تھر کے دکھوں کا مداوا کون کرے

سندھ کے مختلف ہسپتالوں میں لا چار اور غریب عورتیں بین کر رہی ہیں اُن کی حا لت چیخ چیخ کر اُن کی آ پ بیتی سنا رہی ہے کیو نکہ آ ج وہ اپنی سب سے انمول چیزیعنی اپنی اولاد سے محروم ہو گئیں انکی غموں بھری یہ سسکیاں ہمارے کا نوں میں ڈلے ہو ئے سیسوں کو پگھلا نہیں سکتیں ہاں البتہ جہاں ہمیں اپنا آپ نمایا ں کر نا ہو اور اپنی خو شا مد کر وا نی ہو تو ایسی پکار فورا ًہمارے کا نوں میں اپنی جگہ بنا لیتی ہے مگر رات دن ان بڑھتی ہو ئی سسکیوں کی طرف کوئی کا ن دھرنے کو تیار نظر نہیں آ تاسندھ کے ہسپتا لوں کے با ہر یہ لوگ افر یقہ کے کسی بد حال خطے سے سیر و سیاحت کر نے نہیں آ ئے بلکہ یہ لو گ بھی پا کستا نی ہیں اور بھوک وافلاس کے مارے ہمارے ہی ایک شہر تھرپا ر کر سے آ ئے ہیں۔

اس میں تو کو ئی شک نہیں کہ سا نحہ پشا ور میں ہو نے والی بربریت کی مثال تا ریخ میں نہیں ملتی مگر سا نحہ پشاور کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کر لی ہمیں ان معصوم شہداء کے قا تلوں کا پتہ تو چل گیااور ہماری سیاسی اور عسکری قیادت ان دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے مؤثر اقدام بھی کر رہی ہے مگر تھر میں بھوک اور ادویا ت کی کمی کی وجہ سے جن ما ؤ ں کی گو دیں اجڑ رہی ہیں اسکی ذمہ داری ابھی تک کسی نے قبول نہ کی ۔ہما رے خلیفہ دوئم حضرت عمر فا روق رضی اﷲ عنہ نے فر ما یا تھا کہ اے عمر اگر دریا کے کنا رے ایک بھوکا کتا بھی مر گیا تو اس کا حسا ب تم سے ہو گااور اس کے لیے سا ری ساری رات گلیوں میں گشت کرتے رہتے تھے اسکے برعکس ہما رے موجودہ حکمران اور سیاسی رہنمابڑے بڑے محلوں میں عا لیشان زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ عام آدمی ان جیسی زندگی تو دوردو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے ایک اندازے کے مطا بق رواں سال میں پا نچ سو کے قریب لوگ جن میں تین سو بچے شا مل ہیں لقمہ اجل بن چکے ہیں تھر پارکر سندھ کے جنوب مشرق میں واقع ہے جسکا صحرائی حصہ بھارت کے سا تھ ملا ہوا ہے یہاں کی نوے فیصد آبادی گا ؤں میں مقیم ہے یہاں چونسٹھ فیصد مسلمان اور چھتیس فیصد ہندوں آ با د ہیں یہاں کے لوگوں میں گجراتی ،راجھستانی اور سندھی کلچر کا عکس نمایاں ہے تھر کے لوگ اپنی سخت محنت اور مہمان نوازی کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں اسیّ فیصدسے زائدآ با دی کی معاش کا دارومدار کھیتی اور مویشی پا لنے پر ہے حا لیہ سا لوں میں یہاں کے بچوں میں خطرناک حد تک pneumonia کی بیما ری پھیل رہی ہے جسکی بنیادی وجہ بھوک و افلاس اور طبی سہو لتوں کا نہ ہو نا ہے صو با ئی یا وفاقی حکومت کی جا نب سے اس مسئلہ پر مستقل طور پر قا بو پا نے کے لیے ابھی تک کو ئی خا طر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے حکو مت سندھ کے پاس ان اربوں روپے کا کوئی حساب نہیں جو تھر کے غریب لوگوں کے لیے مختص تھے پچھلے چند سا لوں سے زیا دہ با رش نہ ہو نے کی وجہ سے یہا ں کے لو گوں کو پا نی کی کمی کا شدت سے سامنا ہے ان سب مشکلات کی بنا پر تھر کے رہائش پذیر لوگ وہاں سے نقل مکانی کر نے پر مجبور ہیں کثیر تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو مالی وجو ہا ت کی بنا پر وہیں مقیم ہیں اور وہا ں نا قابل بر داشت زندگی گرار رہے ہیں اور دوسری طرف سندھ میں حکمرانی کا جدید طرز عمل ابھر کرسا منے آ رہا ہے جسمیں سندھ کو در پیش آ نے وا لے ہر مسئلے پر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماایک دوسرے کے خلا ف بیان با زی سے اپنی اپنی سیاست چمکا تے ہیں اور پھر اپنے مخملی بستروں میں گہری نیند کے مزے لینے اپنی اپنی خواب گاہوں میں چلے جا تے ہیں جسکی ایک مثال گزشتہ رات ٹمبر مارکیٹ کراچی میں لگنے والی آ تشزدگی ہے جہاں کروڑوں روپے کی لکڑی جل کر خا ک ہو ئی اور کئی شہری اپنا آشیا نہ کھو بیٹھے بہت سے غریب لو گوں کی ساری زندگی کی جمع پونجی اس آ گ کی نذر ہو گئی پیپلز پا رٹی اور ایم کیو ایم جو پچھلے کئی سالوں سے اس صو بے پر حکمرانی کر رہے ہیں دونوں پارٹیز نے پریس کا نفرس کی ایک دوسرے پر الزامات کی بو چھا ڑ کی اور چلتے بنے یہی وجہ ہے کہ سندھ کی خوشحا لی بدحالی اورپسماندگی میں تبدیل ہو رہی ہے دونوں پا رٹیز وزارتوں کی تقسیم میں ہمیشہ سے الجھتی آئیں ہیں مگر کبھی بھی سندھ کی ترقی کے لیے سنجیدگی سے ایک سا تھ مل کر کام کر نے کو تر جیح نہیں دی گئی جو کہ کسی بھی حکمران جماعت کی اولین ترجیح ہو نی چا ہیے ایسا ہی کچھ معا ملہ تھر کے لو گوں کے ساتھ پیش ہے جہاں سندھ حکومت ان مصیبت زدہ حا لا ت کے سدباب کے لیے کوئی ایکشن پلا ن تیار کرتی ہو ئی دور دور تک دکھا ئی نہیں دے رہی۔

