بھارتی ’وکرم سود‘کی ہرزہ سرائی اور ڈاکٹر عامر لیاقت حسین

بھارتی سیاست دانوں، حکمرانوں، صحافیوں اور لکھاریوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کوئی نئی بات نہیں۔یہ ہر دور میں پاکستان کے خلاف زہر اگلتے رہے ہیں۔کیونکہ بھارتیوں نے پاکستان کو بہ حیثیت ایک ملک و قوم کبھی تسلیم ہی نہیں کیا اس وجہ سے انہیں پاکستان کسی بھی اعتبار سے برداشت نہیں۔ بھارت کے ہندو کینہ پروروں کے خون میں پاکستان کے لیے نفرت رچ بس گئی ہے۔ ہندوبھارتی بچوں کوبچپن ہی سے پاکستان سے نفرت کی تعلیم دی جاتی ہے۔انہیں جب بھی موقع ملتا ہے پاکستان کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیتے ہیں۔پاکستان کی مخالفت کا کوئی موقع یہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ بھارت ایک منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کو کمزور کرنے، اس کی سر زمین پر ہلچل مچانے، دہشت گردی کو ہوا دینے حتیٰ کے اس کے حصے بکرے کرنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈ ے استعمال کرتا رہا ہے اور کررہا ہے۔ اس کے واضِح اور بے شمار ثبوت ہر دور میں ملتے رہے ہیں۔ کیا مشرقی پاکستان بھارتی تخریب کاری اور دخل اندازی کے بغیر پاکستان سے جد ہوسکتا تھا؟ اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہے کہ بھارت نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں اہم اور مکروہ کردار ادا کیا۔ اب یہ مکروہ فعل بلوچستان میں دوہرانا چاہتا ہے۔ بھارتی خفیہ ادارے افغانستان سے اپنے قونصل خانے کے ذریعہ دہشت گردوں کی تربیت
کررہے ہیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کا کام ہی یہ ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف عملی طور پر کام کرتی رہے۔

16 دسمبر ۲۰۱۴ء کو ہونے والے آرمی پبلک اسکول پشاور کے واقع میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ملوث ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی مسلمان ایسا نہیں کرسکتا جو کچھ آرمی پبلک اسکول پشاور میں دہشت گردوں نے کیا۔ مسلمان تو اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کاقتل ہے ، اسلامی تعلیمات تو دشمن کو بھی معاف کرنے کا درس دیتی ہیں، اسلام تو امن و سلامتی کا مذہب ہے چہ جائے کہ معصوم اور بے گناہ بچوں کو بے دردی، بے رحمی اور سفاکی سے خون میں نہلادیا جائے۔ ایسا کام کرنے والے ہرگز ہرگز مسلمان نہیں ہوسکتے، یقینا ان دہشت گردوں کے ذہنوں کو مخصوص انداز سے گمراہ کیا گیا ہے۔ انہیں برسوں دنیا سے الگ تھلگ رکھ کر صرف یہی بتا یا گیا کہ پاکستانیوں کو خواہ ان میں مردہوں، عورتیں ہوں یا بچے ہی کیوں نہ ہوں قتل کرنے سے وہ سیدھے جنت میں چلے جائیں گے۔ کوئی مسلمان ایسا نہیں کرسکتا اُسے جنت اور دوذخ کے بارے میں اچھی طرح علم ہے۔ ا س طرح کے مکروہ اور شیطانی عمل سے جنت کاکیا تعلق ۔

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے اپنے پروگرام’ صبح پاکستان‘میں کون سی ایسی بری بات یاخلاف بھارت بات کہہ دی۔ انہوں نے تو بھارت کو اس کا اصلی چہرہ ہی تو دکھایا ہے۔یہ کام تو ہم شروع ہی سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ ہمارے بچے بچے کو یہ علم ہے کہ بھارت ہمارا دشمن نمبر ایک ہے۔ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی، تخریب کاری، علیحدگی پسندی کی کوئی بھی وارداد ہو اس میں بھارت کی خفیہ ایجنسی ملوث ہوتی ہے۔ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے سانحۂ آرمی پبلک اسکول میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے کردار پر شبہ کا اظہار کر کے کوئی غلط بات نہیں کی ۔ ایسے شواہد موجود ہیں، بھارت کی ۶۷ سالہ پاکستان دشمنی کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس واقعہ میں بیرونی ہاتھ ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی اس جائز تشکیک پر بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے سابق سربراہ ’وکرم سود‘ (Vikram Sood)چراغ پا ہوکر اتنے بھڑک گئے کے نا معلوم کیا کیا بک گئے۔عامر لیاقت حسین کو جی ایچ کیو کا غنڈہ اور زر خرید ایجنٹ قرار دینے کے علاوہ اس نے پاک فوج کے خلاف ہرزہ سرائی بھی کی۔ غالبؔ نے شاید ان جیسوں کے لیے ہی یہ شعر کہا تھا ؂
بک رہا ہوں جُنو میں کیا کیا کچھ!
