیب ہی نہیں ہوئی اور اگر کسی ضلع میں یہ فلٹر یشن پلانٹ بنے بھی تو وہ تاحال چالو نہیں ہوسکے ۔ بے کار کھڑے ہیں۔ماضی میں بھی یہی کچھ ہوا تھا جب اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کی : حکومت نے ملک بھر میں صاف پانی فراہم کرنے کا منصوبہ دیا جس کی لاگت کا تخمینہ 11 ارب روپے تھا۔اس خطیر رقم سے شہریوں کو صاف پانی فراہمی کا منصوبہ شروع کیا گیا اس منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کا آغاز کیا گیاتھا لیکن یہ منصوبہ بھی جس تیزی کے ساتھ شروع ہوا ، اسی رفتار سے بند بھی ہوا۔ بعد میں بھی آنے والی حکومت نے اس اہم منصوبہ پر کوئی پیش رفت نہ کی۔ منصوبہ کی فزیبلٹی رپورٹ کے مطابق ملک بھر کے تمام شہروں اور قصبات میں واٹر فلٹریشن پلانٹ کی تنصیب کرنا تھی۔ اس کے تحت سب سے پہلافلٹریشن پلانٹ ڈیرہ غازیخان میں لگایا گیا تھا جس کا افتتاح بھی خود پرویز مشرف نے کیا تھا۔ بعد میں بھی وفاقی دارالحکومت میں یہ فلٹریشن نصب ہوئے تھے۔ اس منصوبے میں بڑے پیمانے پر کرپشن کی تحقیقات ہورہی ہیں ۔ نیب بھی اس کو دیکھ رہا ہے۔ صاف پانی۔تمام لوگوں کے لئے ‘‘(Clean drinking water for all) کے نام سے منصوبے کے تحت ملک بھر کے چاروں صوبوں ‘آزاد کشمیر ’فاٹا اور شمالی علاقہ جات میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے فلٹر پلانٹس لگائے گئے جاناتھے۔عوام کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے لگائے جانے والے سینکڑوں بلکہ ہزاروں فلٹر پلانٹس ناکارہ ہونے کے باعث بند ہو گئے ہیں جس سے ایک طرف عوام کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی بھی بند ہو گئی ہے تو دوسری جانب ان پلانٹس میں لگائے گئے اربوں روپے ڈوب گئے ہیں۔سندھ میں فلٹر پلانٹس لگانے کا ٹھیکہ ایور گرین ‘گرین پاور ‘اور پاک اوینس نامی کمپنیوں کو دیا گیا ’پنجاب میں توصیف انٹرپرائز’اے اے فلومینک اور کے ایس پی پمپس کو ٹھیکہ دیا گیا ’بلوچستان میں سو سیف’اور ایور گرین نامی کمپنیوں کو ٹھیکہ دیا گیا ’خیبر پختون خوا ہ میں آئیڈیل ہائیڈرو ٹیک کو فلٹر پلانٹس لگانے کا ٹھیکہ دیا گیا تھا۔ماضی کی حکومت ہو یا موجودہ حکومت عوام نے چارے آج بھی پینے کے پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی ریاست اور حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے لیکن پاکستان عجیب ملک ہے یہاں صاف پانی عوام کو وافر مقدار میں دستیاب نہیں ہے۔پاکستان میں بھی زیر زمین پانی نمکین اور کھارا پانی کے علاقے بہت زیادہ ہیں۔ پنجاب میں متعدد جگہوں پر پہاڑی نمک کے قدرتی سلسلوں کی وجہ سے وہاں زیر زمین گزرنے والا پانی نمکین ہو جاتا ہے یہ پینے اور پھلوں کے استعمال میں نہیں آتا سندھ کے تقریبا ۲۸ فیصد رقبے کے نیچے صاف اور تازہ پانی موجود ہے جو نہ صرف پینے اور فصلوں کے کام آتا ہے بلکہ بعض جگہوں پر زیر زمین پانی انتہائی بلند سطح پر ہے کہ جس کی وجہ سے زمینیں سیم اور تھور کا شکار ہو رہی ہیں جبکہ بعض جگہوں پر زیر زمین پانی اتنا گہرا ہے کہ وہاں سے اس کو نکالنا بہت مشکل ہے کچھ ایسی صورت حال صوبہ سرحد اور بلوچستان میں بھی ہے۔شہر ہوں یادیہات ہر جگہ پانی ہی مسئلہ ہے۔ لوگ بوند بوند پانی کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں۔ یہاں صاف پانی صرف خرید کی جانے والی بوتل کی صورت میں حاصل ہے ( منرل واٹر) کے نام پر مہنگے داموں بوتلوں میں بیچا جاتا ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ صاف اور منرل واٹر(Miniral water) کے نام پر بیچا جانے والا بیشتر پانی بھی آلودہ پایا گیا ہے اس کا ثبوت ان بوتلوں کی محکمہ صحت کی طرف سے لیبارٹری ٹسٹوں سے بھی ہوتا ہے۔آئے روز کئی کمپنیاں سیل اور کئی کو نوٹس دیئے جاتے ہیں ۔ ان حالات کے تناظر میں واحد اور آسان ذریعہ یہی فلٹریشن پلانٹ ہیں جہاں سے عوام کو پینے کا صاف پانی میسر ہوسکتا ہے۔ہماری حکومت کو چاہیے کہ وہ شہر اور بڑے قصبات میں فلٹریشن پلانٹ کے منصوبوں کو ہر حالت میں اوروہ بھی جنگی بنیادوں مکمل کرے۔کرپشن کا راستہ روکنے کے لیے ضروری ہے کہ کمیونٹی کو ان منصوبوں کی ضروری نگرانی پر مامور کیا جائے۔جس سے یہ بھی فائدہ ہوگا کہ لوگوں کی اس پر اونر شپ بڑھے گی اور اس کی از خود حفاظت بھی کریں گے۔عوامی فائدے کے منصوبوں سے اگر عوام کو ہی دور ، رکھا جائے تو اس کے عوام کو بہتر ثمرات بھی حاصل نہیں ہوتے۔ہر ایک فلٹیشن پلانٹ کی عوامی کمیٹی بنائی جائے۔تجویز یہ بھی ہے کہ حکومت سرے سے ایک نیا محکمہ قائم کرے جو فلٹریشن پلانٹ کے حوالوں سے ہو۔پانی اگر حیات ہے تو آلودہ پانی حیات کو اموات میں بدلنے کاسبب بھی ہے۔گندہ آلودہ مضرصحت پانی نہیں بلکہ صاف شفاف پانی کب ملے گا ۔یہ سوال آج کا سب سے بڑا سوال ہے۔
Riaz Jazib
About the Author: Riaz Jazib Read More Articles by Riaz Jazib: 53 Articles with 53573 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.