ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ ۔۔۔

جب سے شعور کی آنکھیں کھولی ہیں یہ ایک جملہ سن رہا ہوں کہ پاکستان تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے - زندگی کی تین دہائیاں گذار چکا ہوں مگر نازک دور ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ترقی تو درکنار تنزلی کی طرف بڑی تیزی کے ساتھ ہم رواں دواں ہیں - لڑکپن میں اہل عقل و دانش سے یہ جملہ اکثر سنا کرتا تھا کہ ہم ترقی یافتہ قوموں سے لگ بھگ پچاس سال پیچھے ہیں مگر آج یوں محسوس ہورہا ہے کہ ہمارا اور مہذب ترقی یافتہ اقوام کے مابین کئی سوسال کا فاصلہ ہے - ہمارے ہاں اسقدر اخلاقی گراوٹ پائی جاتی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی نہیں پائی جاتی تھی ۔ وطن عزیز کے حالات کئی دہائیوں سے تنزلی کی طرف گامزن ہیں جبکہ دیگر اقوام کے حالات ہم سے کئی گنا زیادہ برے تھے مگر چند سالوں میں انھیں مشکلات کے بھنور سے نکلتے ہم نے جاگتی آنکھوں سے دیکھا ۔ چین سے ترکی تک - جاپان سے ملائشیا تلک کی تاریخ پر طائرانہ نگاہ دوڑائیں تو آپ میرے مؤقف کی تائید کریں گے کہ قوموں کی زندگی میں دس یا بیس سال بہت ہوتے ہیں اور اسی عرصہ میں قومیں قدموں پر کھڑی ہوجاتی ہیں ۔ ہم نے قدموں پر کھڑے کیا ہونا تھا ہم رینگتے ہی رہتے تو کہیں نہ کہیں ضرور پہنچ جاتے باشرطیکہ ہماری سمت درست ہوتی اور راہنما دیانتدار ہوتے ۔ مگر شومئی قسمت سے نہ سمت درست ہے نہ راہبر مخلص ہیں تو ایسے میں ہمارا مقدر مسائل نہ ہوتے تو اور کیا ہوتا ؟ پاکستان مسلسل سانحات سے گذر رہا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ اس سانحے کے بعد ہمارے راہبران اپنا قبلہ درست کرلیں گے مگر میں ہر بار یہی کہتا ہوں کہ ناممکن ہے ان جگاڑیوں میں اہلیت ہی نہیں درست سمت کا تعین کرنے کی ۔ سولہ دسمبر کو سانحہ پشاور ہوا سیاستدانوں کے ڈھولچی میڈیا نے نوید سنائی کہ ساری قومی قیادت ایک پیج پر آگئی ہے اب ٹرننگ پوائنٹ آچکا ہے اب ہماری قیادت درست سمت کا تعین بھی کرے گی اور جراتمندانہ فیصلے بھی کرے گی - بدقسمتی سے مجھے رتی برابر ان جگاڑیوں سے توقع نہ تھی نہ ہے ۔ سانحہ پشاور سے ٹھیک اڑتالیس دن بعد سانحہ شکارپور نے انکے اتفاق رائے والے پیج کو فیتی فیتی کردیا ۔ پاکستان سانحات سے گذرتا رہے گا اسوقت تک جب تک قیادت میں تبدیلی نہیں آتی ۔ تبدیلی کا نعرہ لیکر بھی سیاسی جماعتیں میدان میں اتری ہوئی ہیں مگر اتنی بڑی تبدیلی لانا انکے بس کی بات بھی نہیں ۔ کیونکہ انکے دامن میں بھی کارتوس وہ ہیں جو چل چکے ہیں ۔ تبدیلی مجھے اور آپکو لانی ہوگی ۔ ہر فرد کو تبدیلی کا آغاز اپنے آپ سے کرنا ہوگا ہمیں اپنے رویے بدلنے ہوں گے ۔ ووٹ دیتے وقت ہمیں روایتی کرپٹ سیاستدانوں کی بجائے دیانتدار افراد کو ترجیح دینی ہوگی ۔ عام آدمی کو اپنی سوچ بدلنی ہوگی کہ چھڈو جی میرے ایک ووٹ سے کیا ہوگا ۔ ہرایک فرد اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ایک ووٹ کی کمی کسی لیڈر کو عرش سے فرش پہ اتاردیتی ہے اور ایک ووٹ کی زیادتی کسی لیڈر کو فرش سے عرش پہ پہونچادیتی ہے اسی لئے قوم کا ہر ایک شخص اپنے آپ میں اہم ہوتا ہے ۔ آپکو ہر صورت باریوں کے گھن چکر کو توڑنا ہوگا اگر اپنی آئندہ نسلوں کی بقا چاہتے ہو ۔ موجودہ جگاڑی خاندانوں کے لئیے سیاست ایک بزنس ہے - کوئی ملک و قوم کی خدمت کا بخار نہیں انھیں ، انھیں گر کوئی حرص ہے تو صرف مال بنانے کی ۔ یہ وہ گدھ ہیں جو ملکی وسائل کو باری باری نوچ رہے ہیں مگر انکے شکم بھرنے کا نام نہیں لے رہے - شائد قبر کی مٹی انکے شکم بھر دے گی جیتے جی تو حوس انکی ختم ہونے والی نہیں ۔ کیا یہ حالات یکدم آسمان سے اُتر آئے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ ہم خود کو ان حالات سے بری الذمہ ہرگز قرار نہیں دے سکتے۔ ہم بحیثیت قوم اس منافقت اورنفرت بھرے ماحول کے ذمہ دار ہیں۔ ہم اپنی اس مسلسل غفلت اور خودغرضی کے باعث اِن حالات کی سنگینی میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔ ہر فرد کو اپنے آپکو بدل کر اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا ۔ کیونکہ
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 173311 views System analyst, writer. .. View More