پھرتیاں اور پھرتیاں

جمعہ کی شام بھی اداس تھی، مارکیٹیں وقت سے پہلے بند ہو چکی تھیں سڑکوں پر سناٹا تھا، شہر کے مختلف حصوں میں فائرنگ کے واقعات میں متعدد ہلاکتیں ہوچکی تھیں۔ کئی دن سے کراچی خون میں ڈوبا ہوا ہے۔ عجیب سنگدل شہر ہے اب اس میں کتنی لاشیں گریں کتنے جنازے اٹھیں، کیسے ہی بم پھٹیں، لوگ مریں، آگ لگ جائے، بینک لٹ جائیں، لیکن شہر کراچی کا کاروبار چلتا رہتا ہے۔ جب جسم حادثوں اور سانحوں کا عادی ہوجائے تو بے حسی رگ رگ میں اتر جاتی ہے۔ کراچی کے جسم پر اتنے چرکے، اتنے گھاﺅ، اتنے آپریشن، اور اتنی وارداتیں ہوچکی ہیں کہ اس میں سوچنے، ری ایکٹ کرنے، احتجاج کرنے، شور مچانے ، اور فریاد کرنے کی بھی سکت نہیں رہی ہے۔ مغرب کے بعد پریڈی کے علاقہ خوفناک فائرنگ سے گونج اٹھا۔ دکانیں بند ہونے لگیں اور لوگ افراتفری میں بھاگنے لگے۔ عین اسی وقت چند سو گز کے فاصلے پر وزیر داخلہ کراچی پریس کلب آئے ہوئے تھے۔ آس پاس کا پورا علاقہ سیل تھا، رینجرز کے جوان تھے، جدید ترین اسلحہ تھا، اور برق رفتار گاڑیاں۔۔۔۔وزیر داخلہ آج کل کراچی پر بڑے مہربان ہیں، اب ان کی کراچی کی مصروفیات بڑھ گئی ہیں، یوم عاشور کے بعد واقعات کے علاوہ انھیں کراچی کی عدالتوں کی سیڑھیاں بھی چڑھنا پڑتی ہیں، ساتھ ہی ساتھ کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ اور سیاسی جنگ بھی شدت اختیار کرگئی ہے۔ جس میں اب تک محتاط اندازے کے مطابق ۴۴ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ گزشتہ جولائی سے اب تک اس ٹارگٹ کلنگ، گینگ وار، مافیا لڑائی،اور سیاسی کھینچ تان میں ۶۵۲ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ایسے ہی مخدوش حالات میں گزشتہ جولائی میں وفاقی وزیر داخلہ مسٹر عبدالرحمان ملک اچانک لندن سے کراچی پہنچے تو ... اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا تھا کہ '' میں لندن میں الطاف حسین سے مل کر آرہا ہوں... اب کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ہوئی تو سب دیکھیں گئے کہ کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے عوام اور صحافیوں کو ترغیب دیتے ہوئے اعلان کیا کہ عوام ٹارگٹ کلنگ کی مووی بنا کر وزارت داخلہ کو بھیجیں ٹارگٹ کلنگ کے دوران تصویر لینے والے صحافی کو پانچ لاکھ روپے انعام دیا جائے گا'' لیکن حیرت کی بات ہے کہ سوا کروڑ سے زائد انسانوں کے شہر کراچی جس میں موبائیل فون کی تعداد بھی دو کروڑ کے لگ بھگ ہوگی۔ اب تک کسی نے پانچ لاکھ کا انعام نہیں لیا۔ کراچی آجکل خاموش ' نامعلوم اور ان دیکھے دہشت گردوں کی زد میں ہے' ویسے تو کراچی کا وجود اپنے ہی سپوتوں کے دئیے ہوئے زخموں سے پہلے ہی بھرا ہوا ہے۔ کھجی گراﺅنڈ میں بوری بند لاشوں سے لیکر، نشتر پارک میں بم دھماکے، کار ساز میں بے نظیر کے قافلے پر خود کش حملے،12 مئی کو میڈیا کے کیمروں کی دیکھتی آنکھوں کے سامنے 50 سے زائد انسانوں کے شکار سے لیکر جیتے جاگتے حرماں نصیب وکیلوں کو ان کے چیمبرز میں زندہ جلانے، یوم عاشور کے جلوس میں بم دھماکے، اور دکانوں کی لوٹ مار اور آگ لگانے تک، شہر کراچی کا وجود زخموں سے اٹا پڑا ہے۔ وزیرداخلہ رحمان ملک نے تازہ ارشاد فریا ہے کہ کراچی کے حالات اتنے خراب نہیں ہوئے ہیں کہ شہر میں فوج کو طلب کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ کراچی میں سرجیکل آپریشن کے لیے رینجرز کو اختیارات دیے گئے ہیں اور ٹارگِٹ کلنگ برداشت نہیں کی جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ فوج کو تب طلب کیا جاتا ہے جب پولیس اور رینجرز مکمل طور پر حالات کا سامنا کرنے میں ناکام ہو گئے ہوں مگر ان کے مطابق کراچی میں ایسے حالات نہیں ہے کہ کراچی ٹارگٹ کلنگ میں کوئی بھی ملوث ہو چاہے ایم کیو ایم ہو یا بلوچی مگر کسی کو برداشت نہیں کیا جائیگا اور ٹارگٹ کلنگ کا خاتمہ کیا جائے گا۔ چھ ماہ پہلے بھی کراچی میں ٹارگٹ کلنگز کی روک تھام کے لئے وزیرِ اعلیٰ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس ہوئی تھی۔ جس میں کہا ہے۔ حکمران جماعت پیپلزپارٹی کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نے جمعہ کو ایک پریس کانفرنس میں فوج اور رینجرز سے کراچی میں قیام امن کے لیے مدد کی اپیل کی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب کس قدر حالات خراب ہونے کا انتظار کیا جائے، اب سیٹلائٹ کے ذریعے نگرانی کی سہولت کے حصول کے لیے کوشش کی جا رہی ہے تاکہ جو لوگ رات کو ٹارگٹ کلنگ کا منصوبہ تیار کرتے ہیں ان کی اطلاع بر وقت مل سکے۔ کیا کراچی کے مسائل کا یہ حل ہے۔ یا کراچی والوں سے مذاق کیا جارہا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سارے کام عوام نے ہی کرنے ہیں تو کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کیا ذمہ داری رہ جاتی ہے؟ کیا قانون نافذ کرنے والوں کی ذمہ داری صرف امریکہ مخالف عناصر کو ڈھونڈ کر گرفتار کرنا اور مارنا ہی رہ گئی ہے... ؟ ۔ متحدہ کے رہنماء ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کے کارکنان کو جرائم پیشہ افراد ’ٹارگٹ کلنگ‘ میں ہلاک کر رہے ہیں مگر حکومت ان کے خلاف کارروائی نہیں کر رہی ہے۔ رحمان ملک کا کہنا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ میں پیپلزپارٹی اور متحدہ کے کارکن ہلاک ہو رہے ہیں اور فائدہ تیسرے فریق کو ہو رہا ہے۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات گزشتہ دو ماہ سے جاری ہیں۔ اب تک کراچی میں سرجیکل آپریشن کے لیے رینجرز کو اختیارات کیوں نہ دئے گئے۔ اب تک ہونے والی ٹارگٹ کلنگز کی عدالتی تحقیقات کیوں نہ ہوسکی۔ کرائسس مینجمنٹ سیل قائم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا، اس کا کیا ہوا۔ ٹارگٹ کلنگس سے متعلق انٹیلی جینس نظام کو مربوط کر کے ذمہ داروں کو اب تک کیوں نہیں پکڑا جاسکا۔ کراچی کی صورتحال پر جنگل کا وہ لطیفہ یا آتا ہے ۔ جس میں ایک بندر جمہوریت کے تحت جنگل کا بادشاہ بن بیٹھا تھا۔ ایک دن شیر ہرن کا بچہ اٹھا کر لے گیا۔ ہرن نے بندر سے فریاد کی۔ بندر نے کہا ابھی بندوبست کرتا ہوں، پھر بندر نے ایک درخت سے دوسرے درخت کود پھاند کر کے خوب پھرتیاں دکھائیں۔ اتنے میں شیر ہرن کا بچہ ہڑپ کر گیا۔ ہرن نے فریاد کی ۔ بندر نے کہا میں نے تو خوب پھرتیاں دکھائیں۔ لیکن ۔۔۔۔۔کچھ کام نہ بن سکا۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387886 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More