’’گوعمران گو‘‘ کی نوبت کیوں آئی؟

اﷲ بھلا کرے واپڈا کا جو دو گھنٹے کے بعد ایک گھنٹے کے لیے بجلی بھیج دیتی ہے جس سے ہم ملکی حالات حاضرہ سے تھوڑا بہت باخبر ہوجاتے ہیں۔ آج بھی مسلسل دوگھنٹے رہنے کے بعد جب لائٹ آئی تو حسب عادت لیپ ٹاپ آن کیا اور اپنا کام شروع کردیا۔پھریاد آیا کہ ٹی وی تو آن کیا ہی نہیں جب ٹی وی آن کیا تو اس پر گرماگرم نیوز چل رہی تھی ۔ کیا دیکھتا ہوں ایک عورت اپنا انٹرویودے رہی ہے اورساتھ ساتھ زاروقطار رورہی ہے۔پہلے تو کچھ سمجھ میں نہ آیا مگر پھر جلد ہی ساری کہانی سمجھ گیا۔

ابھی دھرنے کو ختم ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ لوگ اسے بھول گئے ہونگے۔ جو تبدیلی کی ہواپاکستان کے دارالحکومت کے ڈی چوک پر چل رہی تھی اس کا اثراُدھر تو نہیں ہوا البتہ ’’کے پی کے‘‘ کے صوبائی دارالحکومت میں ضرور دیکھا گیا ۔ جو نیا پاکستان بنانے کا اعلان کررہے تھے وہ خود پرانے پاکستان کے باسی بن بیٹھے۔ جو عوام کو سنہرے خواب دکھانے چلے تھے وہ خود اپنے خواب کو حقیقت کارنگ دے گئے۔

وی آئی پی کلچر کے خاتمے کی باتیں تو سب کرتے ہیں لیکن کوئی بھی پروٹوکول چھوڑنے کو تیار نہیں۔صدر پاکستان سے لیکر ایک ایم پی اے تک پروٹوکول کا متلاشی ہوتا ہے جہاں انہیں پروٹوکول نہ ملے اس محفل میں تو جانا ان کی شان کے خلاف ہے۔ دھرنے کے دنوں میں خان صاحب نے وی آئی پی کلچر کے خلاف خوب شور شرابا کیا۔ مجھے یاد ہے کہ حال ہی میں بے نظیر کی برسی کے موقع پر جب بلٹ پروف ڈائس کے سامنے کھڑے ہوکر آصف زرداری نے خطاب کیا تو پی ٹی آئی کے دوستوں نے خان صاحب کے لاڑکانہ کے جلسے کی اور زرداری صاحب کی ڈائس والی تصاویر فیس بک پرلگا کر بہت کچھ لکھاتھا۔

ضرب المثل ہے ’’دوسروں کو نصیحت اور خود میاں فصیحت‘‘ جسے ایک مرتبہ پھر صحیح ثابت کیا ہے عمران خان نے، آج انہوں نے خود اپنی ہی بات کا گلا گھونٹ دیا۔جسے یاد نہ تو ایک واقعہ یاد کراتا چلوں جب کراچی میں رحمان ملک اوررکن قومی اسمبلی کو طیارے سے اتاراگیا تو عزت مآب خانصاحب نے اپنے کنٹینر پرکھڑے ہوکر کہا تھا کہ’’ مسافروں کے اس اقدام کو بدلتے پاکستان کی نظر سے دیکھ رہا ہوں۔آج ہماری عوام بیدار ہوچکی ہے‘‘ مگر آج جو کچھ ہوا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نئے پاکستان اور پرانے پاکستان کا حال ایک جیسا ہی ہے۔

ہوا کچھ یوں میڈیا رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کے چیئرمین اپنی نئی نویلی دلہن کے ہمراہ آرمی پبلک سکول پشاور کا دورہ کیا۔ جو شخص پروٹوکول کے خلاف تھا وہ آج خود25 سے زائد گاڑیوں کے ہمراہ آرمی سکول پہنچا۔میڈیا والے بھی بادشاہ بندے ہیں۔جب چاہیں چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑا بناکر پیش کر دیتے ہیں۔ بھئی صاف بات ہے جان کس کو پیاری نہیں؟ اگر کوئی لیڈر سٹیج پرکھڑے ہوکر باتیں کرلے تو کیا مطلب اس کو اپنی جان پیاری نہیں اور ایسا کونسا پاکستان کا لیڈر ہے جس نے سیکورٹی کے نام پر لاکھو ں روپیہ ہوا میں نہ اڑیاہو۔ ویسے بھی میاں صاحب کو چاہیے تھا کہ خان صاحب کوخصوصی پروٹوکول دیتے کیونکہ ان کی ساتھ ان کی نئی نویلی شریک حیات جو تھیں۔

