خوش گمانی یاعالمی ڈرامہ

امریکی صدرباراک اوباما کے حالیہ بھارتی دورے کے متعلق اب کئی مشہورزمانہ مغربی سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے میں'' اس دورے کو جس طرح بڑھاچڑھا کر پیش کیاجارہاہے درحقیقت یہ دوملکوں کے درمیان اپنے اپنے مفادات کے حصول کیلئے ایک عالمی ڈرامے سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔اس وقت اوباماکوخوداپنے ملک میں ناکام صدرکے طورپر بڑی تنقیدکاسامناہے اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت امریکاکی قسمت کے فیصلے کہیں اورہورہے ہیں جبکہ اوبامابھارت کوسلامتی کونسل کی مستقل سیٹ کی حمائت کااعلان تو کرسکتے ہیں لیکن اقوام متحدہ کے چارٹرکے مطابق سلامتی کونسل کی مستقل سیٹ کے حصول میں درپیش قانونی مشکلات کوختم کرناان کے بس میں قطعاً نہیں''۔اقوام عالم کے ان مشہور تجزیہ نگاروں نے ''اقوام متحدہ اوردیگربین الاقوامی اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ خطے جوکسی بڑی تباہی سے بچانے کیلئے بھارت پرسفارتی اوراقتصادی دباؤ بڑھاکراسے کشمیرسے فوجی انخلاءپرمجبورکریں اوراقوام متحدہ کی زیرنگرانی کشمیریوں کوحق خودارادیت دینے کاوعدہ پوراکرے''۔

اقوام متحدہ پرامن عالم کی سب سے زیادہ ذمہ داری عائدہوتی ہے۔یہ ذمہ داری اس عالمی ادارے کی جانب سے ایفائے عہدکی متقاضی ہے مگرافسوس کہ اس ادارے نے اپنی اس انتہائی بنیادی ذمہ داری کوسنجیدگی سے نہیں لیا۔تنازع کشمیرکی اپنی ایک تاریخ ہے جسے برصغیرکی تاریخ کاہرطالب علم اچھی طرح جانتاہے۔کشمیری عوام،آزادی کی جنگ جیتنے کے قریب تھے کہ بھارت گھبراہٹ کے عالم میں یہ مسئلہ لیکراقوام متحدہ کے پاس چلاگیااوربے بنیادالزام تراشیوں پرمبنی شکائت کرکے سلامتی کونسل سے مداخلت کامطالبہ کردیا،بھارت کی شکائت یہ تھی کہ پاکستان فوجی طاقت کے ذریعے کشمیرپرقبضہ کرنا چاہتاہے،اس لئے اقوام متحدہ اس امرکی ضمانت دے کہ پاکستان ،کشمیری عوام کی مرضی کے خلاف ان پرکوئی نظام مسلط نہیں کرے۔دراصل طے شدہ تقسیم کے فارمولے کی بنیادپر مہاراجہ کشمیر،پاکستان کے ساتھ الحاق کافیصلہ کرنے کا پابند تھا۔ جوناگڑھ اورمناودرکے مہاراجوں نے تقسیم کے بنیادی اصول کی روشنی میں پاکستان کے ساتھ الحاق کافیصلہ کیاتو یہاں بھارت نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان دونوں ریاستوں پرفوج کشی کرکے ناجائزقبضہ کرلیا۔

