پاک امریکہ اسٹرٹیجک مذاکرات کی اہمیت

9/11کے بعد دہشت گردی کے خلاف جو عالمی جنگ شروع ہوئی تھی اس میں پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ کا درجہ دیا گیا۔ مجبوری تھی یا وقت کا تقاضا پوری قوم کو اس جنگ میں جھونک دیا گیا۔ جس کی قیمت آج بھی ہم چکا رہے ہیں۔ وطن کا کونہ کونہ چھلنی ہے۔ گلی کوچے غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔ یہ جنگ امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملوں کے بعد شروع ہوکر افغانستان تک پہنچی،پھر وہاں سے اس نے پاکستان کا رخ اختیار کیا اور آج دس سال سے بھی زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ہمارے مختلف شہروں میں اس کے شعلے بلند ہورہے ہیں۔ ہماری افواج اور شہریوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بہت سے افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ۔ معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ان حالات میں پاک امریکہ تعلقات میں بھی بہت سے موڑ آئے۔ مشرف حکومت نے امریکی جنگ میں قوم کو جھونکا اور پھر امریکہ کے ساتھ ہی ہمارے بہت سے معاملات میں بھی اختلافات پیدا ہونا شروع ہوگئے۔ کبھی ڈومور کی رٹ سے پاکستان پر دباؤ ڈالا گیا تو کبھی ڈرون حملوں سے اس کی سرحدوں کو پامال کیا گیا۔کبھی پاکستان کی نیت پر شک کیا گیا اور کبھی کسی گروپ کے بارے میں نرم گوشہ اختیار کرنے کا وہم پالا گیا۔ اس غیریقینی صورتحال کا فائدہ بہت سی دوسری قوتوں نے بھی اٹھایا اور دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیوں کی خلیج کو مزیدگہرا کرنے کی کوشش کی۔ بہرحال ان تمام اختلافات اور غلط فہمیوں، رویوں اور اتارچڑھاؤ کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کا سلسلہ کبھی ٹوٹا نہیں ۔ دونوں کے درمیان مسلسل اسٹرٹیجک مذاکرات ہوتے رہے جن میں خطے کی صورتحال اور مسائل پر غور کے ساتھ ساتھ اختلافات اور غلط فہمیوں کے ازالے میں بھی کافی مدد ملی۔

امریکی وزیرخارجہ جان کیری کا حالیہ دورہ پاکستان اور اسٹرٹیجک مذاکرات کی اہمیت اس حوالے سے زیادہ تھی کہ یہ ایسے وقت میں ہوئے جب بھارت لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے حوالے سے بھی پاکستان پر جھوٹے الزامات عائد کررہا ہے۔اسی طرح افغانستان میں نئی سیاسی قیادت وجود میں آچکی ہے۔ اشرف غنی افغان صدر کا قلمدان سنبھالنے کے بعد دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعاون کو فروغ دینے پر زوردے چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کے صوبہ کنڑ اور نورستان سے دہشت گردپاکستان میں حملے کررہے ہیں۔ملا فضل اﷲ بھی وہاں پناہ لئے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ اور اتحادی افواج کی واپسی کے بعد افغانستان میں قیام امن کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ بعض مبصرین یہ خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ افغانستان کے انخلاء کے بعد امریکہ بھارت کو وہاں چوہدری بنانے کا متمنی ہے۔ جو پاکستان کے لئے ہرگز قابل قبول نہیں۔ ایک اور اہم صورتحال شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب ہے جو اس وقت انتہائی اہم مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ وہاں دہشت گردوں کی کمر توڑی جاچکی ہے ۔ دہشت گردوں نے واہگہ بارڈر، آرمی پبلک سکول پشاورپر سکول کے بچوں پربذدلانہ حملے کی صورت میں ردعمل کا اظہار بھی کیا ۔ جس کے بعد قومی قیادت تمام دہشت گردعناصر اور گروپوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کا فیصلہ کرچکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں نقل مکانی کرنے والے لاکھوں افراد کی دوبارہ آباد کاری اور دیکھ بھال کے حوالے سے بھی پاکستان کو مالی مسائل کا سامنا ہے اور اس حوالے سے امریکہ نے مدد اور تعاون کا یقین دلایا تھا-

