جمہوریت اور فوجی عدالتیں

دنیا میں فوج جمہوری نظا م کا حصہ ہوا کرتی ہے۔وہ حکومت کا ایک ادارہ ہونے کے ناطے ملک کے دوسرے اداروں کی طرح آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے وہ ملک اور جمہوریت کی مضبوطی کے لئے اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے تو حکومت شاید باپ کے جیسی۔ادارے اولاد کی مانند ہوتے ہیں۔ماں اور باپ مل کے اولاد کی تربیت بھی کرتے ہیں اور انہیں کینڈے میں رکھتے ہیں۔یہ اسی صورت ممکن ہے جب ماں باپ سیرت وکردار کے لحاظ سے اپنی اولاد کے لئے مشعلِ راہ ہوں۔یہ بات ضرور آپ کے مشاہدے میں آئی ہو گی کہ جہاں ماں باپ کسی بھی لحاظ سے کمزوری کا اظہار کریں تو اولاد ان کی جگہ لینے میں دیر نہیں لگاتی۔وطنِ عزیز کی تاریخ آپ کے سامنے ہے۔ایوب خان جب آئے تو سیاستدان جوکر رہے تھے وہ تاریخ نے اپنے دامن میں محفوظ کر رکھا ہے۔وہ دن اور آج کا دن بیٹے باپ کے رول میں ہیں اور باپ اپنی ـازلی کمزوری کی بناپہ بیٹے کی سنتا ہے اور سر دھنتا ہے۔ابا کمزور ہو تو اولاد بھی بڑے بھائی کی طرف دیکھنے پہ مجبور ہوتی ہے۔پاکستان میں چونکہ کوئی ادارہ مضبوط نہیں اس لئے یہاں بھی ایمرجنسی کی حالت میں ہر ادارہ بجائے ابا جی سے راہنمائی لینے کی بجائے بڑے بھائی کی طرف دیکھتا ہے۔

افتخار چوہدری نے ہمت کی اور ہم جیسے قنوطیوں نے فوراََ ہی ان سے امیدوں کے انبار لگا دئیے۔ہمیں ان میں ہر خوبی نظر آنے لگی۔انہوں نے مختلف کیسز میں ابا جی یعنی حکومتِ وقت کے لتے لینے شروع کئے تو ہم نے توقع باندھ لی کہ اب ہمارے ملک میں بھی دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ شیر اور بکری ایک گھاٹ پہ پانی پئیں گے۔وہ حرف انکار کا تاج پہنے شخص لیکن ارسلان افتخار کی بی ایم ڈبلیو کے دو نفلوں کی مار نکلا۔کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مترادف افتخار چوہدری کا ملمع اترا تو پتہ چلا کہ ان کے پیچھے انصاف کی نہیں اتفاق کی قوت طاقت اور دولت تھی۔افتخار چوہدری کی ساری ریاضت اور محنت انصاف کی فراہمی اور عدل کی سر بلندی کے لئے نہیں بلکہ ابا بدلنے کے لئے تھی۔ابا بدل گیا لیکن ریاست کے حالات نہیں بدلے۔بد عملی بے عملی اور کہہ مکرنی کا عمل جاری رہا یعنی وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔بڑے بھائی کی کھڑ پینچی پہ جو تھوڑی دیر کو زوال آیا تھا وہ خواب و خیال ہوا اور آج بڑا بھائی پھر ڈرائیونگ سیٹ پہ ہے اور اس وقت تک رہے گا جب تک ماں جیسی ریاست کو کوئی بہت تگڑا اور با کردار ابا نہیں مل جاتا۔