ایک نوزائیدہ مملکت کی حیثیت میں پاکستان کواپناوجود برقرار رکھتے ہوئے ایک نئی ریاستی مشینری تیارکرناتھی ۔پاکستان کے حصے کی فوج ابھی تک وطن میں آکراپنی ذمہ داریاں نہیں سنبھال پائی تھی۔بھارت نے اپنے سائزاورسفارتی طاقت کے ذریعے سے ناانصافی کی بنیادپرتنازع کشمیرکے حل کا فارمولا اقوام متحدہ میں پیش کرکے کشمیری عوام سے حق خودارادیت کا جووعدہ کیاتھااسے طویل عرصے تک موقوف رکھااورجیسے جیسے بھارت،کشمیرپراپنافوجی قبضہ مستحکم کرتاگیا،اپنے وعدوں سے انحراف کرتاگیا۔کشمیری عوام سے بارہا وعدے کئے گئے کہ انہیں اپنے مستقبل کے فیصلے کا اختیاردیاجائے گالیکن جب وہ اپنی مبینہ ساشوں سے تمام عالمی طاقتوں کواپنے ناجائزقبضے کاحامی بناچکا تواس نے کشمیرکوہمیشہ کیلئے ہضم کرنے کے منصوبے پرعملدرآمد شروع کردیاہے۔

بظاہرکانگرس اوربی جے پی متضادپالیسیوں کی دعویدارہیں لیکن کشمیرکے معاملے پران دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ کانگرس نے بھی کشمیریوں کی جدوجہدآزادی کوفوجی طاقت کے بل بوتے پربے رحمی سے کچلا،عالمی رائے عامہ کی کوئی پرواہ نہیں کی اورپاکستان کے داخلی مسائل کافائدہ اٹھاتے ہوئے کشمیریوں کی تحریک آزادی مسلسل ناکام بنانے کی کوشش کرتارہا، بھارت نے بارہامقبوضہ کشمیرمیں نام نہاد انتخابات کراکے دنیاسے یہ منوانے کی کوشش کی کہ کشمیری عوام نے انتخابات میں حصہ لیکر بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کردیاہے لیکن نہ تو بھارتی دعوے کوکشمیری قوم نے قبول کیااورنہ پاکستان کے ساتھ ساتھ اقوام عالم کے بیشترملکوں نے آج تک اس کوتسلیم کیاہے لیکن حالات وواقعات کے ساتھ اب پوزیشن میں تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں۔

بھارت آئین کے آرٹیکل ٣٧٠کے تحت داخلی خودمختاری کی جوضمانت گئی ہے ،بی جے پی نے حالیہ انتخابات میں اسے ختم کرنے کی تجویزکومنشورکاحصہ بنادیاحالانکہ اس شق میں کشمیر کو داخلی خودمختاری دیکرتسلیم کیاگیاہے کہ اسے بھارتی ریاست میں شامل نہیں کیاجائے گا۔یہ شق ختم کرنا بھارت کی عالمی ضمانتوں کے بھی خلاف ہے ۔کشمیری عوام اورپاکستان دونوں کویہ حق حاصل ہے کہ وہ اقوام متحدہ سے اپیل کرکے بھارت کوآرٹیکل ٣٧٠ختم کرنے سے روکیں مگر اب حالات ایسے ہیں کہ نہ توپاکستان کوسلامتی کونسل میں اراکین کی مطلوبہ تعداد مل سکتی ہے اورنہ ہی کشمیری قوم کا دیرینہ اتحادقائم رہ سکے گا۔ابھی تک کشمیری قوم نے متحدہ ہو کرداخلی خودمختاری کوبرقراررکھنے کیلئے مضبوطی سے جدوجہدکی اوربلاامتیازمذہب اپنی اس خصوصی حیثیت سے دستبردارہوناقبول نہیں کیا۔مقبوضہ کشمیرمیں باربارانتخابات کے باوجودبھارت کشمیری عوام کوداخلی خودمختاری کے حق سے محروم رکھنے میں ناکام رہامگرحالیہ انتخابی نتائج کوبی جے پی اپنے حق میں استعمال کرنے کی شدت سے کوشش کر رہی ہے۔

