میں چپ رہا تو مجھے مار دے گا میرا ضمیر

تعصب کی دنیا تاریک ہی رہتی ہے، چونکہ تعصب خود بھی تاریک ہے اور تاریکی کا باعث بھی ہے۔ ہٹ دھرمی کے آنگن میں تحقیق کا سورج اپنی کرنیں نہیں بکھیرتا۔ دنیا کہیں سے کہیں پہنچ جائے لیکن متعصب اور ضدی شخص جہاں ہوتا ہے وہیں کھڑا رہتا ہے۔ ہمارے ہاں پاکستان کو بنے کتنے ہی سال ہوگئے۔۔۔!؟ اس دوران صرف ہمارے ہاں ہی کتنی تبدیلیاں آئیں؟ کتنی حکومتیں ٹوٹیں، کتنے وزراء مارے گئے، کتنے تخت ڈوب گئے، کتنے بے گناہ تختہ دار پر جھولے، کتنے مارشل لا لگے۔۔۔ الغرض پلوں تلے کتنا پانی بہہ گیا۔۔۔ لیکن آج بھی ہمارے ہاں کا متعصب شخص اپنی جگہ پر جوں کا توں کھڑا ہے۔ جاہلوں کا تعصب اپنی جگہ لیکن تعلیم و تحقیق اور مطالعے و مباحثے نے ہمارے ہاں کے پڑھے لکھے شخص کا بھی کچھ نہیں بگاڑا۔ حقائق سے غافل اور جاہل شخص جب تعصب کرتا ہے تو وہ اپنے مخالف عقیدے یا نظریے کے خلاف بغیر سوچے سمجھے ڈٹ جاتا ہے، لیکن جب ایک پڑھا لکھا اور صاحب مطالعہ تعصب کرتا ہے تو وہ کسی ایک نظریئے، مکتب یا گروہ کے خلاف کھڑا نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنی ہی “…فطرت سلیم” کے مقابلے میں کھڑا ہوجاتا ہے۔ ایسا شخص اپنی معلومات، تحقیق اور اپنے ہی ضمیر کے خلاف ڈٹ جاتا ہے۔ جب تک ہمارے معاشرے میں اپنی ہی ”فطرت سلیم” اور اپنے ہی ضمیر کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے لوگ موجود ہیں، اس وقت تک ہمارا معاشرہ دھوکے کھاتا رہے گا، زخم سہتا رہے گا، چیختا اور بلبلاتا رہے گا۔ ظلم، رشوت اور کرپشن کی چکی میں پستا رہے گا لیکن کسی لانگ مارچ، کسی دھرنے یا کسی کانفرنس سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

کوئی تبدیلی آبھی کیسے سکتی ہے، جب ہمارے ہاں شب و روز ایک طبقہ لوگوں کے لئے سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید بنا کر پیش کرنے میں مسلسل مصروف ہے۔ ایک ایسا طبقہ جو گالی گلوچ، لڑائی جھگڑے، فتنہ و فساد اور خون خرابے کو دین اسلام بناکر پیش کرتا ہے۔ جو بے گناہوں اور معصوم بچوں کے قاتلوں کو داد دیتا ہے، جو طالبان کو “امام حسینؑ” کا پیروکار کہتا ہے۔ جو داعش کو مجاہدین اسلام کہتا ہے۔ جو دہشت گرد ٹولوں کو سپاہِ اسلام کہتا ہے اور جو حزب اللہ لبنان پر کیچڑ اچھالتا ہے۔ ایک ایسا طبقہ جو معلومات بھی رکھتا ہے، ریسرچ اور تحقیق سے سروکار بھی رکھتا ہے اور قلم و کاغذ اس کا اوڑھنا بچھونا بھی ہے۔ ایسے طبقے کی طرف سے حق و حقیقت کے برعکس عمل کرنے اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کو “ضمیر کے خلاف ڈٹ جانے” کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

