انسانی جان کی ارزانی اور مہنگا بھینسا

کسی چینل پر ٹارگٹ کلرز کے انٹرویو آرہے تھے ۔ایک ٹارگٹ کلر نے بتایا کہ وہ پچاس ہزار روپئے لے کر قتل کیا کرتا تھا ۔یعنی ایک انسانی جان کی قیمت پچاس ہزار ٹہری جب کہ دوسری طرف ایک دلچسپ خبر ہندوستان سے آئی ہے کہ وہاں ایک شخص کے پاس ایک بھینسا ہے جس کی قیمت انیس کروڑ لگ گئی ہے لیکن وہ اس قیمت پر بھی اسے نہیں فروخت کررہا اس کا کہنا ہے جس بھینسے سے وہ پچاس لاکھ روپئے ماہانہ کماتا ہے وہ اسے کیوں بیچ دے ،خبر میں اس کی تفصیل دی گئی ہے کہ اس بھینسے سے جو بھینس پیدا ہوتی ہے وہ ایک دن میں ستائیس لیٹر دودھ دیتی ہے ۔ہمیں خبر کے اس حصے سے کوئی لینا دینا نہیں ہمارے لیے اصل نکتے کی بات یہ ہے کہ ایک انسان کی قیمت پچاس ہزار روپئے اور ایک جانور کی قیمت انیس کروڑ روپئے سے بھی زائد ۔یہ جو اجرتی قاتل ہوتے ہیں تو یہ ایسا کیوں کرتے ہیں ۔اس کا جواب جیل میں گرفتار ایک ایسے ہی اجرتی قاتل نے جس نے پچیس سے زائد قتل کیے ہوئے تھے دیا۔جب اس سے ایک سیاسی قیدی نے پوچھا کہ تم یہ کیسے قتل کرلیتے ہو کیا تمھیں قتل کرتے وقت کوئی دل میں رحم نہیں پیدا ہوتا کہ اپنے ہی جیسے ایک انسان کی جان لے رہے ہو ۔اس نے کہا کہ صرف پہلے قتل کے وقت اس طرح کا خیال آیا تھا لیکن جب پہلا قتل ہوجاتا ہے تو پھر اس کا دل اور ہاتھ کھل جاتا ہے لیکن وہ خود اپنے ہدایت کاروں کے ہاتھوں میں بندھ جاتا ہے ۔پھر اس نے بتایا کہ اب ہمیں اپنی جان محفوظ رکھنے کے لیے قتل کرنا پڑتے ہیں کہ کسی بھی لمحے کوئی خلاف ورزی ہو گئی تو دوسرے ہی لمحے قبر ہمارا ٹھکانہ ہوگی ۔اس طرح کے اجرتی قاتل دنیا میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں ۔پاکستان میں بھی ہر جگہ دستیاب ہو جاتے ہیں ۔پھر ان کی کئی قسمیں بھی ہوتی ہیں ۔خود اجرتی قاتلوں کا ایک گروہ ہوتا ہے ۔جو غیر سیاسی ہوتا ہے ۔یہ صرف اپنے پروفیشن پر نظر رکھتے ہیں ۔ان کی خدمات کوئی بھی فرد لے سکتا ہے چاہے وہ سیاسی ہو یا کارو باری فرد ہو بسا اوقات کچھ مافیائیں بھی ان کی خدمات حاصل کر لیتی ہیں ۔ایک دوسری قسم کچھ مافیاؤں کے اجرتی قاتلوں کا نیٹ ورک ہوتا ہے ،اب اس میں چاہے لینڈ مافیا ہو ڈرگ مافیا ہو یا بلڈر مافیا ہو اجرتی قاتلوں ایک تیسری قسم جو پچھلے بیس سالوں میں وجود میں آئی ہے ،سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ بالخصوص لسانی اور فرقہ ورانہ تنظیموں کے پا س اس طرح کا نیٹ ورک ہوتا ہے بس فرق صرف یہ ہے کہ اجرتی قاتل نہیں بلکہ فعال ورکر Activistsکہلاتے ہیں ۔ان کا معاوضہ تنظیم کے اندر ان کے نخروں کو برداشت کرنا پھر جب وہ ہتھے سے اکھڑنے لگتے ہیں تو پھر ان کا بھی حساب کتاب چکتا کردیا جاتا ہے ۔

ہمارے معاشرے میں اس کاروبار کو عروج کیوں حاصل ہو رہا ہے اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ قاتلوں کو سزاؤں کا کوئی خوف نہیں ہے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں سات ہزار سے زائد پھانسی کے قیدی ہیں اور پچھلے آٹھ سال سے کسی کو پھانسی نہیں لگائی گئی ۔اب جو دو چار کو پھانسی لگی ہے تو یورپی یونین کے پیٹ میں پھر درد اٹھا ہے ۔اس مسئلے پر الگ سے بات ہوگی ۔اس وقت زیر بحث موضوع یہ کہ ہمارے یہاں اجرتی قاتلوں کی تعداد دن بدن بڑھتی کیوں جارہی ہے اس کی ایک وجہ تو یہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے ۔دوسری وجہ معاشرتی نا انصافی اور معاشی بحران ہے تیسری وجہ عد م برداشت کا ماحول ہے بالخصوص جب سے ہمارے یہاں فرقہ ورانہ تنظیمیں وجود میں آئی ہیں انھوں نے مسلکی اختلاف میں ایسا شدت کا رنگ بھرا ہے اور نوجوانوں کے ذہن میں ایسا زہر گھولا ہے وہ اپنی جان تک دینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ۔فلاں مسلک کے لوگوں کو قتل کردو گے تو سیدھے جنت میں جاؤ گے ۔