کچھ نہ سمجھے ‘ خُدا کرے ‘ کوئی

یہ کوئی نئی اور اچنبے کی بات نہیں بھارتی سیاست داں ہوں، لکھاری ہوں، صحافی ہوں یا فوجی پاکستان کو اپنا دشمن ہی نہیں سمجھتے بلکہ کوئی دقیقہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اگر انہیں کبھی موقع مل جائے پاکستان کے خلاف بات کرنے کا۔پاکستان کا نام آتے ہی ان کا چہرہ بندر کی بچھاڑی کی مانند سرخ ہوجاتا ہے اور منہ سے جھاگ کے ساتھ انگارے اگلنے لگتے ہیں ۔وکرم سود! تمہیں اگر ہم صرف ’سود‘ کہیں تو پتہ ہے مسلمانوں میں سود کی کیا حیثیت ہے ۔ تم ہمارے لیے سود ہی ہو۔ تمہاری تمام تر باتیں جو تم نے پاکستان ، پاکستانی فوج اور اے ایس آئی کے خلاف بھارتی اخبار’ مڈو ے‘ میں لکھی ہیں۔فضولیات سے زیادہ ان کی اہمیت نہیں۔ ویسے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے اگلے ہی دن ’صبح پاکستان ‘ پروگرام میں حساب برابر کردیا تھا ۔ بہت خوب ڈاکٹر عامر لیاقت حسین ، مزاح آگیا ۔وکرم سود !اگر تم نے وہ پروگرام دیکھا ہوتو بہت اچھا ہوا اگر نہیں تو اُسے ضرور دیکھنا، پڑھنے میں تمہیں وہ لطف نہیں آئے گا جو مزاح عامر لیاقت کی باتوں میں تمہیں اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور کانوں سے سننے میں آئے گا۔ لیکن بھارتیوں میں اتنا حوصلہ ہے کہاں ۔ سنو مسٹر ’سود‘عامر لیاقت نے تمہار ی ہرزہ سرائی کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہا کہ’ سانحہ پشاور میں بھارت کو ملوث کرنے پر بھارتی خفیہ ایجنسی’را‘ کا سابق سربراہ میرے خلاف انگاروں پر لوٹ رہا ہے اور مجھے GHQکا غنڈہ اور زر خرید ایجنٹ قرار دے رہا ہے ، میں اُسے ببانگ دہل یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہم پاکستانی اپنی فوج کے لیے بکتے نہیں بلکہ اُن پر مرتے ہیں، ہمیں کوئی نہیں خرید سکتا کونکہ ہم نے تو اپنے آپ کو پیدا ہوتے ہی اپنے آقا مصطفیٰ ﷺ کی غلامی میں بن داموں بیچ دیا تھا اور اس غلامی نے ہمیں یہ سکھا یا ہے کہ وطن کا دفاع کرنے والوں کے دفاع میں صرف ہم عاشقوں کو نکلنا ہے۔ سنو وکرم سود جی ایچ کیو والے غنڈے نہیں شاہین پالتے ہیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسی کا معیار اس قدر مخدوش ہے کہ ایک ایسے شخص کو اپنا سربراہ بنا یا جسے یہ ہی خبر نہیں کہ ماں کی محبت اور اس کی حرمت کی حفاظت کے لیے دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولنے والے بچوں کو ان کی ماں پیسے نہیں دیتی۔ میں آج بھی اپنے اس بیان پر قائم ہوں کہ سانحہ پشاور کا ماسٹر مائنڈ بھارت ہے ۔ میرے پاس اس کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ پاک فوج پر انتہا پسندی کا الزام لگانے والے خود شیو سینا، وشواہندو پریشد، راشٹر یہ سیوک سنگھ، ہندو مہاسبھا اور بجرنگ دل جیسی انتہا پسند تنظیموں کی سرپرستی کرتے ہیں جو بھارت میں مقیم مسلمانوں کو جبراً ہندو بنارہے ہیں جس سے تمہارا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے کھل کر واضح ہورہاہے‘۔ ابھی تو میں نے بہت سی باتوں کو تحریر ہی نہیں کیا۔ اچھا نہیں لگ رہا وہ تمام باتیں لکھتے ہوئے۔

