سانحہ پشاور

 قتل طفلان کی منادی ہو رہی ہے شہر میں -
ماں مجھے مثل موسیٰ بہادے نہر میں
اس منحوس واقعہ کے پہلے ہی دن دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی تھی -کہ دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے کاغذ قلم کا سہارا لے لوں-مگر لکھنا تو دور کنا ایسا محسوس ہوتا تھا -کہ میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوا -اور ایسا ہوتا بھی کیوں نا -ہر ایک زیہوش انسان اس قیامت صغریٰ سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ پایا - اگرچہ یہ حربہ شیطان نما انسانوں نے پہلی بار نہیں آزمایا -مگر پھر بھی اس کا خیال و گمان آتے ہی سکتہ طاری ہوجاتا ہے -فرعون اور آل فرعون کی یہ وراثتی جنگی چال قطعی طور ظہور موسیٰ اور اس کے معجزے کو روک نہیں سکتے ہیں -یہی ہوا ہے اور یہی ہوتا رہی گا -وقت کے فرعون کو ہمیشہ نئی پود اور نئی نسل کا خوف طاری رہتا ہے - جسکا تدارک کرنے کے واسطے وہ اس ذہنی پستی میں مبتلا ہوتا ہے -کہ ھر شیر خوار میں اس کو ایک موسیٰ نظر آتا ہے -بعض مفسرین لکھتے ہیں -کہ فرعون نے ایک خواب دیکھا -"کہ بھیانک آگ نے مصر کو اپنے لپیٹ میں لے لیا -آگ پھیلتے پھیلتے فرعون کے محلات تک پہنچ جاتی ہے ! اور یہ آگ بنی اسرائیل کے گھروں سے ہوتے ہوئے آئی تھی - اور معجزاتی طور اس نے بنی اسرائیل کے گھروں کو نقصان نہیں پہنچایا- وقت کے تعبیر دانوں نے فرعون کو اس خواب کی تعبیر یہ بتا دی کہ بنیاسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا -جس کے ہاتھوں فرعون اور اس کی حکومت تباہ ہوجائیگی - اس خوفناک انجام کو روکنے کے لئے اس نے وزیروں و مشیروں سے صلاح مشورے شروع کئے -دن رات سر جوڑ کر بیٹھنے کے بعد دربار اس نتیجے پر پہنچ گیا - کہ ظہور موسیٰ کو روکنے کے لئے معصوم بچوں کا قتل عام بھی کرنا پڑے تو دریغ نا کیا جائے - -ہزاروں ماؤں کی گودیں اجاڑ دی گئیں -پھولوں کو کھلنے سے قبل ہی مسل دیا گیا -نومولود بچوں کا آنکھ کھلتے ہی سر قلم کردیا گیا -لیکن الله تو بہترین تدبیر کرنے والا ہے -موسیٰ نا صرف زندہ رہا - بلکہ اس کی پرورش کے لئے الله نے فرعون کے گھر کا ہی انتخاب کیا- دسمبر١٦ کو صبح کے لگ بھگ ساڑھے دس بجے یہی فر عونیت پشاور پاکستان میں نمودار ہوئی -جہاں اس نے معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلی- ننھے منھے فرشتوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا گیا -اس سفاکیت نے کربلا کی یاد تازہ کردی -جن والدین کے یہ جگر گوشے تھے -ان کے غم کا اندازہ کرنا محال ہے -پورا پاکستان اور عالم انسانیت اس بھیانک واردات سے سکتے میں آگئی - دنیا کے ہر انسان کا دل خون کے آنسو رورہا ہے -ظالمو ان معصوموں کا کیا قصور تھا -ان پھولوں سے کسی کو کیا تکلیف ہوئی تھی -ان کو تو آپ کی شیطانی سیاست کا الف -ب بھی پتہ نہیں تھا -جو اپنی یونیفارم پر سیاہی کا دھبہ نہ پڑنے دیتے تھے -آج ان کے خون سے یہی یونیفارم لال لال ہوئی تھی -خلاف معمول آج یہ لائنوں میں ڈسپلن کے ساتھ کھڑے نہیں تھے - بلکہ یہ خون میں لت پت بکھرے پڑے تھے - دہشت اور وہشت کی یہ انتہا ہے -یہ ذلالت کا پست ترین درجہ ہے -جس کے دلدل میں یہ سفاک قاتل دھنس گئے تھے -بم -گولی اور بارود کی بارش ہوئی اور یہ نھنے سے فرشتے شہادت کے عظیم مرتبہ پر فائز