بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں تاخیر کیوں؟

مقامی حکومتوں کا نظام عوام کے بہترین مفاد میں ہے ۔

مقامی حکومتوں کا نظام عوام کے بہترین مفادمیں ہوتا ہے۔پاکستان میں بھی اس سسٹم کا، کامیاب تجربہ ہو چکا ہے۔ جس کے تحت ملک بھر میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام اس دور میں ہوئے۔ اس لئے اس سسٹم کو جمہوریت کی بنیاد بھی کہا جا تا ہے۔ جس کی بدولت نہ صرف اختیارات نچلی سطح پر تقسیم ہوتے بلکہ عوامی مسائل بہتر انداز سے حل ہونے میں پیشرفت بھی ہوتی ہے۔مقامی حکومت کے نظام کی عدم موجودگی سے پاکستانی جمہوریت کی مثال کسی ایسے درخت کی جیسی ہے جس کی جڑیں دھرتی میں پیوست ہی نہیں۔ اس وقت کئی مسلم اورمغربی ممالک میںمقامی حکومتوں پر مبنی بلدیاتی نظام اپنی بھرپور افادیت کے ساتھ کام کررہا ہے ۔اٹھارویںآئینی ترمیم کے ذریعہ وفاق سے صوبوں کو ،کئی اختیارات کی منتقلی ہوئی جس میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کا کرایا جانا بھی شامل ہے ۔ یہ ایک ایسا قانونی تقاضا ہے جس کے تحت صوبے پابند ہیں کہ وہ مقامی حکومتوں کے قیام کیلئے ضروری قانون سازی کریں۔ لیکن آج تک بلوچستان کے علاوہ باقی تینوں صوبوں کی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے۔آخر اس کی وجہ کیا ہے۔کچھ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ ہماری حکومتیں اس نظام کو اپنے خلاف تصور کرتی ہیں۔مقامی حکومتوں کے انتخابات کے کرائے جانے کے لیے اس ملک کی اعلی ترین عدالت بھی کئی بار احکامات صادر کر چکی ہے۔ مگر ہماری حکومتوں پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ تاحال مقامی حکومتوں کے انتخابات کا انعقاد کے ہونے کا کوئی مثبت اشارہ ہمیں نہیں ملتا۔آئین میں اس کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں پر ڈالی گئی ہے کہ وہ اس کے لیے ضروری قانون سازی کریں۔تاکہ انتخابات ہوسکیں پھرجس کی روشنی میں منتخب اداروں کو درکار ضروری وسائل اور انتظامی اختیارات تفویض کیے جاتے ہیں تا کہ عوام اپنی قریب ترین سطح پر وہ سہولیات با آسانی حاصل کر سکیں جو اس ملک کا شہری ہونے کے ناطے ان کا بنیادی حق ہے۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مقامی حکومتوں کا نظام اپنی فعالیت، اثر پذیری اور مثبت نتائج کے اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ایک ایسا طرزِ حکومت ہے جس میں لوگ مقامی طور پر اپنے علاقہ یعنی وارڈ کی سطح پراجتماعی بھلائی کی ذمہ داری سونپ کر نہ صرف ان کی کارکردگی پر نگاہ رکھتے ہیں بلکہ دسترس میں ہونے کے باعث ان کا احتساب بھی مشکل نہیں ہوتا۔ امیدوار کو علم ہوتا ہے کہ رائے دہندگان اس کے کردار و عمل سے بخوبی واقف ہیں اور اگر انہوں نے اپنے نمائندے کے طور پر اسے چن لیا تو وہ یقیناًاپنے مسائل کا حل چاہیں گے اور کوتاہی برتنے پر اسے کوئی چھوٹ بھی نہیں ملے گی ۔دوسرا ، یہ کہ محدود حلقہ انتخاب کے باعث اخراجات بھی زیادہ نہیں ہوتے، یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صحت و صفائی، تعلیمی سہولیات اور تعمیر و ترقی کے حوالے سے مقامی منتخب نمائندے اس بنا پر زیادہ سنجیدگی ، ذمہ داری اور خلوص کا مظاہرہ کریں گے کیونکہ ان کے اپنے بچوں نے اسی ماحول میں سانس لینا، کھیلنا کودنا اور پڑھنا ہوتا ہے علاقہ کے اہل خانہ انسے باز پرس کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔اسی طرح اگر نکاسی آب اور صفائی کا انتظام اچھا نہ ہو تو مقامی آبادی یونین کونسل میں آسانی سے اپنے اس مسئلہ کے حل کی خاطررابطہ کر لیتے ہیں۔لوگوں کے درمیان چھوٹے موٹے تنازعات اور گھریلو جھگڑے مقامی، ثالثی کونسل میں نمٹا دئیے جانے کے باعث محکمہ پولیس اور عدالتوں پر کام کا غیر ضروری بوجھ نہیں پڑتاجس سے امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے اور انصاف کی فراہمی میں مدد ملتی ہے۔

