اٹھتے ہیں حجاب آخر۔۔۔۔۔

وطن عزیز پاکستان کی پاکیزہ فضائیں گزشتہ ایک دہائی سے دہشتگردی کے ہاتھوں خاک وخون سے مکدر ہیں ۔آئے روز دہشت گردی کے واقعات قوم کو جانی و مالی نقصان سے ہمکنار کرتے ہیں ۔ کچھ نادیدہ قوتیں پاکستان کو صفحہ ٔ ہستی سے نیست و نابود کرنے کے در پہ ہیں اوراپنے عزائم کی تکمیل کے لیے وہ اس قسم کی کاروائیاں کر رہی ہیں ۔ ان نادیدہ قوتوں کی خوش نصیبی ہے کہ انہیں اسی مٹی سے ننگ دین ننگ وطن لوگ مل جاتے ہیں جو ان کے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لیے اپنے ہی وطن کے کوچہ و بازار کو اپنے ہی بھائیوں کے خون سے رنگ دیتے ہیں ۔ ان نادیدہ قوتون کو بے نقاب کرنا اور ان کو عبرت کا نشان بنانا ہمارے ارباب اختیار کی ذمہ داری ہے ۔پے در پے دہشت گردی کے واقعات کے نتیجے میں ایوان حکومت کے درو دیوار ہل جانا چاہیے تھے اورحکمرانوں کو خواب غفلت سے بیدار ہو جانا چاہیے تھا مگر صد افسوس کہ مقتدر طبقہ ابھی تک اس مرض سے گلو خلاصی کے لیے سنجیدہ نظرنہیں آتا ۔

١٦ دسمبر کے سانحہ ٔ پشاور نے جہاں قوم کو شدید صدمے سے دوچار کیا وہاں قومی یکجہتی نے امید کی ایک اور کرن بھی پیدا کر دی ۔اس واقعے کی شدت و حدت نے اہل قلب و نظر کو اس مرض کہن سے نبرد آزما ہونے کے لیے آمادہ و تیار کیا ۔ ہر سیاسی و مذہبی جماعت نے اپنے نظریات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف حکومت سے اپنے تعاون کا اعادہ کیا اور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے آخری حدوں تک جانے کا عزم کیا ۔ سدا جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کو بھی فوجی عدالتوں کے قیام کا کڑوا گھونٹ حلق سے اتارنا پڑا۔ اس سانحے کے بعد یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اب محلوں کے مکیں بھی جاگے ہیں اب اس مسئلے کا کوئی خاطر خواہ حل نکلے گا مگر افسوس کہ عملی طور پہ ایسا دکھائی نہیں دیتا۔ قوم کے ہر طبقے اور ہر سیاسی گروہ نے اس مسئلے سے نجات کے لیے دست تعاون دراز کیا ۔ اس میں دینی جماعتوں ، سیاسی جماعتوں ، فوج اور نجی تنظیمات نے اپنے تعاون کی یقین دہانی کرائی ۔ طے یہ ہوا کہ دہشتگردون سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹا جا ئے ۔ اور کوئی بھی رعایت نہ دی جائے ۔ لیکن جب قانون سازی کا مرحلہ آیا تو لبرل طبقے کی طرف سے دوہرے معیار کا ایک عظیم الشان مظاہرہ سامنے آیا۔ اس موقع کو غنیمت جان کر سیکولر جماعتوں نے دہشت گردی کو مذہبی طبقے سے جوڑنے کی کوشش کی ۔ اکسویں ترمیم کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے دہشتگردون کے خلاف اختیارارت میں اضافہ کیا گیا ہے اور دہشت گردی کے مقدمات کو فوجی عدالتوں میں چلانے کا فیصلہ ہوا لیکن ساتھ ہی دہشتگردی کے ساتھ لفظ مذہبی کاسابقہ لگا کر عجیب تفریق پیدا کر دی گئی ۔ اب وطن عزیز کی سرزمین پہ اگر کوئی شخص مذہبی لبادے میں انسانی جانوں سے کھیلے گا تو زیر عتاب آئے گا اور اگر وہی عمل سیکولرازم، علاقائیت ، لسانیت یا کسی بھی غیر مذہبی چھتری کے تحت کرے گا تو اسے استثناء حاصل ہو گا۔ یعنی مذہب کا نام استعمال کیے بغیر ہر قسم کے رقص ابلیس کی اجازت ہے۔

اہل سیاست کا یہ دوہرا معیار سمجھ سے بالاتر ہے ۔یہ وہی بائیں بازو کی لبرل جماعتیں ہیں جو طالبان سے مزاکرات کے لیے آمادہ نہیں تھیں اورنہ ہی ان کے لیے کسی بھی قسم کا نرم گوشہ قبول کرتی تھیں لیکن دوسری جانب یہی جماعتیں بلوچستان میں پاکستان کی ریاست کے خلاف برسرپیکار بلوچ باغیوں سے مذاکرات کی حامی ہیں ۔اسی طرح دیہی سندھ میں ڈاکو راج ہے اور شہری سندھ بھی دہشت گردی کی شدید لپیٹ میں ہے۔لیکن یہ لبرل جماعتیں وہاں پہ فوجی آپریشن کا مطالبہ نہیں کرتیں ۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ قبائلی علاقوں میں جاری شورش کے لیے فوجی کاروائی کو ہی حل تصور کیا جاتا ہے تو بلوچستان ، سندھ اور کراچی میں دہشتگردی سے مقابلہ کرنے کے لیے نہتے عوام کوتنہا کیوں چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ وجہ صرف یہ ہے کہ طالبان کی عسکریت پسندی نے مذہبی لبادہ اوڑھ رکھا ہے جبکہ دیگر شورشیں غیرمذہبی رنگ رکھتی ہیں ۔حالانکہ دونوںں دہشتگردی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔اکیسویں ترمیم کے منظورہونے کے بعد تو ایسا لگتا ہے جیسے اسکا اصل مقصد ہی لبرل دہشت گردوں کو قانونی آڑ فراہم کرنا ہے ۔