حکمران جنتاپارٹی کادعویٰ اب یہ ہے کہ بھارتی عوام نے کشمیریوں کوداخلی خودمختاری کی جوگارنٹی دے رکھی تھی حالیہ انتخابات میں ووٹروں نے اسے ختم کرنے کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے حالانکہ بھارت کی حکومت اورنہ ہی عوام کویہ حق دیاگیاہے کہ وہ یکطرفہ طورپرکشمیریوں کی خصوصی حیثیت ختم کرکے انہیں آزادی کے حق سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محروم کردیں۔بی جے پی نے اقتدارمیں آنے کے بعدمقبوضہ کشمیرمیں جوانتخابات منعقدکرائے ان میں واضح طورسے ہندومسلم ووٹوں کومذہبی نفرت کی بنیادپرتقسیم کردیا ۔ماضی میں خودمختاری کے سوال پرکشمیری قوم اتحادکا مظاہرہ کرتی رہی اوروہاں جوانتخابات منعقدکرائے گئے ان کا بائیکاٹ کرکے ثابت کیاکہ نام نہاداسمبلیوں کوعوامی نمائندگی کاکوئی اختیارحاصل نہیں لیکن بی جے پی نے ہندومسلم نفرت کی بنیادپرووٹوں کوتقسیم کردیا۔ جموں میں ہندوؤں اورسکھوں کواکثریت حاصل ہے جبکہ وادی میں مسلمان اورلداخ میں بدھ مت کاپیروکاراکثریت میں ہیں۔

بھارت کے گزشتہ عام انتخابات میں لداخ کی نشست پربی جے پی نے کامیابی حاصل کرلی تھی لیکن حالیہ انتخابات میں لداخ اوروادی دونوں کے ووٹروں کی بھاری اکثریت نے کشمیری قوم پرستوں کے حق میں فیصلہ دیا۔نتیجے میں مقبوضہ کشمیر کی نئی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن ایسی ہوگئی کہ بی جے پی نے صرف ٢٥نسشتیں حاصل کیں جبکہ حکومت بنانے کیلئے اسے ٤٤ نشستوں کی ضرورت تھی۔کشمیری قوم پرستوں میں سب سے زیادہ نشستیں پی ڈی پی کو ملیں جن کی تعداد٢٨ہے، نیشنل کانگرس کی ۱۵اورانڈین کانگرس کا١٢نشستیں ملی ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ نئی ریاستی حکومت بنانے کیلئے بی جے پی کوساتھ ملانے کی ضرورت نہیں لیکن بی جے پی کے بغیر جوحکومت بھی بنے گی،بی جے پی کی متعصب قیادت اسے کبھی نمائندہ تسلیم نہیں کرے گی اوردہلی میں اپنی حکومت کی طاقت کااستعمال کرکے ریاستی حکومت کیلئے کام کرنامشکل بنادے گی۔

پی ڈی پی نے بہت کوشش کی کہ اس کی اکثریتی حیثیت کو تسلیم کرکے اسے وزارتِ اعلیٰ مل جائے لیکن بی جے پی جو سازش کے تحت ریاستی اسمبلی میں داخل ہوئی ہے ،وزارتِ اعلیٰ اپنے پاس رکھنے پر بضد ہے،یوں اس نے بی جے پی کے بغیرریاستی حکومت کی تشکیل کوناممکن بنادیااورہندو،غیر ہندوکاسوال کھڑاکرکے ریاست میں گورنرراج کے نفاذکااعلان کر دیا ۔مقبوضہ کشمیرمیں کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین بزرگ رہنماء جناب سیدعلی گیلانی،میرواعظ عمر فاروق اوردیگرحریت پسندرہنماؤں نے مقبوضہ کشمیر میں گورنرراج کے نفاذ کونان ایشو قراردیتے ہوئے کہاکہ:بھارت کے اس اقدام سے کشمیریوں کوکوئی فرق نہیں پڑتا۔مقبوضہ کشمیرمیں نام نہادکٹھ پتلی انتظامیہ ہویاپھرگورنرراج،مقبوضہ علاقے کے معاملات بھارت ہی چلاتاہے۔جب تک بھارت مسئلہ کشمیرکواقوام متحدہ کی قراردادوں یعنی کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کے انتظامات نہیں کرتا،جموں وکشمیرمیں حکومتوں کی تبدیلی ایک بے سود مشق ہے۔ گورنر راج کانفاذکشمیریوں کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتا۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ حریت رہنماء اورمقبوضہ کشمیرکے رائے دہندگان کی اکثریت نے ہرعام انتخابات کابائیکاٹ کرتے ہوئے بھارت سرکارسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں استصواب رائے کامطالبہ کیاہے۔یہی وجہ ہے کہ عام انتخابات کے موقع پرمقبوضہ وادی میں رائے دہندگان کی اکثریت ووٹ ڈالنے کی بجائے بھارت سرکارکے غاصبانہ اور غیرقانونی قبضے کے خلاف پرزوراحتجاج کرتے ہیں۔اس موقع پرنام نہادانتخابات کاعمل پوراکرنے کیلئے بھارت سرکار کو مقبوضہ وادی کے ایک کونے سے لیکردوسرے کونے تک کرفیو نافذکرناپڑا۔مقبوضہ وادی شائدخطے کاوہ واحدعلاقہ ہے جہاں پولنگ کے روزبھی شہروں کے شہرفوج کے حصارمیں ہوتے ہیں اورکڑاکرفیونافذکیاجاتاہے۔

