لاپتہ طیارہ اور تلاش سے متعلق چند حقائق

انڈونیشیا کے حکام نے کہا ہے کہ انھیں انڈونیشیا کے جزیرے بورنیو کے قریب بحیرہ جاوا میں اتوار کے روز لاپتہ ہونے والے ایئر ایشیا کے مسافر بردار طیارے کا ملبہ نظر آ گیا ہے۔

بی بی سی کے مطابق انڈونیشیا سے سنگاپور جاتے ہوئے دورانِ پرواز لاپتہ ہونے والے نجی فضائی کمپنی ایئر ایشیا کے مسافر بردار طیارے کی تلاش کا عمل تیسرے دن بھی جاری ہے۔
 

image


بحیرہ جاوا میں جاری تلاش کا عمل بین الاقوامی آپریشن کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس میں انڈونیشیا کو سنگاپور، ملائیشیا اور آسٹریلیا کے علاوہ اب امریکہ کی مدد بھی حاصل ہے۔

منگل کو بنکا بیلی ٹنگ میں انڈونیشیا کی تلاش مہم کے سربراہ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ بیلی ٹنگ جزیرے کے جنوب میں لانگ جزیرے کے لیے ٹیم روانہ کر رہے ہیں جہاں سے دھواں اٹھنے کی اطلاعات ملی ہیں۔

مہم کے سربراہ اینڈریانڈی نے کہا کہ پیر کو چین کے ٹی وی کے عملے نے مشرقی بیلی ٹنگ سے 29 میل کے فاصلے پر دھواں اٹھتے دیکھا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ ’یہ بہت ممکن ہے کہ یہ دھواں لاپتہ ایئر ایشیا کے طیارے کا ہو لیکن پھر بھی اس کی تصدیق ضروری ہے۔‘

دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے ممکن ہے اس دھوئیں کا طیارے سے کوئی تعلق نہ ہو۔

امریکی بحریہ کا کہنا ہے کہ اس نے ایئر ایشیا کی لاپتہ پرواز کی تلاش کی کارروائی میں ہاتھ بٹانے کے لیے اپنا ایک بحری جہاز روانہ کر دیا ہے۔

امریکی حکام کے مطابق یو ایس ایس سیمپسن منگل کو بحیرۂ جاوا پہنچ رہا ہے۔

اس کے علاوہ جنوبی کوریا، تھائی لینڈ اور چین نے بھی مدد کی پیشکش کی ہے۔
 

image

انڈونیشیا کے تلاش اور بچاؤ کے ادارے کے سربراہ ہنری بمبانگ سوئلستیو کے مطابق اس وقت 30 بحری جہاز، 15 طیارے اور سات ہیلی کاپٹر لاپتہ طیارے کی تلاش میں مصروف ہیں۔

ادھر انڈونیشیا کے حکام کا کہنا ہے کہ سنگاپور جاتے ہوئے لاپتہ ہونے والے طیارے کے پائلٹ نے ایئر ٹریفک کنٹرول سے اپنی آخری بات چیت میں جہاز کو مزید بلندی پر لے جانے کی اجازت مانگی تھی۔

حکام کے مطابق اس درخواست کے دو سے تین منٹ کے بعد پائلٹ کو اجازت دے دی گئی لیکن دوسری جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔

ملائیشیا کی نجی فضائی کمپنی ایئر ایشیا کی پرواز کیو زیڈ 8501 اتوار کی صبح انڈونیشیا کے جزیرے جاوا سے سنگاپور جاتے ہوئے بحیرۂ جاوا کے اوپر لاپتہ ہوئی ہے۔

اس ایئر بس اے 320 طیارے پر عملے کے ارکان سمیت 162 افراد سوار تھے اور پرواز کے 45 منٹ بعد اس کا رابطہ ایئر ٹریفک کنٹرول سے منقطع ہوگیا تھا۔

دو دن کی تلاش کے باوجود تاحال اس کا کچھ پتہ نہیں چل سکا ہے اور اب امریکہ نے تصدیق کی ہے کہ انڈونیشیا نے اس سے مسافر طیارے کی تلاش کے لیے مدد کی درخواست کی ہے۔

پیر کی شب انڈونیشیا کے سرکاری نیوی گیشن ادارے ایئرنیو انڈونیشیا نے لاپتہ پرواز کے پائلٹ کی کنٹرول ٹاور سے آخری گفتگو جاری کی ہے۔

