اپنا اُخروی انجام خود منتخب کریں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

دین اسلام بلاشبہ زبردستی اور مسلط کئے جانے والا دین نہیں ہے۔ اس میںاللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا بھرپور اختیار دیا ہے،البتہ اللہ رب العالمین نے ہر شخص کو اس کی گزاری ہوئی زندگی کے مطابق اس کا انجام بھی اسے بتا دیا ہے۔

اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں ایسی کئی آیات نازل فرمائی ہیں کہ جن سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اللہ غالب نے کسی شخص پر اسلام قبول کرنے میں کوئی زبردستی نہیں کی ، بلکہ اسے اختیار دیا ہے کہ حق یا باطل میں سے جسے چاہے اختیار کرلے، البتہ اسے دونوں قسم کے انجام سے بخوبی آگاہ بھی کردیا گیا ہے، لہٰذا ہر شخص اپنا اُخروی انجام اپنی زندگی میں ازخود ہی منتخب کرلے۔

یہ تو ہے اسلام کا ایک ایسا اصول جس میں کافر کو مسلمان ہونے کا اختیار دیا گیا ہے، لیکن ہمارے آج کے مضمون کا موضوع اسلام کا ایک داخلی اُصول ہے۔

اور وہ اصول کسی کافر کیلئے نہیں، بلکہ صرف مسلمانوں کیلئے ہے۔

اور یہ ایک ایسا اصول ہے، جس کی اہمیت سے اس وقت امت ِمسلمہ کی اکثریت لاعلم ہے۔ اور وہ اسے کوئی اہمیت نہیں دیتی۔ ہر مسلمان اپنی من چاہی زندگی میں مست ہے؛ حالانکہ تمام مسلمانوں کی اُخروی کامیابی یا ناکامی کا دار و مدار بھی اسی اُصول پر ہے۔
وہ اصول یہ ہے:
نبی ٔ کائنات، امام الانبیاء، جنابِ محمد مصطفیٰ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’اَلْمَرْ ءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ‘‘۔ ’’آدمی (قیامت کے دن ) اسی کے ساتھ ہو گا،جس کے ساتھ (دنیا میں) محبت کی ہوگی۔‘‘ (صحیح بخاری: 6170)

رسولِ اکرمﷺ نے مزید ارشاد فرمایا:
’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے؛ لہٰذا تم میں سے ہر شخص دیکھے کہ وہ کسے اپنا دوست بنا رہا ہے۔؟ ‘‘ (ابوداؤد: 4833)

جی ہاں! یہی وہ انتہائی اہم اصول ہے‘ جو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ :
ہمارا محبوب کون ہے؟ ہمارا سب سے گہرے دوست کا دین کیا ہے؟ ہم نے کس کو اپنا آئیڈیل بنایا ہوا ہے؟ ہمارا طرزِ زندگی کس کے مشابہہ ہے؟
اس لئے کہ ہمارے اسی ’’محبوب‘‘ نے قیامت کے دن ہمارا انجام سنوارنا یا پھر بگاڑنا ہے۔
ان احادیث ِمبارکہ سے یہ بات بھی بالکل واضح ہو رہی ہے کہ کسی بھی شخص کو دوست بنانے سے پہلے اُس کے دین کو اچھی طرح چھان پھٹک لیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی گمراہی آپ کو بھی جہنم میں لے جائے۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اور اس دن ستمگر شخص اپنے ہاتھوںکو چبا چبا کر کہے گا : ہائے کاش میں نے رسول کی راہ اختیار کی ہوتی۔ ہائے افسوس! کاش کہ میں فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراہ کردیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی اور شیطان تو انسان کو وقت پر دغا دینے والا ہے۔‘‘ (الفرقان: 27-29)
اس آیت مبارکہ سے بھی یہ بات بالکل عیاں ہو رہی ہے کہ دنیا کی لادین اور لیبرل یا مذہبی گمراہی والی دوستیاں اور محبتیں قیامت کے دن انسان کے برے انجام پر منتج ہوںگی۔

مذکورہ احکاماتِ اسلامی پر ذرا غور کریں کہ ہماری محبتیں، دوستیاں اور آئیڈیل بازی کن لوگوں کے ساتھ ہے؟

اگر ہم مذہبی معاملے کو دیکھیں تو ہمارے مسلم نوجوان جو کہ اسلام سے محبت تو رکھتے ہیں، مگر اسلامی تعلیمات سے لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے ایسے مذہبی راہنماؤں کے ہتھے جڑھ جاتے ہیں‘ جو انہیں مذہب کے نام پر اپنے رذیل مقاصد اور گھٹیا مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ مذہبی منافرت، تفرقہ بازی ، شدت پسندی اور تکفیری فتوے ان کی کارخانۂ مسند کی لازمی ’’مصنوعات‘‘ ہیں، جہاں یہ چیزیں صنعت پاتی اور پھر مذہب سے دلی محبت رکھنے والے مخلص ، مگر جاہل عوام الناس میں بیچی جاتی ہیں۔

یہی ان کا رازِ زندگی ہے اور یہی ان کا دوامِ زندگی!