واضح رہے کہ نام نہادالیکشن کے دوہفتوں بعدبھارت سرکارنے مقبوضہ کشمیرمیں گورنرراج نافذکرکے براہِ راست نئی دہلی سرکارکے ماتحت کردیاہے۔اس اقدام کامقصد دنیاکویہ باورکرانا مقصودتھاکہ مقبوضہ وادی بھارت کااٹوٹ انگ ہے اورنئی دہلی سرکارکے ذریعے سے وادی پراپنے غیرقانونی اورغیراخلاقی تسلط کوبرقراررکھنے کیلئے کسی بھی قسم کاوحشیانہ اقدام کر سکتی ہے۔اس طرح مقبوضہ وادی میں انتخابات،انتخابی عمل کے دوران میں جمہوریت،انتخابات اورجمہوری عمل پریقین رکھنے کادعویٰ کرنے والی دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کااصل چہرہ عالمی برادری کے سامنے بے نقاب ہوگیاہے۔ ڈھونگ انتخابات کے بعدبھارتی سرکارکی جانب سے ١٩جنوری تک نئی حکومت کاقیام عمل میں نہ لائے جانے کی صورت میں گورنرراج نافذکرنے کاعندیہ دیاتھالیکن اس عمل اورمقررہ تاریخ سے قبل ہی گورنرراج نافذکردیاگیا۔نئی دہلی سرکاراورصدربھارت مکھرجی نے اگراین وہرہ کو سرکاری طورپرمقبوضہ کشمیرکے اختیارات سنبھالنے کی اجازت دینا تھی تومقبوضہ وادی میں انتخابات کاٹانک رچانے کی کیا ضرورت تھی؟دراصل بی جے پی کی متعصب حکومت پہلے سے ہی طے کرچکی تھی کہ اکثریت نہ ملنے کی صورت میں وہ گورنرراج کے ذریعے وادی کاانتظام وانتصرام چلائے گی جوکہ یقیناآنکھوں میں دھول جھونکنے کی ایک بھونڈی سازش کے سواکچھ نہیں۔

