قائد اعظم کی سیاسی بصیرت

تحریک علی گڑھ کا آغاز ہواہی چاہتاتھاکہ برصغیر پاک و ہند کے سیاسی افق پر وہ روشن ستارا نمودار ہواجوظاہری خدوخال میں نحیف مگر دماغ میں طلاطم خیز موجوں کے ساتھ ہندوستان کی تقدیر بدل ڈالی۔محمد علی جناح سے قائد اعظم تک کا کٹھن سفر 50سالوں تک محیط ہے۔ شعبہ وکالت سے 1897ء میں منسلک ہوئے۔ تین سال تک کے لازوال صبر کے بعد پہلا مقدمہ لڑا اور پھر 1900 میں بمبئی پر یذیڈنسی مجسٹریٹ پی ایچ ڈاسٹر کے اچانک عہدہ چھوڑنے پر اس عظیم ہستی کو 1500 روپے ماہوار پر ملازمت کی پیشکش ہوئی۔ مگر آپ نے یہ کہہ کر یہ پیشکش ٹھکرادی کہ اتنی رقم میں روزانہ کمانا چاہتاہوں۔ تاریخ کے صفحات پلٹیے تو یہ وہی قائد ہے جس نے بطور گورنر جنرل آف پاکستان 1 روپیہ ماہوار پرعہدہ قبول کیا۔ 1906ء میں کانگریس میں شمولیت اس سوچ پر کی کہ شاید یہ جماعت ہندوستان کی نمائندہ جماعت ہے۔ 1913ء میں آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستہ ہوئے اور ہندومسلم اتحاد کی طرف پہلی پیش قدمی 1916ء میں میثاق لکھنو کی صورت میں کی۔ تحریک خلافت کے دوران ہندوؤں کے منافقانہ رویہ دیکھ کر کانگریش سے علیحدگی اختیار کی اور شاہ برطانیہ کو واضح پیغام دیا کہ اب صرف Leave India نہیں بلکہ Divide and Leave India کا فارمولہ قابل عمل ہوگا۔

محمد علی جناح کی سیاسی زندگی کا نقطہ عروج وہ دور ہے جب ہندوؤں نے نہرورپورٹ شائع کی۔ برصغیر پاک وہند کے عظیم قانون دان نے چودہ ایسے نکات پیش کرکے نہرو رپورٹ کا منہ توڑ جواب دیا جس کی ہندوؤں کو قطعی توقع نہ تھی۔ قائد اعظم کی سیاسی بصیرت کو جانچتے ہوئے انہیں 1935 ء میں مسلم لیگ کا صدر منتخب کرلیا جاتاہے اور یہ وہ بارہ سال ہیں جو اس عظیم رہنما نے ٹی ۔بی جیسے جان لیوا مرض کے ساتھ جنگ لڑ کر مسلمانان ہندوپاک کی کشتی کو کنارے تک پہنچایا ۔1936ء میں مسلم لیگ کی تنظیم نو کی اور پھر 23مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور کو منظور کروا کر دنیا کو یہ باور کرادیا کہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں اور ان کا جداوطن کا مطالبہ ان کاآئینی ، قانونی اور اخلاقی حق ہے۔

