سر فروشی ہے ایمان تمارا

کھڑ کھڑاتے پتوں نے چپ سادھ لی تھی شام کی چڑیاں بے قرار ہوکر حمد و ثنا میں مصروف تھی۔ 31 دسمبر کا آخری سورج درختوں کی اوٹ سے اپنی سرخ انگارہ آنکھوں کے ساتھ رخصت ہورہا تھا کہ سرد ہوائيں برہنہ رقص کررہی تھی میں نے پوچھا کیسے تلاش کرتی ہوں۔ کہنے لگی گزرنے والے پورے سال کے 365 دن میں ہونے ہولی تلخیوں کو اپنی بکل میں لیے جارہی ہوں۔ جن کے ساتھ جینا مرنا تھا ساتھ چلنے کی قسمیں کھا رکھی تھی۔ وہ جو گلشن کی بہار رونق تھے۔ جنہیں ابھی کھلنا تھا کھل کر مہکنا تھا۔ جنہیں کل ملک کی بھاگ دوڑ سبنھلنا تھی۔ وہ بن کھلے ہی مرجھا گے۔ جن کے دامن میں محبت اخوت یکجہتی تھی۔

سانحہ پشاور کو ایک ماہ سے اوپر ہوچکا ہے۔ شہدہ کا چہلم بھی ہوچکا ہے، سولہ دسمبر کا سورج بڑی آب و تاب سے اپنی بھر پور رعنائیوں کے ساتھ طلوع ہوا تھا۔ جاڑوں کا پہرا تھا،، حسب معمول بچے کلکاریاں مارتے مائوں سے لیپٹ کر علم کی روشنی سے فیض یاب ہونے کی تیاریوں میں مصروف تھے مائيں اپنے جگر گوشوں کو ناشتہ کرا کر دیوانہ وار چومتی سینے سے لگا کر رخصت کررہی تھیں، ننھے پھولوں اور انکے والدین کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک قیامت انکی منتظر تھیں، دس بجے کے قریب اسکول پر حملہ کیا گیا قیامت ڈھا دی گئیں۔ وحشت اور بربریت سے انسانیت کا سینہ چھلنی کردیا گیا۔ عرش و فرش دہل گئے۔ انسانیت کو ختم کردیا گیا۔
ننھے پھولوں کو تاگ تاگ کر نشانہ بازی کی گئیں بچوں کو گلولیوں سے بھونا گیا پیشانیوں کو داغا گیا بستوں اور علم کی کتابوں کو ٹھوکریں ماری گئیں۔ علم کی شمع کو گل کیا گیا۔ ماں کی ممتا اور باپ کی بپتا کو لہولہان کردیا گیا۔ ننھے پھولوں اور اسٹاف سمیت 145 لوگوں کو زںدگی کی رعنائیوں سے محروم کردیا گیا۔ ڈیڑھ ماہ پہلے آرمی پبلک اسکول گل و گلزار کی مانند کھلتا تھا۔ جہاں بہار کا سماں ہوتا تھا۔ جہاں زندگی کی رعنائیاں رقص کرتی تھیں، جہاں مستقبل کے سہانے خواب آنکھوں میں سجائے جاتے تھے۔ واپسی پر مائيں منتظر رہتی تھی کہ لاڈلہ آنکھوں کا تارا گھر آتے ہی ادائے بے نیازی سے اپنے بیگ ڈریس پھینکے گا۔ ناز برداری کرائے گا۔ مگر کسی کو کیا پتہ تھا بچے اسکول سے جنت چلے جائے گے کہ انکے اوپر آج قیامت ڈھا دی جائے گی۔ مائوں کی گودیں اجاڑ دی جائے گی۔ انکے ننھے پھولوں کو مسل دیا جائے گا۔

ان ننھے شہید پھولوں کا اتحاد ملن تو دیکھوں جب دشمن علم کے پروانوں کو بجھا رہا تھا تو یہ پھول ایک دوسرے کے مزید قریب ہوتے گے۔ کسی کا سر اپنے ساتھی کے سینے پہ جا گرا کسی کا چہرہ اپنے دوسرے ساتھی کے منہ پہ بکھر گیا۔ کوئی اپنے عزیز کے دوست کے خون میں تر ہوگیا۔ دوسری جانب تاریخ میں ٹیچروں کو بچوں کی حفاظت میں ڈھال بنتے دیکھا گیا۔ وہ چیخ چیخ کر کہتی کہ ہمارے سینے چھلنی کردو مگر ہمارے مستقبل کے معماروں کو چھوڑ دو۔ یہ اس ملک کے معمار ہیں اپنے والدین کے اثاثے ہیں، اپنی قوم کا سرمایہ ہیں، یہ اس وطن کے پاسبان ہیں۔ یہ اس ملک کا روشن مستقبل ہیں۔ مگر ان درندوں نے انسانیت کا چہرہ نوچ ڈالا۔ معصوم ٹیچروں کو گولیوں سے چھلنی کیا پھر انکی لاشوں کو آگ لگائی اور ان میں معصوم پھولوں کو بے دردی سے پھینکا گیا۔