یہ امربھی قابل ذکرہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیرکے نگران وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے ٨جنوری کواستعفیٰ دے دیاتھا،ان کے استعفیٰ کی وجہ سے ایک ایسے سیاسی بحران نے جنم لیاجس کے باعث نئی دہلی سرکارکومقبوضہ وادی میں گورنرراج کے نفاذکااعلان کرناپڑا۔یہ امربھی قابل ذکرہے کہ ١٩٨٨ء میں جب تحریک آزادی اپنے عروج پرتھی تواس دورکی بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیرمیں گورنرراج نافذکیااورگورنرکوکالے قوانین پربے دریغ عمل درآمدکے اختیارات دیے،جب سے اب تک کسی نہ کسی بحران سے مقبوضہ کشمیرکے عوام براہِ راست نئی دہلی سرکارکے کٹھ پتلی گورنروں اورتابع مہمل وزرائے اعلیٰ کے غیرجمہوری مظالم کانشانہ بنے ہوئے ہیں۔ مقبوضہ وادی میں اصل حکومت وادی پرناجائزمسلط قابض ٨لاکھ بھارتی غاصب افواج کے افسران واہلکاران ہی کی ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کی بدترین پامالی کے مظاہرگزشتہ ٢٧برسوں سے سامنے آرہے ہیں اوروادی ایک بنداورمحصور علاقہ بن چکی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکام نے آزاددنیا کے غیرجانبدارصحافیوں ،سیاحوں اوراین جی اوزکے کارکنوں کیلئے مقبوضہ کشمیرکوسرکاری سطح پرعلاقہ ممنوعہ بناکر رکھاہواہے۔

ارباب خبرونظرجانتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیرکے گورنراین این وہرانے نئی حکومت معرضِ وجودمیں آنے تک عمرعبداللہ کو نگراں وزیراعلیٰ رہنے کیلئے کہاتھاتاہم انہوں نے نگراں وزیر اعلیٰ کے عہدے سے دستبرداری میں ہی عافیت جانی۔ ٹوئٹرپرعمرعبداللہ نے لکھاکہ کل وقتی وزیراعلیٰ ہی ریاست کے عوام کے مفادات کی تکمیل کرسکتاہے۔یہ امرپیش نظررہے کہ عمر عبداللہ٢٠١٤ء کے انتخابی نتائج کے منظرعام پرآنے کے بعدمستعفی ہوگئے تھے لیکن انہیں ریاستی گورنراین این وہرہ نے نئی حکومت بننے تک نگراں وزیراعلیٰ رہنے کیلئے کہاتھا۔اسی دوران نریندرمودی نے گورنرراج کی سمری پر دستخط کرکے اسے فوری طورپرایوانِ صدربھیج دیا۔واضح رہے کہ مقبوضہ ریاست میں سیاسی حریف پاورشیئرنگ اتحاد بنانے میں ناکام رہے۔

یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ ریاست میں٢٣دسمبرکانام نہاد انتخابات کے نتائج کااعلان کیاگیاجس کے تحت کوئی جماعت ٤٤/ارکان کی مطلوبہ اکثریت حاصل نہ کرسکی ۔عمرعبداللہ کو بھی اپنی جماعت کے انتخابی نتائج سے ایک سیاسی دھچکالگا، ان انتخابات کے بعدپیپلزڈیموکریٹک پارٹی اوروزیراعظم نریندر مودی کی جماعت بی جے پی میں پاور شیئرنگ فارمولاطے نہ پا سکا ،چھوٹی جماعتوں سے بھی اتحادنہ ہوسکا۔یہ امربھی لائق توجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیرمیںہونے والے انتخاب کوبی جے پی کووہ اہمیت اورکامیابی نہ مل سکی جس کی نریندر مودی کوامیدتھی لہنداسمجھاجاسکتاہے کہ کشمیریوں کی جدوجہدآزادی میں تیزی نے بھارت کوسخت پریشانی میں مبتلا کررکھاہے۔بھارتی حکام اس غلط فہمی میں مبتلاہیں کہ شائدوہ گورنرراج کے نفاذکے ''آزمودہ''ہتھیارکااستعمال کرکے کشمیری حریت پسندوںکی جدوجہدکے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرسکیں گے مگرپھربھی خوش گمانی سے کام لیتے ہوئے اقوام متحدہ سے یہی توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ حالیہ انتخابات کے نتائج سے کسی بھی غلط فہمی میں مبتلاہو گی۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 351084 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.