سوچی پیا تے بندہ گیا

ایک زمانے کی بات ہے ایسے کردار ملا کرتے تھےخیر اب بھی ہیں جو کسی سوچ میں کھوئے انسان کو دیکھتے توکہتے:"سوچی پیا تے بندہ گیا"۔ایسی باتیں گاؤں میں زیادہ سننے کو ملتی تھیں اگرچہ شہروں میں بھی تھیں مگرگاؤں کی نسبت کم۔۔۔۔گھر میں اگر ایسا کوئی کردار ہوتا جو سارا دن فارغ رہتا یا اِدھر اُدھر گھوم پھر کر دن گزار دیتا توایسے شخص کو گھر کے بڑے طنزیہ کہا کرتے:"عقل نیں تے موجا ں ای موجاں۔۔۔۔عقل اے تے سوچاں ای سوچاں"۔اگر فارغ شخص میں کچھ عقل باقی ہوتی تو وہ اسے کام میں لاتا اور کسی کام میں لگ جاتاتاکہ خود کو روز روز کے طعنوں سے بچا سکے۔ بچپن میں جب میں ایسی باتیں سنتا تو ہنس کر ٹال دیتا تھا مگر کبھی ایسی باتوں کی گہرائی میں نا گیا تھا۔

یہ علامہ اقبال ہسپتال کے آؤٹ ڈور بلاک کا منظر ہے ایک ایک کر کے آنے والے مریض اب پچاس کے قریب پہنچ چکے ہیں ، گھڑی 12 بجا چکی ہے، ڈاکٹر صاحب ابھی آتے دکھائی نہیں دے رہے۔۔۔۔۔ایک بوڑھا سا آدمی ہے جس کے ہاتھ میں ایک بالٹی ہے جس میں بھنے ہوئے چنے ہیں ۔۔۔۔بابا کمرے کے عین وسط میں کھڑا ہو کر آواز لگا رہا ہے:"او سوچو ناں تے چنے کھاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔او پتر سوچی پیا تے بندہ گیا۔۔۔۔۔ہاں چھڈ و سوچاں تے چنے کھاؤ"۔

پتا نہیں کیوں مگر اُس بوڑھے شخص کے یہ الفاظ "سوچی پیا تے بندہ گیا" میرے دماغ میں جگہ بنا لیتے ہیں ساتھ ہی حسرتؔ مجھے آکر کہتے ہیں کہ ایسا سوچنے والے تم کوئی پہلے انسان نہیں ہو ہم برسوں پہلے اس سوچ کو قلم سے نکال چکے ہیں۔
زندگی بعد فنا تجھ کو ملے گی حسرتؔ
تیرا جینا تیرے مرنے کی بدولت ہوگا

بوڑھے جو بات کہتے ہیں اُن کی بات میں بڑے راز چھپے ہوتے ہیں اُس سے کئی راہیں نکلتی ہیں مگر اُن راہوں کو پانے کے لیے ایک سوچ کی ضرورت ہے جو اُن کو کھوج سکے۔۔۔۔۔اگر سوچا جائے تو پتا ملتا ہے کہ جب بندہ سوچ میں پڑتا ہے تو تبھی وہ امر ہوتا ہے۔

آپ کو کیا لگتا ہے سیب پہلے زمین پر نہیں گرتا تھا؟ کیا لوگ اُسے گرتا ہوا نہیں دیکھتے تھے؟ کیا اُسے صرف نیوٹن نے دیکھا؟ ایسا بالکل نہیں ۔۔۔۔۔۔سیب پہلے بھی زمین پر ہی گرتا تھا اور لوگ اُسے گرتا دیکھتے بھی تھے مگر جو وہ نہیں کرتے تھے وہ ہے سوچنا۔۔۔۔جنہوں نے نہیں سوچا اُنہیں دنیا فراموش کر چکی ہے اور جس نے سوچا اُس کے بارے میں دنیا آج تک سوچ رہی ہے اور اُسے عظیم نیوٹن جیسے خطاب سے نواز چکی ہے۔

کیا انسا ن کا من نہیں کرتا تھا کہ وہ بھی پرندوں کی طرح ہوا ؤں میں اُڑے ؟ کیا وہ ضرورت محسوس نہیں کرتا تھا ایسی چیز کی جو اُسے ہوا میں سواری کرنے کی صلاحیت دے سکے ؟ مگر ایسا کیا کس نے ؟ اُن رائٹ برادرز نے جنہوں نے ایسا کرنے کے بارے میں سوچا اور اپنی سوچ کو اعمال کا رنگ دے کر تاریخ کے سینے میں امر ہو گئے۔

جب سوچنے والے سوچتے ہیں تو نا سوچنے والے سوچنے والوں کو پاگل کہتے ہیں مگر یہی پاگل ناسوچنے والوں کو کوئی نئی سوچ دے جاتے ہیں جس پر سوچنے والوں کے بعد دنیا صدیوں سوچتی رہتی ہے۔پاگل کہنےمیں لوگوں کا بھی قصور نہیں ہوتا کیونکہ وہ باتیں ہی ایسی کرتے ہیں جو ایک اور ایک دو کہنے والوں کی سمجھ سے بالا ہوتی ہیں ۔مگر پھر بھی انسان کو سوچ کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے سوچنا چاہے کیونکہ سوچ ہی انسان کو بناتی ہے اور امر رکھتی ہے۔
Shah Faisal Naeem
About the Author: Shah Faisal Naeem Read More Articles by Shah Faisal Naeem: 36 Articles with 31611 views Student of BBA (Honors)
Institute of Business Administration (IBA), University of the Punjab, Lahore.
Blogger at:
http://www.express.pk/blog/
http
.. View More