وکرم سود ! عامر لیاقت نے کیا غلط کہا یہی نا کہ ’پشاور سانحہ کا ماسٹر مائنڈبھارت ‘ہے۔ تم تو ’را‘ کے سر براہ رہ چکے ہو تم سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے کے لیے ’را‘ کیا کچھ نہیں کرتی۔ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو تم آدھے بھارتی سمجھتے ہو، مسلمانوں پر تعلیمی اداروں اور سرکاری محکموں میں ملازمت کے لیے کوٹہ سسٹم کی پابندی بھی موجود ہے۔بھارت میں بھوک و اِفلاس کے مارے مسلمانوں کو ہندو مذہب میں شامل کرنے کے بارے میں منیر احمد بلوچ نے اپنے مضمون ’پُرکھوں کی گھر واپسی‘ (شائع شدہ روزنامہ ’دنیا ‘ ۲۷ دسمبر ۲۰۱۴ء) میں لکھا ہے کہ ’دسمبر ۲۰۱۴ء کے اوائل میں بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کی اتحادی اور نریندر مودی کی بنیادی تربیت گاہ طاقتور راشٹریہ سیوک سنگھ اور بجرنگ دل نے یوپی آگرہ میں ایک مذہبی تقریب میں ۵۷ مسلمان گھرانوں کے ۲۰۰ سے زائد افراد کو دوبارہ ہندومذہب میں شامل کرتے ہوئے جشن منایا اور اس تقریب کو ‘ جس میں ہزاروں ہندوؤں نے باجے گاجے کے ساتھ بھجن گاتے ہوئے شرکت کی، اسے ’’پرکھوں کی واپسی ‘‘ کا نام دیا گیا۔ ان خاندانوں کو دوبارہ ہندومت میں لاتے ہوئے کہا گیا کہ یہ صبح کے بھولے اب گھر آگئے ہیں۔ یہ ہندو خاندان نسلوں سے مسلمان نہیں تھے بلکہ آج سے صرف تیس برس قبل مسلمان بنا دئے گئے تھے‘اس لیے ان کے ہندو دھرم میں واپس آنے سے کوئی قیامت نہیں آگئی۔ آگرہ میں منعقد کی گئی اس تقریب میں بجرنگ دل اور دھرم جگر ان سمان و بھاگ کے مقامی اور ضلعی رہنماؤں نے تقریریں کرتے ہوئے ہندو بنائے جانے والے ان خاندانوں کو خوشخبری دیتے ہوئے کہا کہ اب ان کے لیے بھارت کے کسی بھی تعلیمی ادارے یا سرکاری محکمے میں ملازمت کے لیے کوٹہ سسٹم کی پابندی نہیں رہے گی کیونکہ اب وہ آدھے نہیں بلکہ ’’مکمل بھارتی ‘‘ بن چکے ہیں‘۔ یہ ہے بھارت کا اصلی چہرہ اور اصلی کرتوت۔ تم مجبور و بے کس مسلمانوں کو پھر سے ہندو مت میں شامل کرنے کی منصوبہ بندی کرلو ۔

یاد رکھو ان اوچھے اور گھٹیا ہتھکنڈوں سے مذہب اسلام ختم ہونے والا نہیں،نہ ہی کم ہونے والا ہے، اﷲ نے اس دین کو سلامت رکھنے کا وعدہ کیا ہے۔ اس دین کی فطرت میں اس قدر وسعت اور لچک ہے کہ تا قیامت بڑھتا ہی رہے گا۔ مولانا صفیؔ کا شعر ؂
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اُتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے

