بیوروکریسی بمقابلہ وزارت۔۔۔آخر کیوں

شیخ شرف الدین سعدی ؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ملک مصر میں پرانے وقتوں میں ایک غریب آدمی کے دوبیٹے تھے دونوں بڑے عقل مند پڑھائی میں بہت تیز اور محنتی تھے ان میں سے ایک دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملک کا حاکم اعلیٰ بنا اور روپیہ پیسا کمانے کے بعد عیش و عشرت کی زندگی گزارنے لگا جبکہ دوسرے بھائی کا لگاؤ دین کی طرف زیادہ تھا اس لیے وہ دینی تعلیم حاصل کر کے بڑا عالم بنا ۔امیر حاکم بھائی کو پیسے کا غرور تھا اور وہ اپنے بھائی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا تھا ایک دفعہ دونوں مل بیٹھے تو امیر بولا تم بھی میری طرح اعلیٰ تعلیم پاتے تو آج تمہارا بھی ایک مقام ہوتا اور تمہیں بھی لوگ جانتے میری طرح لوگ تمہاری بھی عزت کرتے ۔دوسرا بھائی جو عالم دین تھا کہنے لگا اقتدار میں آکر تم خود کو ناجانے کیا سمجھ بیٹھے ہو میں نے اپنی زندگی کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا ہے عزت اور ذلت رب کے ہاتھ میں ہے میرا علم تو پیغمبروں کی میراث ہے اور تم فرعون اور قارون کے جانشین ہو۔