کراچی میں امن و امان قائم کرنے کے لیے سپریم کورٹ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحقیقاتی رپورٹ کے نتیجے میں حکومت کو ہدایات جاری کیں جس میں چند تنظیموں کو نامزدکر کے کہا گیا ہے کہ ان کے عسکری شعبہ جات ہیں جو دہشتگردی میں ملوث ہیں لہذا ان تنظیموں کے خلاف کاروائی کیجائے ۔ یہ سب لبرل سیاسی جماعتیں تھیںجن میں سر فہرست ایم کیو ایم تھی۔ حکومت نے ان کے خلاف آپریشن میں لیت و لعل سے کام لیا۔ اکیسویں ترمیم کے بعد ان تنظیموں کو دہشت گردی کرنے کا گویا لائسنس مل گیاہے ۔

سانحہ ٔ پشاور میں 150 انسانی جانیں لقمۂ اجل بنیں تو ان سیاسی جماعتوں نے کہرام مچایااور مذہبی جماعتوں اور دینی ادارون کا گھیراؤ کرنے کی تجاویز حکومت کو پیش کر دیں۔ایم کیو ایم نے تو جماعت اسلامی پر پابندی جیسے مطالبات بھی پیش کیے۔ کچھ اداروں نے تو اپنی کارکردی دکھانے کے لیے کچھ کتابوں کو بھی شدت پسندی سے منسلک کر کے ان کے بیچنے والوں کے خلاف کاروائی کر ڈالی ۔ ان کتب میں شیخ عبدالقادر جیلانی کی تصانیف بھی شامل ہیں ۔دوسری جانب جب کراچی میں ہمارے قانون نافذکرنے والے ادارے جب بھی کسی مجرم پہ ہاتھ ڈالتے ہیں تو یہی امن کی دعویدار ایم کیو ایم شور مچا دیتی ہے کہ اس کے کارکنوں کے خلاف کاروائی کیجارہی ہے ۔ کوئی حکومتی ادارہ ان سے یہ تو پوچھے کہ آپ کے کارکن جرائم میں ملوث کیوں ہیں ۔ دو برس قبل کراچی بلدیہ ٹاؤن کی ایک فیکٹری میں آتشزدگی سے 257 افرادجل کر لقمۂ اجل بن گئے تھے۔ تمام قوم نے اس سانحے کو حادثہ سمجھاتھااور ذمہ داران کے تعین کی بحث بھی ہوئی۔ فیکٹری کے مالکان ، ملازمین ، اور کچھ سرکاری ملازمین کو عدالتی کاروائی بھی بھگتنا پڑی لیکن اب یہ حقیقت آشکارا ہوئی ہے کہ یہ محض حادثہ نہیں تھا بلکہ 257 افراد کا بیہیمانہ قتل تھا۔ قاتل گرفتار ہے اور خود بیان دے چکا ہے ۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تفتیش کے بعد آنے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملزم کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے۔ اور یہ گھناؤنا جرم صرف اس لیے کیا گیا ہے کہ اس فیکٹری مالک نے بھتہ ادا نہیں کیا تھا۔یہ انسانی جانوں کے ضیاع کے لحاظ سے سانحہ ٔ پشاور سے بھی بڑاواقعہ تھا۔ ایک ہی رپورٹ ایم کیو ایم کو دو جرائم بھتہ اور دہشتگردی کا مرتکب قرار دے رہی ہے ۔لیکن ایک جانب تو حکومت خاموش ہے تو دوسری جانب سیکولرطبقے نے ایسے چپ سادھ لی جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔

وقت نے بہت جلد چہروں سے خوشنما حجاب اٹھا دیے ہیں اور ان سیکولر اور لبرل جماعتوں کا اصل چہرہ آشکار ہو گیا ہے ۔لیکن دوسری جانب حکومت خاموش تماشائی بنی بے بسی کا اظہار کر رہی ہے ۔ایک طرف تو ان سیاسی جماعتوں کے ایما پر مداس دینیہ کے خلاف کاروائی کرنے کی منظوری دی گئی ہے تو دوسری جانب ان دہشتگرد تنظیموں کی قیادت کے نام پر یونیورسٹیاں قائم کی جارہی ہیں ۔ قوم یہ پوچھنے کا استحقاق تو رکھتی ہے کہ ان یونیورسٹیوں میں کس چیز کی تعلیم دی جائے گی ۔اب حکومت کے کاندھوں پہ بھاری ذمہ داری ہے کہ حقیقت آشکار ہونے کے بعد ان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف بلاتفریق کاروائی کی جائے ۔یہ حکومت وقت کے لیے کڑا امتحان ہے کہ وہ ان عناصر سے مقابلہ کرے اور ملک کو دہشتگردی کے ناسور سے نجات دلائے ۔ ہم تو دعا کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمارے پیارے دیس کی نیاکو دہشتگردی کے منجھدار سے نکال کر امن کے ساحل پہ لگا دے۔آمین۔
 

Raja Muhammad Attique Afsar
About the Author: Raja Muhammad Attique Afsar Read More Articles by Raja Muhammad Attique Afsar: 83 Articles with 90968 views Working as Assistant Controller of Examinations at Qurtuba University of Science & IT Peshawar.. View More