اختیارات کی عدم مرکزیت کا اصول اٹھارویں آئینی ترمیم کی روح ہے جس کے تحت وفاق کی اکائیوں کو 1973ءکے آئین میں دی گئی ضمانت کے تحت بالآخر خودمختاری ملنے کا امکان پیدا، ہوا۔صوبے اس وفاق کے تابع کے بجائے برابر کی آئینی حیثیت کے مالک ہیں اور اہم قومی معاملات پر فیصلہ سازی کے عمل میں صوبوں کی رائے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن اراکین اسمبلی کو اپنی اصل ذمہ داری یعنی قانون سازی سے زیادہ افتتاحی تختیاں لگوانے میں دلچسپی ہوتی ہے ۔کیا ستم ظریفی ہے کہ ڈاکٹر محبوب الحق جب دنیا کو ترقی کے اشارے دے رہے تھے اور ان کے وضع کئے گئے پروگرام کو دنیا بھر میں پذیرائی حاصل ہورہی تھی اس وقت یہاں پاکستان میں اراکین پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈز دے کر ٹھیکیداری کا چسکا لگایا جا رہا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن ہمارے منتخب نمائندوں کی خوئے ٹھیکیداری ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ٹھہری، پارٹی ٹکٹ کے حصول اور الیکشن مہم پر اٹھنے والے بھاری مصارف کی سود سمیت وصولی اور اپنے نام کی تختی کے ذریعہ شہریت کا نشہ دو آتشہ ہو جاتا ہے۔مقامی حکومتوں کے قیام کی راہ میں رکاوٹ یہ ٹھکیدار سیاست دان بھی ہیں۔ تا ہم مقامی حکومتوں سے پاکستانی سیاسی جماعتوں کے خوف کا بنیادی سبب ریاستی اختیارات میں غریب طبقات کی شراکت داری اور اس کے نتیجہ میں بنیادی حقوق کے شعور کی بیداری ہے،حالانکہ صوبوں میں برسراقتدار ریاستی جماعتیں وفاق سے اپنے لیے تو مزید اختیارات اور وسائل کی فراہمی پر اصرار کرتی ہیں لیکن انہیں شاید یہ گوارا نہیں کہ مقامی سطح پر عوام اپنی تقدیر کے مالک خود بن سکیں۔اور مقامی حکومتوں کے تحت مقامی نمائندے ان سے یہی وسائل مانگیں ۔ کوئی بھی صوبائی حکومت،بیوروکریسی اور خاص طور پر ارکان ِ اسمبلی اختیارات تقسیم کرناہی نہیں چاہتے بلدیاتی انتخابات ہو نے سے عام آدمی بھی اختیارات کی دوڑ میں شامل ہو جو اس ٹرائیکا کو گوارا نہیں۔ ہماری سیاسی پارٹیاں ،پارٹی الیکشن کے بجائے نامزدگیوں سے کام چلاتی ہیں ایسی سیاسی جماعتیں جو اپنے اندر جمہوریت کا راستہ روک کے رکھتی ہیں وہ بھلا بنیادی جمہوریت کے تصور کو کس طرح قبول کریں گی۔

اب مزید تاخیر نہ کی جائے۔ سیاسی جماعتیں خوف کی یہ چادر اتارکر مقا می سطح پر شہریوں کو ریاستی معاملات میں شرکت کا احساس دلانے کیلئے مقامی حکومتوں کے انتخابات کی ذمہ داری پوری کی جائے۔ویسے بھی اگر دیکھاجائے تو مقامی حکومتوں کے انتخابات کا انعقاد نہ کراتے ہوئے حکومتیں جہاں آئینی تقاضے پورے نہیں کر رہیں وہاںیہ بھی ہے کہ توہین عدالت بھی کی ہورہی ہے۔ عدالتیں کئی سالوں سے بلدیاتی انتخابات کروانے کا حکم دے رہی ہیں حکمرانوں نے اس حکم کو ہوا میں اڑا دیا اور آج تک بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے۔ پنجاب اورسندھ میں امیدواروں سے دو دوبار فیسیں جمع کرائی گئیں مگر الیکشن کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں۔80ہزارسے زائد امیدواروں کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ۔ چیئر مین، وائس چیئر مین کے ہزاروں امیدواروں نے مشکل صورت ِ حال کے باوجود اپنے پینل مکمل کئے ،فلیکس، سٹکر، اشتہار،بینربنائے اور انتخابی دفترقائم کئے ۔ امیدوارںنے لاکھوں روپے خرچ کرڈالے لیکن الیکشن ملتوی ہونے سے سب مٹی ہوگیا۔اور سب پینل ٹوٹ گئے مقامی حکوت کے نظام کی ایک خوبصورتی یہ بھی ہے کہ اس سے متعارف ہونے والے مقامی نمائندے آگے چل کر ملکی سیاست میں حصہ لیتے ہوئے وہاں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ آج پارلیمنٹ میں درجنوں سیاستدان ایسے موجودہیں جو بلدیاتی اداروں کی پیداوار ہیں مقامی حکومت اوربنیادی جمہوریت کے اس پلیٹ فارم پر کام کرنے والے ہمیشہ فعال کردار کے حا مل رہے ہیں۔کسی بھی لحاظ سے مقامی حکومتوں کا نظام غلط نہیں اور پاکستان میں تو اس کی اشد ضرورت ہے۔حکمران ٹولہ عقل کے ناخن لے اور فوری طور پر ایسے سنجیدہ اقدامات کئے جائیں کہ بلدیاتی اداروں کے انتخابات کا انعقاد ممکن ہوسکے۔بلاشبہ بلوچستان کی حکومت تعریف کے قابل ہے کہ صوبے میں مقامی حکومتوں کے تحت تیسرے اور مرحلہ کے بھی انتخابات ہوگئے ہیں۔

riaz jazib
About the Author: riaz jazib Read More Articles by riaz jazib: 53 Articles with 53147 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.