قارئین آزادکشمیر کے اقتدار کے ایوانوں میں بہت سے تماشے ہوتے رہتے ہیں ان تماشوں کی کچھ خبریں سینہ گزٹ کے ساتھ سفر کرتے ہوئے عوامی حلقوں تک پہنچتی ہیں اور کچھ خبریں بریکنگ نیوز بن کر میڈیا کی زینت بن جاتی ہیں روز ازل سے ہی اﷲ تعالیٰ کے سرکش اور باغی حکمرانوں کی مختلف حرکتیں تاریخ کا حصہ بنتی رہی ہیں اور جو لوگ اپنے اقتدار کو دائمی سمجھتے تھے وہ خاک بستر میں جا سوئے ہیں اور مٹی کے ساتھ مل کر مٹی ہو چکے ہیں ناجانے کیوں یہ انسان خود کو اس قدر با اختیار اور طاقتور سمجھتا ہے کہ اپنی زندگی میں اس کا چلن ایسا ہوتا ہے کہ گویا اس نے اس دنیا سے جانا ہی نہیں ہے سکندر مقدونی سے لے کر ہٹلر تک بڑے بڑے فاتح اس دنیا میں گزرے اور اپنا اپنا رول ادا کر کے چلے گئے جاتے ہوئے ان کے ہاتھ خالی تھے اور دنیاوی جاہ و حشم دنیا میں ہی رہ گیا اور منزل حقیقی کی جانب انہیں خالی ہاتھ جانا پڑا پاکستان کی تاریخ کو پڑھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے بعد اس ملک میں ایک جسمانی اور ذہنی طور پر مفلوج انسان غلام محمد کو اقتدار کی کرسی پر کٹھ پتلی بنا کر بٹھایا گیا اور یہ صاحب اس قدر رنگین مزاج تھے کہ ان کا موڈ درست رکھنے کے لیے ایک انتہائی خوبصورت سوئس نژاد خاتون کو ان کی سیکرٹری کے طور پر رکھا گیا بڑی سے بڑی بات پر جب غلام محمد کا موڈ خراب ہوتا تو یہ الپسرا ان کا موڈ درست کر دیتی ان کے بعد ایک ایسے فوجی جرنیل بھی اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوئے کہ ان کے دور حکومت میں ایوان صدر عیاشی کا اڈا بن گیا اور پاکستانی فلمی اداکار ترانہ جب ان سے ملنے رات کے وقت ایوان صدر کے دروازے پر پہنچیں تو انہیں گارڈز نے کچھ دیر روکا اور اندر سے اجازت ملنے کے بعد انہیں اندر جانے کی اجازت دی جب وہ ’’ضروری کام ‘‘کرنے کے بعد ایوان صدر سے باہر نکلیں تو جاتے ہوئے جن گارڈز نے انہیں روکا تھا انہوں نے ترانہ کو سلوٹ مارا اداکارہ ترانہ نے حیران ہو کر پوچھا کہ آتے ہوئے تو آپ نے مجھے دروازے پر روکے رکھا اور اب جاتے ہوئے سلوٹ کیوں مار رہے ہیں اس پر گارڈز کے ترجمان نے تاریخی جواب دیا کہ آتے ہوئے آپ صرف ترانہ تھیں اور اب جاتے ہوئے ’’ قومی ترانہ ‘‘ ہیں ۔زیادہ دور مت جائیے حال ہی میں جنرل مشرف المعروف طبلے والی سرکار کے دور حکومت میں بھی بڑی بڑی اداکارائیں ایوان صدر میں داد عیش دینے اور رقص و سرود کی محفلیں سجانے کے لیے آیا کرتی تھیں رہی بات ہمیشہ ہنسنے اور مسکرانے والے سابق صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری کی تو ان کی رنگین مزاجی کے قصے شہید بی بی بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار اقتدار کے دنوں میں بہت مشہورہوئے اور قومی میڈیا پر یہ بات رپورٹ ہوئی کہ ’’ مرد اول ‘‘ ملکی اور غیر ملکی دوروں میں مختلف اداکاراؤں اورحسیناؤں کو اپنے ساتھ رہنے کا شرف بخشتے رہتے تھے آزادکشمیر میں بھی آج کل ایک ایسی زبردست حکومت موجود ہے کہ جو ’’ آرٹ اور آرٹسٹ ‘‘ کے متعلق زبردست ریکارڈ رکھتی ہے شرط یہ ہے کہ یہ دونوں صنف نازک سے تعلق رکھتے ہوں یہ سب سیاق و سباق آپ کے سامنے رکھنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ کالم میں جو ایک چھوٹی سی بات آپ کے پیش نظر ہم کریں گے اس کا بیک گراؤنڈ آپ کے سامنے آجائے میڈیا پر آنے والی رپورٹس کے مطابق وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید کی ناک کے ’’ سب سے بڑے اور چہیتے بال ‘‘پرنسپل سیکرٹری فیاض عباسی پر سینئر وزیر چوہدری محمد یاسین نے اس وقت تھپڑوں کی بارش کر دی جب ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں فیاض عباسی نے چوہدری یاسین کی گفتگو کے دوران مداخلت کرنے کی کوشش کی میڈیا پر یہ بات بھی رپورٹ ہوئی ہے کہ اس میٹنگ میں وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اور چیف سیکرٹری عابد علی بھی موجود تھے او ر انہوں نے فیاض عباسی کی گوشمالی ہونے کے دوران بیچ بچاؤ کرانے کی کوشش کی لیکن ’’ سیز فائر ‘‘ کرواتے کرواتے چوہدری یاسین نے فیاض عباسی کو صوفے پر گرا کر ان پر کافی سارا تشدد کر ڈالا ۔اس واقعہ کے بعد پورے آزادکشمیر میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی دیگر تفصیلات کے مطابق فیاض عباسی نے ایس پی مظفرآباد کو ایف آئی آر درج کروائی اور اسلام آباد روانہ ہو گئے چوہدری یاسین کے قریبی حلقوں کے مطابق فیاض عباسی نے مختلف معاملات پر چوہدری یاسین کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ان معاملات پر میٹنگ کے دوران ان کی حمایت کریں گے لیکن جب میٹنگ شروع ہوئی تو چوہدری یاسین نے بات کرنا شروع کی اور اپنے مطالبات پیش کیے تو فیاض عباسی نے مبینہ طورپر انکے موقف کی مخالفت کر دی ۔وعدہ خلافی اور عہد شکنی پر چوہدری یاسین پہلے تو حیران رہ گئے اور پھر طیش میں آکر انہوں نے ’’ ضرب و تقسیم ‘‘ کا قاعدہ اور کلیہ استعمال کر ڈالا ۔میڈیا پر یہ بات بھی رپورٹ ہوئی ہے کہ چوہدری یاسین ایک سینئر سیکرٹری فیاض اختر چوہدری کی گریڈ 22میں ترقیابی چاہتے تھے ،او ایس ڈی بنائے گئے سیکرٹری برقیات و ہائیڈرل پاور منیر قریشی کی بحالی چاہتے تھے اور چند دیگر مطالبات پر بات کر رہے تھے یہاں ہم اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے کہ ان کے مطالبات جائز تھے یا ناجائز تھے لیکن دو باتیں ضرور کہنا چاہیں گے کہ اگر فیاض عباسی نے چوہدری یاسین نے اجلاس سے پہلے ہونے والی نجی میٹنگ میں ان کے مطالبات کی حمایت کرنے کا وعدہ کیا تھا تو انہیں وہ وعدہ پورا کرنا چاہیے تھا اگر ان کے مطالبات ناجائز تھے تو وعدہ ہی نہیں کرنا چاہیے تھا اور اگر میٹنگ کے دوران فیاض عباسی نے عہد شکنی کر ہی دی تھی تو چوہدری یاسین کو ضبط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے تھا اور ایک سینئر بیوروکریٹ پر اس طرح تشدد کر کے ایک ناپسندیدہ روایت قائم نہیں کرنی چاہیے تھی بر سبیل تذکرہ یہ کہتا چلیں کہ اگر چوہدری یاسین کی اس حرکت کو ہم جائز قرار د ے دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام کے لیے بھی چوہدری یاسین کی سنت قابل پیروی ہو گی کہ انتظامیہ سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی سرکاری پُرزہ اگر عوامی خواہشات کے مطابق کام نہ کرے تو اس پر ہاتھ اٹھایا جا سکتا ہے کسی بھی معاشرے میں اس طرح کی حرکت کو کوئی بھی ہوش مند انسان درست قرار نہیں دے سکتا ۔یہاں بقول چچا غالب ہم یہ کہتے چلیں
کل کے لیے کر آج نہ خست شراب میں
یہ سو ء ظن ہے ساقی ء کوثر کے باب میں
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخی ء فرشتہ ہماری جناب میں
جاں کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دمِ سماع
گروہ صدا سمائی ہے چنگ و رباب میں
رو میں ہے رخشِ عمر ،کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں
اتنا ہی مجھ کو اپنی حقیقت سے بعد ہے
جتنا کہ وہم غیر سے ہوں پیچ و تاب میں
اصلِ شہور و شاہد مشہور ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
ہے مشتمل نمودِ صور پر وجود بحر
یاں کیا دھرا ہے قطرہ و موج و حباب میں
شرم اک ادائے ناز ہے اپنے ہی سے سہی
ہیں کتنے بے حجاب کہ ہیں یوں حجاب میں
آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیشِ نظر ہے آئنہ دائم نقاب میں
ہے غیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوذ ،جو جاگے ہیں خواب میں
غالب ندیم و دوست سے آتی ہے بوئے دوست
مشغول حق ہوں ،بندگیء بو تراب میں