ادارے کے سیفٹی ڈائریکٹر وسنو دارجونو کا کہنا ہے کہ طیارے کے 53 سالہ کپتان اریانتو نے چھ بج کر بارہ منٹ پر طوفان سے بچنے کے لیے بائیں مڑنے کی اجازت مانگی جو فوراً دے دی گئی اور طیارے نے اپنا راستہ بدل لیا تھا۔
 

image

ایئر نیو انڈونیشیا کے مطابق اس کے بعد پائلٹ نے طیارے کو 32 ہزار فٹ کی بلندی سے 38 ہزار فٹ پر لے جانے کی اجازت مانگی مگر اس کی وجہ نہیں بتائی۔

سنگاپور میں حکام سے بات چیت کے بعد انڈونیشیا کے ایئر ٹریفک کنٹرول نے پائلٹ کو پیغام دیا کہ وہ طیارہ 34 ہزار فٹ تک لے جا سکتا ہے کیونکہ 38 ہزار فٹ پر ایئر ایشیا کا ہی ایک اور طیارہ موجود ہے۔

وسنو دارجونو کا کہنا تھا کہ ’ہمیں سنگاپور میں ایئر ٹریفک کنٹرول سے رابطے میں دو سے تین منٹ لگے لیکن جب چھ بج کر 14 منٹ پر ہم نے پائلٹ کو اس بارے میں بتایا تو ہمیں کوئی جواب نہیں ملا۔‘.

ادھر منگل کو طیارے کی تلاش کا کام دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔

بحیرہ جاوا میں مسافر بردار طیارے کی تلاش کی کارروائی میں درجنوں کی تعداد میں طیارے، ہیلی کاپٹر بحری جہاز اور کشتیاں حصہ لے رہی ہیں۔

حکام کے مطابق انڈونیشیا کے 12 بحری جہاز، تین ہیلی کاپٹر اور پانچ فوجی ہوائی جہاز تلاش اور بچاؤ کی کارروائی میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ملائیشیا نے ایک سی ون تھرٹی جہاز، تین بحری جہاز مہیا کیے ہیں جبکہ سنگاپور کا ایک سی وی تھرٹی جہاز بھی آپریشن میں شامل ہے جبکہ آسٹریلیا بھی جہاز کو تلاش کرنے میں مدد کر رہا ہے۔

پیر کو انڈونیشیا کے امدادی ادارے کے سربراہ نے کہا تھا کہ دستیاب معلومات سے اندازہ ہوتا ہے کہ جہاز سمندر کی تہہ میں ہو گا۔ تاہم طیارے کے حادثے کے بارے میں کوئی ٹھوس شواہد ابھی تک سامنے نہیں آ سکے۔

سورابایا کے حکام نے کہا ہے کہ امدادی ٹیمیں بحیرہ جاوا میں ہیں جہاں خدشہ ہے کہ جہاز حادثے کا شکار ہو کر ڈوب گیا تھا۔

انڈونیشیا کی سرچ اینڈ ریسکیو ایجنسی کے سربراہ بامبانگ سوئلیستیو نے کہا: ’ہمیں جو کوآرڈینیٹس دیے گئے ہیں، ان کے تجزیے سے یہ مفروضہ قائم کیا گیا ہے کہ جہاز سمندر کی تہہ میں ہو گا۔

’یہ ابتدائی اندازہ ہے، اور یہ تلاشی کی کارروائیوں کی دوران تبدیل ہو سکتا ہے۔‘

لاپتہ ہونے والا جہاز ملائیشیا کی کمپنی ایئر ایشیا کی ذیلی کمپنی ایئر ایشیا انڈونیشیا کی ملکیت ہے اور انڈونیشیا ہی میں رجسٹرڈ ہے جو مسافروں کو سستی پروازیں فراہم کرتی ہے۔
 

image

جہاز کی پرواز کا دورانیہ تین گھنٹے تھا لیکن یہ تقریباً ایک گھنٹے کے بعد غائب ہو گیا۔

اس سال ملائیشیا کی سرکاری ہوائی کمپنی ملائیشیا ایئرلائن کے دو طیارے حادثات کا شکار ہو چکے ہیں۔ البتہ اس سے پہلے ایئرایشیا کے کسی طیارے کو کوئی بڑا حادثہ پیش نہیں آیا۔

مارچ میں ملائیشیا ایئرلائن کی پرواز ایم ایچ 370 جکارتہ سے بیجنگ جاتے ہوئے لاپتہ ہو گئی تھی اور اس کا آج تک سراغ نہیں ملا۔ اس طیارے پر 239 افراد سوار تھے۔ جب کہ پرواز ایم ایچ 17 جولائی میں یوکرین کے اوپر سے اڑتے وقت مار گرائی گئی تھی، جس سے اس پر سوار تمام 298 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
YOU MAY ALSO LIKE:

Indonesian officials say search teams have spotted debris at sea in the hunt for missing AirAsia Flight QZ8501. Several objects were seen floating in the Java Sea off the Indonesian part of the island of Borneo, in one of the search zones for the plane.