اس پس منظر میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری پاکستان پہنچے ۔ وزیراعظم نواز شریف اور سلامتی امور سے متعلق مشیر سرتاج عزیز سے ملاقات میں انہوں نے تسلیم کیا کہ دہشت گرد دونوں ممالک کے مشترکہ دشمن ہیں۔ وزیراعظم نے امریکہ کو لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارت کی بلااشتعال جارحیت پر پاکستان کے تحفظات سے بھی آگاہ کیا کیونکہ بھارت کی اشتعال انگیزی دہشت گردی کو جڑ سے اْکھاڑ پھینکنے کی پاکستانی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے ملاقات میں واضح کیا کہ پاکستان بلا امتیاز نے اپنے علاقوں میں دہشت گردوں بشمول حقانی نیٹ ورک کارروائی کررہا ہے۔ اب سرحد پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ دہشت گرد پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ اس ضمن میں جان کیری کو بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی فراہم کئے گئے ۔جان کیری نے پاک فوج کو پاکستان کی بائنڈنگ فورس قرار دیااور دہشت گردی کیخلاف جنگ میں قربانیوں کو سراہا اور تسلیم کیا کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے دوران حقانی نیٹ ورک کو خاصا نقصان پہنچا ہے ۔جان کیری نے آئی ڈی پیز کی واپسی کے انتظامات و اقدامات کے لئے 25 کروڑ ڈالر دینے کا اعلان کیا۔ وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے اس بات پر زوردیا کہ امریکہ خطے میں امن و سلامتی اور معاشی ترقی کے لئے بھارت پر پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے پر زور دے۔ پاک بھارت ورکنگ باوئنڈری اور لائن آف کنٹرول پر ہونے والے کشیدگی کے واقعات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کو سفارتی ذرائع اور مذاکرات کے ذریعے اپنے مسائل حل کرنے کیلئے راہ تلاش کرنی چاہئے، تاہم اس حوالے سے امریکا بھی کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔ اس طرح پاک امریکہ اسٹرٹیجک مذاکرات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیئے میں پاکستان اور امریکا نے طویل المدت مضبوط شراکت داری اور دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان پائیدار دوستی کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ مذاکرات میں ورکنگ گروپوں کی پیشرفت کا جائزہ لیا گیا۔ ورکنگ گروپوں میں توانائی، سکیورٹی، سٹرٹیجک استحکام، ایٹمی عدم پھیلاؤ، دفاعی مشاورتی گروپ، نفاذ قانون، انسداد دہشت گردی، معیشت اور فنانس شامل ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اس دورے میں پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ نہیں کیا۔ یہ بات حوصلہ افزاء ہے کہ انہوں نے آپریشن ضرب عضب میں کامیابیوں اور پاک ،افغان بڑھتے تعلقات کو سراہا ہے۔ امریکہ کی جانب سے آئی ڈی پیز کیلئے پاکستان کو ہر قسم کی مدد کا یقین دہانی بھی مثبت اشارہ ہے تاہم پاکستان بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ طلب معاملات کا بامعنی اور نتیجہ خیز مذاکرات کے حل میں امریکہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ بھارت کی طرف سے خارجہ سیکرٹری سطح کے مذاکرات منسوخی اور لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی فورسز کی بلااشتعال فائرنگ کے واقعات پاکستان کیلئے انتہائی تشویشناک ہیں۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ امریکہ کی جانب سے باضابطہ طور پر یہ معاملہ سامنے آیا ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد افغانستان کی سکیورٹی کے لئے بھارت کو قائدانہ کردار پر غور ہو رہا ہے تاہم پاکستانی قیادت نے اس خطرے کو بھانپتے ہوئے امریکی قیادت پر واضح کر دیا ہے کہ ایسی کسی بھی کوشش کی پاکستان کی جانب سے بھرپور مخالفت کی جائے گی چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔یہ بات خوش آئند ہے کہ امریکہ نے تحریک طالبان کے سربراہ ملا فضل اﷲ کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر کے ان پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔اس طرح افغانستان میں چھپے دہشت گرد جو پاکستان میں دہشت گردی کے ذمہ دار ہیں ان کے حوالے سے امریکی موقف میں واضح تبدیلی آئی ہے جس کے یقینا پاکستان سمیت خطے سے دہشت گردی کے عفریت کو جڑ سے اکھاڑنے میں مدد ملے گی۔
Amna Malik
About the Author: Amna Malik Read More Articles by Amna Malik: 80 Articles with 68020 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.