اگرعوام الناس کو ان کے اس کاروبار کو نیست و نابود کرنا ہے تو انہیں انکے خولِ مکر سے نکل کر ازخود قرآن و حدیث کے مطالعہ کی طرف آنا ہوگا۔

اور اگر ہم اپنے سیاسی معاملے کو دیکھیں تو وہاں بھی ہمیں اسی قسم کی لسانی، علاقائی، صوبائی اور جماعتی منافرت اور تقسیم در تقسیم کی خبیث سیاست نظر آتی ہے۔

یہاں پر بھی وطن سے سچی محبت کرنے والے، ملک کی بہتری اور ترقی کی سوچ رکھنے والے اور امن و بھائی چارگی کا خواب دیکھنے والے نوجوانوں کو سیاسی مداری اپنا بچہ جمہورہ بنالیتے ہیں۔ نتیجتاً وہ نوجوان ان کی بساط کا مہرہ بن کر اپنے آپ کو ان کی ہر اس چال میں ڈھال لیتے ہیں‘ جس میں وہ چاہتے ہیں؛ لہٰذا ملک کی کمر بجائے سیدھی ہونے کے خرابی کے بوجھ سے مزید جھک جاتی ہے۔
یہی ان کا سیاسی پیشہ ہے اور یہی ان کی کامیابی کا زینہ!

اگر عوام کو ان سیاسی مداریوں کے چنگل سے نکلنا ہے تو ان کا بچہ جمہورہ بننے سے اپنے اندر انکار کی جرأت پیدا کرنا ہوگی، ان کے کسی بھی ’’فرمان ‘‘ پر ’’ سرِ تسلیم خم‘‘ کرنے کے بجائے ’’نتیجہ‘‘ کا سوال قبل از وقت کرنا ہوگا۔

ان دونوں معاملات کے شائقین حضرات اللہ کے اس فرمان پر ضرور غور فرمائیں:

’’اس(قیامت کے) دن ان کے چہرے آگ میں اُلٹ پلٹ کئے جائیں گے، وہ حسرت و افسوس سے کہیں گے کہ کاش، ہم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے۔ اور کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور بزرگوں کی بات مانی، جنہوں نے ہمیں راہِ راست سے بھٹکا دیا۔ پروردگار! تو انہیں دگنا عذاب دے اور ان پر بہت بڑی نازل لعنت فرما۔‘‘ (الاحزاب:68-66 )

ذرا غور کیجئے ان آیاتِ مبارکہ پر کہ اللہ مالک یوم الدین نے گمراہ کن مذہبی اور سیاسی قیادتوں اور ان کے ورکروں کی کیسی ہولناک منظر کشی کی ہے۔

دنیا میں اگر کسی مذہبی اور سیاسی راہنما کی ’’شانِ اقدس‘‘ میں کوئی مخالف مذہبی یا سیاسی راہنما ’’گستاخی‘‘ کردے تو اس کے ردعمل میں اس ’’متأثرہ‘‘ راہنما کے حامی زمین و آسمان ایک کردیتے ہیں، لیکن انہی ’’حامیوں ‘‘ کی قیامت کے دن اپنے ہی راہنماؤں سے ’’حمایت اور محبت ‘‘ کی ایک جھلک بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے کلامِ پاک میں ہمیں دکھا دی ہے۔

اور اگر ہم اپنی ادبی، فلمی، کاروباری اور معاشرتی، الغرض مختلف شعبہ ہائے زیست کی مختلف محبتوں ، دوستیوں اور آئیڈیل بازیوں کو دیکھیں تو یہاں بھی ہر سُو تاریکی ہی تاریکی نظر آتی ہے۔ آج کا مسلمان غیرمسلم اداکاروں اور اداکاراؤں کا بہت بڑا ’’فین‘‘ ہے۔ یا پھر ایسے ’’مسلمان‘‘ اداکاروں یا اداکاراؤں کا کہ جو غیر مسلموں سے بھی زیادہ بدتر ہیں۔ دھوبی کے اس کتے کی طرح جو نہ تو گھر کا ہوتا ہے اور نہ ہی گھاٹ کا۔