ہاں ایک بات کا سن کر مجھے بھی افسوس ہوا کہ جو شخص چند دن پہلے عوام کا اپنے ساتھ ہونے کا دعویٰ کررہا تھا آج اس کے خلاف کیسے ہوگئی؟ واقعہ کچھ یوں ہے جب عمران خان کا قافلہ سکول کے قریب پہنچا تو وہاں پہلے سے موجود شہید بچوں کے لواحقین اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے اور عمران خان کی گاڑی کا گھیراؤ کر لیااور کل تک جو ’’گو نواز گو‘‘ کے نعرے لگارہے تھے آج وہ’’ گو عمران گو‘‘ کے نعرے لگانے لگے۔ مظاہرین کاکہناتھاکہ عمران خان دکھ بانٹنے نہیں بلکہ سیر کو آئے ہیں۔عمران خان نے مشکل وقت میں ہمیں تنہاچھوڑدیا۔ ہم بچوں کیلئے تڑپ رہے ہیں لیکن عمران خان نے دوسری شادی کرلی۔ سیاستدان ہمارے بچوں کی لاشوں پر سیاست کررہے ہیں۔ ایک شہید کی والدہ کاکہناتھاکہ عمران خان کو ووٹ دے کر غلطی کی۔سکول سے باہر آئی ایک غمزدہ خاتون نے میڈیاسے بات کرتے ہوئے کہا کہ سکول کے اندر میں نے عمران خان کو گریبان سے پکڑ کر کہا کہ اب یہاں کیا لینے آئے ہو ، ہم نے صوبہ تمہارے حوالے کیا اور تم نے ہمارے بچوں کو لہو لہان کرا دیا اور شادی کرتے بھی نہ سوچا کہ ہمارے دلوں پر کیا گزر رہی ہے۔

اب یہ تو اﷲ جانتا ہے کہ شہدا کے والدین نے ایسا کیوں کیا مگر ذرائع کاکہناتھاکہ مظاہرین عمران خان سے بات کرناچاہتے تھے لیکن پولیس کی طرف سے روکے جانے اور وزیراعلیٰ کے غلط ریمارکس پر مظاہرین مشتعل ہوگئے جس کی وجہ سے نوبت یہاں تک پہنچی۔آخر کارپولیس نے شہدا کے والدین کو حصار میں لے کر خان صاحب کو آرمی پبلک سکول کے پچھلے دروازے سے باہر نکالا۔

اب میرا خیال ہے خان صاحب اپنے دھرنے کی ویڈیو دیکھ کر فیصلہ کریں گے کہ انہوں نے جو کچھ کہا اور جوکچھ دوسرے سیاست دان کہتے ہیں وہ سب عوام کو گمراہ کرنے کے لیے کہتے ہیں۔ ان پر عمل نہ خان صاحب نے کیا اور نہ کوئی دوسرا سیاستدان کرتا ہے۔ جس وقت بلاول زرداری تھر گیا تھا تو اس وقت اس کے پروٹوکول پر بڑا دھوم مچا اور سوال اٹھا کہ یہ کونسا وزیرہے جو حکومت نے اسے پروٹوکول دیا اور اب یہی سوال عوام پوچھتی ہے کہ خانصاحب کونسے وزیر تھے جو کے پی کے حکومت نے اتنا پروٹوکول دیا؟آخر میں اگر خانصاحب برا نہ منائیں تو اس کی بھی وضاحت کردیں کہ آپ نے ارشادفرمایا کہ’’ جس دن میرے خلاف گو عمران گو کا نعرہ بلند ہوا میں فوراًکے پی کے کی حکومت چھوڑ دوں گا‘‘اب اس بارے میں کیا خیالات ہیں؟اس لیے کہت ہیں کہ پہلے تولو پھر بولو۔
Aqeel Khan
About the Author: Aqeel Khan Read More Articles by Aqeel Khan: 283 Articles with 212083 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.