قارئین اس سب واقعہ کے بعد آزادکشمیر کی بیورو کریسی شدید ترین احتجاج کر رہی ہے اور ایک سینئر بیوروکریٹ پر ایک حاضر سروس سینئر وزیر سیاستدان کی طرف سے ہاتھ اٹھائے جانے کے واقعہ کو سول سوسائٹی بھی پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھ رہی دوسری جانب وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے مسئلہ کے حل کے لیے ہمیشہ کی طرح ’ ’ ایک کمیٹی ‘‘ تشکیل دے دی ہے جس میں چار وزرا اور چار سیکرٹری شامل کیے گئے ہیں یہ کمیٹی دونوں فریقین کا موقف سننے کے بعد معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائے گی چوہدری یاسین سینئر وزیر ہمارے اچھے دوست ہیں اور اکثر اوقات ہمارے ان سے گپ شپ ہوتی رہتی ہے اسی طرح پرنسپل سیکرٹری فیاض عباسی بھی ہمارے ان چند پسندیدہ آفیسران میں شامل ہیں کہ جن سے گفتگو کر کے ہمارے شوق محفل آرائی کی تسکین ہوتی ہے ہماری دعا ہے کہ اﷲ کرے کہ یہ دونوں شخصیا ت کہ جو ریاست کے دو ستونوں کی نمائندگی کر رہی ہیں صلح صفائی کرنے کے بعد اپنے اصلی کام یعنی عوامی مرمت معاف کیجئے گا ’’ عوامی خدمت ‘‘ کا فریضہ دوبارہ سے انجام دینا شروع کر دیں ۔آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
سردار جی نے بڑے بڑے بالوں والی ایک بکری خریدی اور گھر لا کر اپنے بیڈ روم کی چارپائی کے ساتھ باندھ دی سردار جی کی بیوی کہنے لگی
’’ سردار جی بدبو کا کیا ہو گا ‘‘
سردار جی نے بے نیازی سے جواب دیا
’’ اوئے کوئی گل نہیں جلد ہی عادی ہو جائے گی ‘‘

قارئین بد قسمتی سے آزادی حاصل کرنے کے بعد آج تک پاکستان و آزادکشمیر کے اقتدار کے ایوانوں سے بدبو کے علاوہ آج تک کچھ برآمد نہیں ہوا اور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ عوام احتجاج کرنے کی بجائے اس بدبو کی عادی ہو چکی ہے

Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 336284 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More