دہشت گردی کے خلاف رنگ بدلتی جنگ جو کبھی امریکہ کی ہوتی ہے اور کبھی ہماری۔ پہلے اس کا شکاربڑے تھے لیکن اب یہ ہمارے بچے کھانے پہ اتر آئی ہے۔معصوم بچوں کے جس طرح گلے کاٹے گئے ۔عورتوں کے اوپر جس طرح پاؤڈر چھڑک کے انہیں نذر آتش کیا گیا۔ معصوموں کے سر اور چہروں پہ کلاشنکوف کے برسٹ مارے گئے۔سینکڑوں شہید ہوئے اور بیسیوں بنا چہرے کے ہسپتالوں میں پڑے ہیں۔ان کے چہرے ظالموں کی سفاکی اپنے ساتھ لے گئی۔انتشار و افتراق کی ماری قوم کو اس خونیں حادثے نے جنجھوڑ کے رکھ دیا۔قوم یوں متحد ہوئی کہ کارپردازان کو بھی ایک میز پہ بیٹھنا پڑا۔ شنید ہے کہ انہیں بتایا گیا کہ آپ کر لیں ورنہ ہم کر لیں گے۔موبائل باہر رکھوا لئے گئے۔سیاستدان تو ایک گھنٹہ کہیں ٹک کے نہیں بیٹھ سکتے۔دس گھنٹے تک انہیں بٹھایا گیا۔لیت ولعل تو تھی لیکن آہنی لوگوں کو آہنی عزم اور آہنی لہجے نے بہت سارے لوگوں کو فیصلے تک پہنچنے میں مدد دی۔فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ ہو گیا۔ ہمارے ملک میں بوجوہ ہماری عدالتی نظام انصاف مہیا نہیں کر پا رہا۔ آپ اپنے ساتھیوں کو قربان کر کے اپنے سر پہ کفن باندھ کے ایک خونی درندے کو قابو کر کے نظام کے حوالے کرتے ہیں۔جان کسے پیاری نہیں ہوتی۔گواہ ڈرتے ہیں ججوں کو اپنے بچے پیارے ہوتے ہیں۔سر عام اپنے آپ کو کوئی موت کے حوالے نہیں کرتا۔دہشت گرد چھاتی کے بٹن کھول کے اپنے پکڑنے والوں کا منہ چڑاتا انہی کے سینے پہ مونگ دلتا کسی نئی کاروائی کی منصوبہ بندی میں مصروف ہو جاتا ہے۔پکڑنے والا فوجی ہو ،پولیس والا ہو رینجرز یا ایف سی والا۔اس شخص کو یوں آزاد گھومتا دیکھ کے اس کا دل کرتا ہے کہ خود کش جیکٹ پہن لے اور ایک ہی لمحے میں اس بوسیدہ خوفزدہ نظام کے پرخچے اڑا کے رکھ دے۔یہ نہ ہوتا توریاست کی رٹ کو چیلینج کرنے والا،اپنی عدالتیں لگانے والا،دہشت گردوں کو پناہ دینے والا،اوقاف سے تنخواہ لینے والالال مسجد کا ملاں ایک سو چوالیس شہادتوں کا یوں مذاق اڑاتا۔

حکومت کے ترجمان پرویز رشید فرماتے ہیں کہ فوجی عدالتیں جمہوریت بچانے کے لئے ہیں۔نہیں جناب والا! آگ لگے ایسی جمہوریت کو جس میں جمہور کو لاشوں آہوں اور سسکیوں کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔فوجی عدالتیں جمہوریت بچانے کے لئے نہیں اب کے ملک بچانے کے لئے ہیں۔آپ کو کان ہوں کہ فوجی عدالتیں آپ اور آپ کے ساتھیوں کی مرضی سے بن جائیں تو شاید یہ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں لیکن اگر یہ آپ کی رسمی منظوری کے بغیر بھی بن گئیں تو پھر جان لیں کہ آصف زرداری کی خدشات حقیقت کا روپ دھار لیں گے کہ اس وقت پوری قوم کا ایک ہی موڈ ہے اور وہ ہے ملک سے دہشت گردی کا جڑ سے خاتمہ۔جب تک آپ کا نظامِ عدل پوری قوت کے ساتھ کام کرنے کے قابل نہیں ہوتااس وقت تک فوجی عدالتوں کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

دو سال دہشت گردی کے معاملات ان لوگوں کے حوالے کر دیں جو جان ہتھیلی پہ رکھ کے ان کو پکڑتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنے اداروں کو مضبوط کریں اور یاد رکھیں کہ کراچی میں بانوے کے آپریشن کے بعد ہر اس پولیس افسر کو چن چن کے مار دیا گیاجس نے اس آپریشن میں حصہ لیا تھا۔مارنے والوں کو ہر ایک جانتا ہے اور ان کا گاڈ فادر آج دہشت گردی کے سب سے بڑے خالف کے طور پہ اپنے آپ کو پیش کرتا ہے۔ بد معاشی کا یہ عالم ہے کہ ملک کا وزیر اعظم قو سے خطاب کر رہا ہو اور لندن سے خطاب شروع ہو جائے تو وزیر اعظم کو کٹ کر کے موصوف کو لائیو کر دیا جاتا ہے۔آزاد میڈیا؟ بوری سے کسے ڈر نہیں لگتا۔بوری بوری پہ لکھا ہے مرنے والے کا نام۔

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268583 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More