معاشرتی ناانصافی کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں امارت اور غربت میں فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں ہم سب قناعت کی دولت سے محروم ہوتے جارہے ہیں ۔راتوں رات امیر بننے کے چکر میں ایک دوسرے کی جان لینے پر آسانی سے تیار ہو جاتے ہیں ایک طرف امیر امیر سے امیر تر اور غریب غریب سے غریب تر ہورہا ہے ۔ملک میں امن و امان کی خوفناک صورتحال کے پیش نظر معاشی ترقی کا پہیہ الٹا گھوم گیا ہے اس کے نتیجے میں بے روزگاری عام ہو رہی ہے اور جب بے روزگاری بڑھتی ہے تو لازمی طور پر لوٹ مار ،ڈکیتی اور رہزنی کی وارداتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو جاتا ہے ۔اور پھر جب ان ڈاکوؤں ،رہزنوں ،چوروں بدمعاشوں اور قاتلوں کو سیاسی چھتری فراہم ہو جاتی ہے تو پھر یہ نہ صرف اور شیر ہوجاتے ہیں بلکہ اس طرح کی وارداتوں میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے ۔

تیسرے قسم کے اجرتی قاتل جو اپنے مخالفین کی جان لیتے ہیں وہ ہیں جنھیں لسانی،علاقائی ،فرقہ ورانہ اور قوم پرست تنظیمیں اپنے یہاں پالتی ہیں ۔ہمارے ملک میں طویل عرصے تک مارشل لاء رہا ہے ملک میں جب بھی فوجی حکومتیں آتی ہیں تو وہ ملکی قومی سیاسی جماعتوں کو اپنا اصل حریف سمجھتی ہیں کہ یہ کسی وقت بھی متحد ہو کر ہمارے خلاف کوئی مہم منظم کرسکتی ہیں ،اس لیے ہر مارشل لاء کے دور میں قومی سیاسی جماعتوں کو کٹ ٹو سائز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ضیاء الحق کے طویل دور حکومت میں یہی کچھ کیا گیا تھا اسی دور میں قومی جماعتوں کو محدود کیا گیا تو لسانی علاقائی اور فرقہ ورانہ جماعتیں وجود میں آئیں ایک مثال سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ جمعیت علمائے پاکستان بریلوی طبقہ فکر کی ایک موثر نمائندہ سیاسی جماعت ہے ۔1970کے انتخاب میں اس نے سات قومی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی ۔بھٹو دور میں اس جماعت کے چار ممبران حکومت کے ساتھ مل گئے لیکن اس کے باوجود اس جماعت کا وجود برقرار تھا مارشل لاء کے دور میں اس میں سے دو جماعتیں میدان میں آئیں ایک سنی تحریک اور دوسری دعوت اسلامی ۔اسی طرح آج جتنی لسانی علاقائی قوم پرست اور فرقہ ورانہ جماعتیں ملک میں کام کرتی نظر آتی ہیں وہ مارشل لاء کا تحفہ ہیں خود ایم کیو ایم بھی ضیاالحق صاحب کی نگرانی میں تشکیل پائی کہ کراچی میں جماعت اسلامی کے اثرات کو محدود کرنے کے لیے یہ اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت تھی ۔ضیاء صاحب چونکہ بھٹو کو پھانسی دے چکے تھے اس لیے صوبہ سندھ میں سندھی عوام کے دل جیتنے کی ناکام کوشش میں انھوں سندھ کی قوم پرست جماعتوں کی دل کھول کر سرپرستی کی ۔دوسری طرف شہری نوجوانوں کے حقوق تلفی اس طرح کی جو کوٹہ سسٹم دس سال کے لیے تھا اور وہ 1983میں ختم ہوجاتا اسے مزید دس سال کے لیے بڑھا دیا گیا ۔ اس طرح کے تجزیے تو ہوتے رہیں گے اہم سوال یہ ہے یہ قتل غارتگری کا سلسلہ ختم کیسے ہوگا ۔اس کے لیے سب سے پہلے تو پھانسی کے مجرموں کی سزاؤں پر عملدرآمد جلد از جلد کردیا جائے دوسرا قدم یہ اٹھایا جائے کے اب جو اور جہاں بھی کوئی قتل ہو اس کے مجرموں کو فوری طور سے پکڑ کے مقدمہ چلایا جائے اور فوری سزا بھی دے دی جائے ۔غیر قانونی اسلحے کو اس طرح ختم کیا جائے اسے حکومت خود خرید لے۔سیاسی تنظیموں کے عسکری ونگ پر پابندی لگائی جائے ۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 60 Articles with 39954 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.