ہوئے - معاذ اور معوز بن کر یہ نھنے سے مجاہد وقت کے ابو جہل (جہالت کے باپ ) کو آنکھوں میں آنکھیں ڈالکر بتا رہے تھے -ہم نے آپ کی جہالت کو دنیا کے سامنے ننگا کردیا - ہم نے نہتا ہوکر بھی آپ کو اور آپ کے جدید اسلح کو شکست فاش کیا -قاتل رسوا ہوا -قیامت تک رسوا ہوتا رہی گا -اور قیامت کے بعد بھی ان کے مقدر میں رسوائی ہوگی -اس واقعہ سے پاکستانی قوم جو قیام پاکستان سے ہی انتشار کا شکار ہے -وقتی طور پر متحد ہوگئی -جیسا کہ میں نے اوپر تحریر کیا ہے -کہ یہ پاکستان میں پہلا ایسا واقعہ نہیں ہوا تھا -اس سے پہلے بھی یہاں فرعونیت کا کھیل یہاں کھیلا گیا ہے - اس سے پہلے بھی یہاں ایسی قیامتیں برپا ہوئی ہیں اس سے پہلے بھی سفاک اور ظالم دہشت گردوں نے معصوم بچوں پر آگ اور آہن کی بارش برسا دی -ایک بار نہیں ایسا کہیں بار ہوا - اور اس درندگی کو انجام دینے والے داڑھی پکھڑی والے دہشت گرد نا تھے - بلکہ وردی میں ملبوس روشن خیال مغرب کے کالے انگریز -ایسا ہی ایک واقعہ میرے ذہن میں آرہا ہے - یہ شاید اکتوبر ٢٠٠٦ کا واقعہ تھا -پاکستانی فوج (جس کو امریکا نے اجرتی مزدور بنا کر رکھ دیا ہے ) نے باجوڑ میں ایک اسلامی مدرسے پر فضائی بمباری کی جس کے نتیجے میں ایک سو کے آس پاس بچے شہید ہوئے -جن کی جلی ہوئی لاشیں نکالنے کے لئے نا ایمبولنس دستیاب تھی -اور نا تشہیر کرنے کے لئے مغرب کے ٹکڑوں پر پلنے والے الیکٹرانک میڈیا کے ٹٹو --نااس کو کیش کرنے کے لئے یورپ میں ملالہ یوسف زئی چیخ رہی تھی - نہ ان کا غائیبانہ نماز جنازہ پڑھنے کے لئے سید علی شاہ گیلانی صاحب کے پاس وقت ، پاکستانی قوم نے بھی اس قتل عام کو اہمیت نہیں دی - حالانکہ جماعت اسلامی پاکستان کے موجودہ امیر اور اس وقت کے صوبائی وزیر محترم سراج الحق صاحب نے وزارت اور اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا تھا -مگر اس استعفیٰ کو بھی پاکستانی میڈیا نے دو سطری خبر کے طور پر شایع کیا -اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں شرمناک واقعات میں کیا فرق ہے -کیونکہ پشاور واقعہ کی تشہیر عالمی سطح پر ہوئی - پوری دنیا بے قرار ہوئی - وائٹ ہاوس سے لیکر راج بھون دلی تک پورا روشن خیال دنیا بے چین ہوا -اور باجوڑ کے قتل عام کے بارے میں کسی کے کان پر جؤں تک نہیں رینگی آخر کیوں ؟ اس کی کیا وجہ ہے کہ ٹائی اور سوٹ پہنے والے بچوں کے اور ٹوپی پہنے والے بچوں کے قتل عام پر الگ الگ جذبات کا مظاہرہ کیا گیا ؟ کہاں تھے اس وقت انصار برنی ،آسما جہانگیر ،حسن نثار اور ملالہ یوسف زئی جیسے مغربی دلال -اور کیوں یہ سب لوگ اس وقت بے چین نہیں ہوئے -اسکا جواب بہت آسان ہے کہ پشاور میں جو نھنے منھے دہشت گردی کا شکار ہوئے وہ اعلی فوجی اور سول افسران کے گھروں کے چشم و چراغ تھے -جبکہ مدرسے میں شہید ہونے والے بچے غریب ، یتیم اور لاوارث تھے -اسی وجہ سے پاکستانی اور انٹرنیشنل میڈیا نے ان کو اہمیت نہیں دی -اسلئے مغرب کے انسانی حقوق کے ٹھیکہ دار بےچین نہیں ہوئے --اور یہی وجہ تھی کہ سرینگر کے حریت والوں کے پاس ان کا نماز جنازہ پڑھنے کے لئے وقت نہیں تھا-
Dr.Showkat Ul Islam
About the Author: Dr.Showkat Ul Islam Read More Articles by Dr.Showkat Ul Islam : 9 Articles with 8158 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.