ہمارے حکمرانوں کی طرح ہماری انجیوز بھی اس واقعے سے نا لاں نظر آ تی ہیں پا کستان میں موجود بہت سا ری انجیوز جو کہ غر بت کے خلا ف لڑ نے کی دعودار ہیں انکے بھی ظاہری اور باطنی اعمال میں تضاد نظر آ تا ہے اگر ان انجیوز کو پا کستان میں مختارہ ما ئی جیسا کو ئی کیس مل جا ئے اور جسکو کو لے کر پا کستان کو بین الاقوامی سطح پر بد نا م کر نامقصود ہو تو یہ سب سے آ گے نظر آ ئیں گے گماں گزرتا ہے کے انھیں شا ید کو ئی پا کستان کو بد نام کر نے کا معا وضہ عطا کر تا ہے کیو نکہ اگر یہnon governmental organization صحیح معنوں میں اپنا کام کر تیں تو تھر کے ان شیر خواروں کی آ واز انکے کا نوں میں اتنی ہی جلد پہنچتی جتنی کے مختارہ ما ئی کی پہنچی تھی ا ٓج بہت سارے تھر کے پا کستانی پانی اور خوراک کی کمی کی وجہ سے موت کی دہلیز پر کھڑے ہیں مگر ان نام نہاد انجیوز میں کو ئی ایک بھی ایسی نہیں جو آ گے بڑھ کر ان لا چا ر لو گوں کو سہارا دے سکے حکومت پا کستان کو ان تمام انجیوز کا آ ڈٹ کرنا چا ہیے کہ ان کو امداد کو ن فراہم کر رہا ہے اور اس فراہم کر دہ امداد کو کس مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ہم اے سی کمروں میں میٹنگ کرتے ہو ئے یا کسی آرٹ گیلری کی نما ئش میں دیوار پر لگی ان بھو کے ننگے بچوں کی تصویر دیکھ کر جوس کی چسکی لیتے ہو ئے یہ تو کہہ دیتے ہیں افسوس !کتنی غر بت ہے مگر کو ئی عملی اقدام کر نے کو تیا ر نہیں۔
Sajid Hussain Shah
About the Author: Sajid Hussain Shah Read More Articles by Sajid Hussain Shah: 60 Articles with 44914 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.