دنیا میں جہاں دیگر طبقات کے درمیان جنگ جاری ہے وہیں زندہ ضمیر، مردہ ضمیر اور اپنے ہی ضمیر کے خلاف ڈٹ جانے والے طبقات کے درمیان بھی ایک کشمکش اور جنگ جاری ہے۔ اگرچہ ہمارے قومی میڈیا میں زندہ ضمیر طبقے کی تعداد کم ہے لیکن نسل در نسل اس کا قیام مسلسل ہے۔ انسانی دنیا میں اپنے ضمیر کے خلاف ڈٹ جانے سے بڑھ کر اور کوئی رات نہیں ہوسکتی۔ ہماری قومی دنیا میں آج جہاں شب زادے اس رات کی تاریکی میں اضافہ کر رہے ہیں، وہیں فرزندان صبح بھی مشعل فروزاں بن کر اس رات کو بے نقاب کئے جا رہے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ تعصب کی رات کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں ماضی کی طرح آج بھی ہماری نئی نسل سرگرم ِ عمل ہے۔ ہماری نئی نسل میں ایک روشن نام ہمارے محترم دوست سجاد بلوچ کا بھی ہے۔ انہوں نے ظلم اور رات کے دکھ کو اپنی کتاب ہجرت و ہجر میں کچھ اس طرح سے بیان کیا ہے:
کہاں زمیں کے ضعیف زینے پہ چل رہی ہے
یہ رات صدیوں سے میرے سینے پہ چل رہی ہے

مردہ ضمیری کے خلاف اسی علم بغاوت کو تھامے ہوئے ٹیکسلا سے تعلق رکھنے والے ہمارے عہد کے نوجوان شاعر رئیس عباس کہتے ہیں:
وہ اب تقاضائے بیعت نہیں کرے گا کبھی
اسے خبر ہے میرا حرفِ لا قیامت ہے
کمال فیصل نے تو دو مصرعوں میں منظر کشی کی انتہا ہی کر دی ہے ملاحظہ فرمائیں:
تحیّر کا یہ عالم ہے کہ جس کو دیکھ کر گزریں
پلٹ کر دیکھئے تو دوسرا محسوس ہوتا ہے
مردہ ضمیر اور ضمیر کے خلاف ڈٹے ہوئے طبقے کے خلاف برسر پیکار لوگوں میں سے ایک نام رانا سعید دوشی کا بھی ہے۔ جن کا کہنا ہے کہ
کہاں کسی کی حمایت میں مارا جاوں گا
میں کم شناس! مروّت میں مارا جاوں گا
میں مارا جاوں گا پہلے کسی فسانے میں
پھر اس کے بعد حقیقت میں مارا جاوں گا
میں چپ رہا تو مجھے مار دے گا میرا ضمیر
گواہی دی تو عدالت میں مارا جاوں گا

یاد رہے کہ ظلمت شب کے خلاف نسلِ نو میں پائے جانے والے غم و غصے کے اظہار کے چند نمونے آپ کے سامنے صرف اس لئے پیش کئے ہیں تاکہ ہمیں یاد رہے کہ اس معرکہ حق و باطل میں ہمارے ارد گرد بہت سارے ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے اپنے طور پر مردہ ضمیروں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔

وہ طبقہ جو گالی گلوچ، لڑائی جھگڑے، فتنہ و فساد اور خون خرابے کو دین اسلام بنا کر پیش کرتا ہے۔ جو بے گناہوں اور معصوم بچوں کے قاتلوں کو داد دیتا ہے، جو طالبان کو “امام حسینؑ” کا پیروکار کہتا ہے، جو داعش کو مجاہدین اسلام کہتا ہے، جو دہشت گرد ٹولوں کو سپاہِ اسلام کہتا ہے اور جو حزب اللہ لبنان پر کیچڑ اچھالتا ہے۔ آئے روز اس طبقے کو چھوٹے موٹے کالموں کے ذریعے جواب دینے کے بجائے اس کا مقابلہ کرنے کا اس وقت ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے ارد گرد موجود باضمیر افراد کی زبان کھولیں، انہیں اس مردہ ضمیری کی طرف توجہ دلائیں اور اپنے ملک میں ایک مثبت اور بڑی تبدیلی کے لئے تعصب کے خلاف فکری طور پر ایک زنجیرِ وحدت کو تشکیل دیں۔ یاد رکھیے! جب تک ہمارے دانشمند طبقے میں پائے جانے والے تعصب کا مقابلہ ہم نہیں کرتے، اس وقت تک ہمارے ہاں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آسکتی۔ چونکہ تعصب خود بھی تاریک ہے اور تاریکی کا باعث بھی ہے۔
 نذر حافی
About the Author: نذر حافی Read More Articles by نذر حافی: 35 Articles with 30037 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.