اس عمل سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ تم ہندو، ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کو پورا بھارتی تصور نہیں کرتے بلکہ آدھا شہری تصور کرتے ہو۔بھارتی حاکموں نے پاکستان کو پہلے دن سے ہی تسلیم ہی نہیں کیا۔بھارت کا وہ سیاسی لیڈر، صحافی یا لکھاری جو پاکستان کی جس قدر شدید الفاظ میں مخالفت کرے، برا بھلا کہے، حتیٰ کے گالیاں دے وہ بھارتیوں کی پسندیدہ شخصیت ہوتی ہے۔ بھارت میں حکومتیں ہی ان سیاسی جماعتوں کی قائم ہوتی رہی ہیں جنہوں نے اپنے انتخابی منشور میں پاکستان دشمنی کوبنیاد بنایا اور اس پر عمل کیا۔ نتیجے کے طور پر بھارتیوں کے دل و دماغ میں پاکستان مخالف ، پاکستان دشمن عزائم رچ بس گئے ہیں۔ بھارتی سیاست دونوں ہی نہیں بلکہ بھارتی صحافیوں ، لکھاریوں اور اب الیکٹرانک میڈیا پر آکر پاکستان کے خلاف زہر اگلنے والے بھارت کے پسندیدہ تجزیہ نگار قرار پاتے ہیں۔ پچھلے دنوں پی جے میر کے پروگرام میں پاکستانی تجزیہ نگار اور صحافی بھارتی تجزیہ کاروں اور صحافیوں کے آمنے سامنے تھے۔ موضوع پشاور سانحہ ہی تھا۔ بھارتی صحافیوں میں دو خواتین اور دو مرد نمائندے گفتگو میں شریک بھارتی تجزیہ نگاروں کی جو باڈی لینگویج تھی اس سے صاف عیاں ہورہا تھا کہ ان کے اندر پاکستان سے کس قدر نفرت پائی جاتی ہے۔ لکھاریوں ، تجزیہ نگاروں، کالم نگاروں ، ٹی وی اینکرز کا کام تو انتہائی تحمل ، برد باری، شائستگی اور سلجھے ہوئے طریقے سے سوال سننا اور اس کا جواب دینا ہوتا ہے۔ جہاں کسی پاکستانی تجزیہ نگار نے کشمیر کا لفظ استعمال کیا تو بھارتی ایسے بھڑک جاتے ہیں جیسے کسی نے ان کی دم پر پیر رکھ دیا ہو۔ حقیقت تو حقیقت ہے،تمہارے بھڑکنے ، اول فول بکنے سے کشمیر کا مسئلہ تو اپنی جگہ رہے گا۔ مختصر یہ کہ اس پروگرام کو دیکھ کر بھارتی لکھاریوں اور گفتاریوں کا اصلی چہرہ سامنے آگیا۔بھارتیوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ چاہے تم اپنا تن من دھن اس بات پر لگا دو کے پاکستان کوصفحہ ہستی سے مٹا دو گے یہ تمہاری خام خیالی ہے۔تمہاری گیدڑ بھپکیوں سے پاکستان کے غیور عوام ڈرنے والے نہیں۔ پاکستان ختم ہونے کے لیے نہیں یہ ہمیشہ قائم ودائم رہنے کے لیے بنا ہے۔ تمہارے آنجہانی لیڈرنہرو، اندرا گاندھی اور دیگر یہ خواہش لیے اس دنیا سے جا چکے ان کی خواہش پوری نہیں ہوئی اب جو باقی پاکستان دشمن بھارتی ہیں ان کا انجام بھی انہی جیسا ہی ہوگا۔

بھارت نے پاکستان میں صوبائیت کو پروان چڑھانے کے لیے نتِ نئے ہتھکنڈے استعمال کیے۔ کیا مشرقی پاکستان اندرونی معاملات کی وجہ سے بنگلہ دیش بن گیا؟نہیں ہر گز نہیں۔ اس میں بھی بھارت نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ہماری آپس کی غلطیاں، زیادتیاں ہو سکتی ہیں وہ ہمارا آپس کا معاملا تھا، ایک بھائی دوسرے بھائی کے ساتھ زیادتی کرسکتا ہے، اختلافات کس گھر میں نہیں ہوتے لیکن بھارت نے مشرقی پاکستان کے مسلمانوں میں صوبائیت کے زہر کو ہوا دے کر پاکستانی قوم کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے سیاسی تدبر کو سلام انہوں نے قیام پاکستان کے فوری بعد ہی بھارت کی پاکستان دشمنی کو کھلے الفاظ میں بے نقاب کردیا تھا۔ ہم ہی کم عقل اور بد قسمت ہیں کہ ہم نے اپنے محسن کی باتوں کو نظر انداز کردیا۔ قائداعظمؒ نے مارچ ۱۹۴۸ء جب کہ پاکستان کو قائم ہوئے ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا تھا بھارت کی مکاری کو بھانپ لیا تھا ۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا’ہندوستان قیام پاکستان کے حوالے سے شکست کا انتقام لے رہا ہے اور تمہارے اندر تعصبات کو ہوا دے رہا ہے۔ اپنے پڑوسی کے عزائم کے ہاتھوں میں مت کھیلو‘۔ ایک اور بات جو قائد اعظم ؒ نے کہی کہ ’ صوبائیت زہر ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ صوبائیت کا زہر قومی جسم میں سرایت کررہا ہے۔یہ قوم کو اندرونی طور پر تقسیم کرنے کی سازش ہے ۔ میں تمہیں انتباہ کرتا ہوں کہ صوبائیت کے زہر کو اپنے ذہن سے نکال کر باہر بھینک دو اور اپنی صفو میں اتحاد پیدا کر لو‘۔ یہ وہ باتیں ہیں جو بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے بھارتی عزائم کے بارے میں قیام پاکستان کے صرف چھ ماہ بعد ہی محسوس کرلیے تھے اور ان سے پاکستانی قوم کو ببانگِ دہل آگہا بھی کردیا تھا لیکن ہم نے اس جانب توجہ ہی نہیں دی اور شاید اب بھی بھارت کی اس دشمنی سے غافل ہیں۔ مشرقی پاکستان کے بعد بھارت کا اگلاحدف بلوچستان ہے ،بے شمار شواہد ہیں جو بھارت کی پاکستان خلاف سرگرمیوں کا اعلان کر رہے ہیں۔ سانحہ پشاور ہی کیا اس سے قبل ہونے والے تخریب کاری کے واقعات کا ماسٹرمائنڈبھارت ہی تھا۔بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو اسلحہ اور امداد کون فراہم کررہاہے؟ خیبر پختونخواہ میں ہونے والے دہشت گردی کی کاروائیوں میں بھی ’را‘ کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ کراچی میں ہونے والے ڈاکیارڈپر حملہ ’را‘ کی کاروائی نہیں تھی ؟جس میں ملوث کچھ کمیشنڈ افسران حملے کی ناکامی کے بعد افغانستان فرار ہوتے ہوئے بلوچستان کی پاک افغان سرحد پرپکڑ ے نہیں گئے تھے؟افغان حکومت ، فوج اور خفیہ اداروں کو بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کی سرپرستی حاصل ہے ۔ انہوں نے تحریک طالبان پاکستان کے سینئر لیڈروں کو افغانستان میں پناہ نہیں دے رکھی؟کوئی ایک واقعہ ہے جس میں بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ملوث ہونے کے شواہد موجود نہ ہوں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بھارت کی پاکستان دشمنی پر کڑی نظر رکھیں، آپس میں اتحاد و اتفاق قائم رکھیں تب ہی دشمن کو منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں۔قوم متحد ہو اور ہماری سیاسی و عسکری قیادت مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ ہو ، بنیادی نوعیت کے مسائل کو سنجیدگی کے ساتھ ایڈریس کرنے کا پختہ عزم ہو تو بھارت تو کیا بڑے سے بڑے دشمن کو مقابلہ کرنا مشکل نہیں۔(۴ جنوری ۲۰۱۵ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1286266 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More