اگر ہم یہ کہیں تو بے جانہ ہوگا کہ دو قومی نظریہ کے بانی سرسید احمد خان ہیں تو اسکو عملی جامہ پہنانے کا سہرہ قائد کو جاتاہے۔ 1945-46ء کے انتخابات کے نتائج نے برطانوی سامراج کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ مسلمانوں کو علیحدہ وطن دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ قائداعظم نے تاریخ سے کئی قوموں کے علیحدہ وطن کے ثبوت دیے اور برطانوی وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو واضح کردیا کہ ہندوستان کا مسئلہ صرف مذہبی نہیں ہے بلکہ روحانی، معاشرتی اور معاشی بھی ہے اور اسے اس تناظر میں ہی دیکھا جانا چاہیے۔ انہوں نے لندن ٹائمز کے ہندومسلم یک قومیت کے تصور کو یکسررد کردیا۔ قائد اعظم کے دلائل سے قائل ہوکر سلطنت برطانیہ نے بالآخر 14اور15 اگست کی درمیانی شب کو ہندوستان کی آزادی اور اسکی تقسیم کا اعلان کردیا۔ ایمان، اتحاد اور تنظیم جیسے سنہری اصولوں کے ساتھ جس علیحدہ ریاست کے مقصد کے لئے جناح آگے بڑھے تھے آج وہ اسکے گورنر جنرل منتخب ہورہے تھے۔ پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں قائد ملت لیاقت علی خان نے محمد علی جناح کو قائد اعظم کا خطاب عطاء کرنے کے لیے اسمبلی میں قرارداد پیش کی جسے کثرت رائے سے منظور کرلیاگیا۔ قیام پاکستان کے بعد تقدیر نے قائد اعظم کو زیادہ مہلت نہ دی اور صرف ایک سال بعد ہم سے بچھڑ گئے ۔

آج پروٹوکول پر کروڑوں روپے اڑانے والے سیاستدانوں کو قائد کی زندگی کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ شاہی ضیافتوں پر قوم کے خون سے چوسی ہوئی دولت کو بے دردی سے لٹانے والے رہنماؤں کو قائد کی اسمبلی ممبران کے ساتھ پہلی میٹنگ کو یادرکھنا چاہیے جب انہیں سے کسی افسر نے پوچھا کہ ان کے لیے چائے لائیں یا کافی تو قائد نے جواب دیا کہ کیا یہ لوگ گھر سے چائے اور کافی پی کر نہیں آئے؟قائد اعظم کی عظمت کا اعتراف تو خودہندو لیڈروں نے بھی کیا جنہوں نے کہاتھا کہ اگر ہمارے پاس آدھا قائد اعظم بھی ہوتا تو ہم پاکستان کبھی نہ بننے دیتے ۔ G-Allana نے انکی شخصیت پر The Leberator کے نام سے مضمون تحریر کیا اور Stanley Wolport نے قائد اعظم کی سوانح حیات میں انہیں بر صغیر پاک و ہند کا عظیم رہنما قرار دیا۔

قائد اعظم نے ہمیشہ کام، کام اور مزید کام پر یقین رکھا۔ ہندوؤں کی چالوں اور مکاریوں کا منطق اور دلائل سے جواب دیا مگر ہم نے قائد کے خواب کو چکنا چو ر کردیا۔ آج ہم خود اپنے لیے نت نئی جالیں بن رہے ہیں۔ وطن عزیز بھنور میں پھنستا جارہاہے۔
؂ یہ ملک ہے سب کا مگر اسکا نہیں کوئی
اس کے تن خستہ پر اب دانت ہیں سب کے

آج ملکی جغرافیائی حدبندیوں کے سودے کیے جارہے ہیں۔ بابائے قوم کا یہ وطن اغیار کی بیساکھیوں پر چل رہاہے۔ ہر آنیوالی حکومت نے حسب اسطاعت اسے لوٹا۔ ہر طرف موت کا راج ہے۔ آج کا رہبر راہزن ہے۔ اے قائد ہم تیرے دیس کی حفاظت نہ کرسکے۔ ہم شرمندہ ہیں کہ ہم نے اپنے اسلاف کے خون کے ساتھ دغا کیاہے۔ ہم رب کائنات سے دست بستہ دعاگو ہیں کہ ہمیں قائد اعظم جیسی قیادت نصیب فرما۔ جو اس ملک کو کچھ دے سکے اے رب کعبہ ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ اس وطن نے ہمیں کیا دیاہے ہمیں وطن کو کچھ دینے کی سوچ عطا فرما۔ آمین

Mushtaq Ahmad kharal
About the Author: Mushtaq Ahmad kharal Read More Articles by Mushtaq Ahmad kharal: 58 Articles with 105237 views Director princeton Group of Colleges Jatoi Distt. M.Garh and a columnist.. View More