ذرا اس حوالے سے بھی ایک حدیث ِ پاک ملاحظہ فرمائے:
’’جس نے کسی قوم کی بھی مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے شمار کیا جائے گا۔‘‘(ابوداؤد: 4031)
اور اندازہ لگائیں کہ جو شریعت مسلمانوں کی غیر مسلموں سےصرف مشابہت بھی برداشت نہیں کرتی تو وہ ان سے محبت کرنا اور انہیں اپنا آئیڈیل بنانا کیسے گوارہ کرسکتی ہے؟
اسی لئے اللہ رب العالمین نے واضح اور دوٹوک الفا ظ میں بیان فرمادیا ہے کہ :
’’اور جو ان کی طرف پھرے گا تو وہ انہی میں سے شمار کیا جائے گا۔‘‘ (المائدہ:51)
یہ ہیں آج کے مسلمان اور ان کی محبتیں اور دوستیاں۔

ذرا سوچیں کہ اگر ہم بغیر توبہ کئے اسی حالت میں مر گئے اور قیامت کے دن اللہ نے ہمارا نام ان میں سے کسی بھی ظالم کے ساتھ لکھ دیا تو ہمارا انجام کیا ہوگا؟

اگر ہم نے توبہ نہ کی ، اپنے رویوں کو درست نہ کیا اور اپنے اندر تبدیلی نہ پیدا کی تو یقیناً ایسا ہی ہونا ہے۔ جیساکہ دلائل سے واضح ہے۔

آئیں ! اب ہم انبیاءعلیہم السلام کے بعد کائنات کے سب سے افضل انسانوں سے اسی محبت اور دوستی کا سبق حاصل کرتے ہیں۔

خادمِ رسولﷺ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی اللہ کے رسولﷺ کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوا اور سوال کیا کہ :’’قیامت کب آئے گی؟‘‘ اللہ کے حبیبﷺ نے اس سے پوچھا کہ :’’اس کیلئے تیاری کیا کی ہے؟‘‘ کہا: ’’کچھ خاص نہیں، سوائے اس کے‘ کہ میں اللہ اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ نبیﷺ نے فرمایا: ’’تو اسی کے ساتھ ہوگا جسکے ساتھ محبت کرتا ہے۔‘‘ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں اللہ کے نبیﷺ کے اس قول سے اتنی خوشی ہوئی کہ اس سے پہلے کسی چیز سے اتنی خوشی نہیں ہوئی تھی۔ مزید فرمایا :’’میں اللہ کے نبیﷺ ، ابوبکر صدیق اور عمرفاروق رضی اللہ عنہما سے محبت کرتا ہوںاور میں امید کرتا ہوں کہ انکی محبت کی وجہ سے میں انہی کے ساتھ ہوؤںگا، اگرچہ میرے اعمال ان جیسے نہیں بھی ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری: 3688)

ذرا اندازہ لگائیں کہ وہ شخص قیامت کے وقوع میں کس قدر بے باک اور بہادر ہے کہ جس کی محبت اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ ہے۔ یعنی وہ قیامت جو‘ پوری کائنات کیلئے تباہی کا پیغام ہے، لیکن اس شخص کیلئے وہ اپنے محبوبین سے ملاقات کا ذریعہ بننے والی ہے۔ سبحان اللہ وبحمدہ۔سبحان اللہ العظیم۔

یہ ہیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے محبوب اور وہ ان کے محبّ! ایسے ہی تو اللہ نے ان کے بارے میں نہیں کہہ دیا کہ : رضی اللہ عنہم ورضو عنہ!

یہ ہے اصل اور سچی محبت!! اس محبت کو آگے بڑھائیں! اسے اختیار کریں! اور اسی کو اپنا نصب العین بنائیں!

اور یہ ہیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی مقدس و مطہر ہستیاں!!

انہیں اپنا راہنما بنائیں! انہیں اپنا لیڈر منتخب کریں! انہیں اپنا آئیڈیل بنائیں! ان کے فرمودات کو اپنا دستورِ حیات بنائیں! اور انہی کے احکامات پر عمل پیرا ہوکر اپنے آپ کو جنتی بنائیں!
وما علینا الا البلاغ المبین
حافظ محمد سفیان سیف
About the Author: حافظ محمد سفیان سیف Read More Articles by حافظ محمد سفیان سیف: 2 Articles with 1209 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.