جہاں زندگی مسکراتی تھیں وہاں صف ماتم بجھ چکی تھیں۔ چیخیں تھیں۔ خون میں لت پت فرش تھا۔ دیواروں پر لال دھبے فضائوں نے بارود کا لبادہ اوڑھ لیا تھا۔ چاند کو آنسوں کی جھڑی لگ چکی تھیں۔ ستارے بجھ چکے تھے۔ سورج نے چپ سادھ لی تھی تاریخ کی آنکھوں سے یہ ہولناک منظر دیکھا نہیں جاتا تھا۔ قسمت کی ماری مائیں چیختی چلاتی اسکول کی جانب دیوانہ وار ڈورتی لاشوں کے انبار تھے۔ مائوں کی چیخیں تھی آسمانوں کی وسعتیں تھیں۔ زمیں پھٹ چکی تھی آسماں ہل چکا تھا۔ ہر ماں کو اپنے دل کا ٹکڑا اسٹریچر پر خون میں لت نظر آتا۔ اندر سے ڈاکٹروں نرسوں کی سسکیاں سنائی دیتی، مائوں کی دینا اجڑ چکی تھی۔ ننھے شہدہ جام شہادت نوش کرتے گئے تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہوتے گے۔ یہ معصوم شہدہ ہمیں محبت اخوت بھائی چارگی اور یکجہتی کا درس دیتے گئے کہ ہم زندہ بھی ساتھ تھے۔ اور فنا ہوکر بھی ساتھ ساتھ امر ہورہے ہیں۔

اب تو میرے دیس میں دہشت کا راج رہتا ہے۔ کہیں تدریس گاہوں کو مقتل بنا دیا جاتا ہے۔ کہیں درس گاہوں کو کہیں اللہ کے مقدس گھر کو کہیں سر بازار اور کہیں سڑکیں مقتل کاہیں بن جاتی ہیں۔ شہر قائد میں روز پانچ دس افراد کو موت کے گھاٹ اتارنا روز کا معمول بن چکا ہے۔ معصوم لوگوں کو راہ چلتے بے دردی سے قتل کردیا جاتا ہے۔ 16 دسمبر کو مائوں کی گودوں کو اجاڑا گیا۔ ٹھیک ایک ماہ بعد 17 جنوری کی رات ہم رونی دست شفقت سے محروم ہوگئے۔ ہمارے پیر و مرشد مکلی شریف ٹھٹہ کے الحاج سید قاسم علی شاہ بخاری کے سجادہ نشین الحاج سید نور بنی شاہ بخاری اس دنیا سے رحلت فرما گئے۔ دسمبر جنوری نے جاتے جاتے ہمیں نایاب و قیمتی اثاثوں سے محروم کردیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہر زخم بھر جاتے ہیں۔ مگر کچھ زخم ایسے ہوتے ہیں۔ جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھی ہرے رہتے ہیں، بھرنے کا نام نہیں لتیے۔ زندگی پر گہرے نقش چھوڑ جاتے ہیں-

ننھے شہدہ نے دشمنوں کو بھی واضح پیغام دیا کہ دیکھوں ہمارا ساتھ جینا مرنا تھا۔ اور اب جام شہادت بھی اکٹھے نوش کررہے ہیں۔ یہ ننھے پھول ہمارے بہادر فوجی جوان جو ملک ملت اور مادر وطن کی حفاظت کرتے کرتے مرتبہ شہادت پر پہنچ چکے ہیں۔ سانحہ پشاور کے شہدہ نے پوری قوم کو متحد اور یکجا کردیا ہے۔ اپنی آنے والی نسلوں کو بھی یہ پیغام دے گئے ہیں کہ مادر وطن کی حفاظت کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے گریز نہیں کرنا۔ سول سوسائٹی اور شہدہ کے لواحقین کی جانب سے تمام سانحہ پشاور کے شہدہ اور پاک مسلح افواج کے تمام جوان جو دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں جام شہادت نوش کرنے والوں کو نشان حیدر سے نواز جائے۔ کیونکہ یہ تمام شہدہ ہمارے قومی ہیرو ہیں۔ یہ وطن کے سجیلے جوان قوم کے زندہ نشان ہیں۔
اے وطن کے سجیلے جوانوں
میرے نغمے تمہارے لیے ہیں
سر فروشی ہے ایمان تمہارا
جراتوں کے پرستار ہوں تم
تم پہ جو کچھ لکھا شاعروں نے
اس میں شامل ہے آواز میری
Mohsin Shaikh
About the Author: Mohsin Shaikh Read More Articles by Mohsin Shaikh: 69 Articles with 55284 views I am write columnist and blogs and wordpress web development. My personal website and blogs other iteam.
www.momicollection.com
.. View More